• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قارئین! آپ نے اکثر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں یہ سنا ہوگا کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال، بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ اور پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث پاکستانی بزنس مینوں نے اپنی ٹیکسٹائل کی متعدد صنعتیں بنگلہ دیش منتقل کردی ہیں جہاں انہیں یورپ میں ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی، بہتر امن و امان، بجلی، گیس اور کم اجرتوں پر کارکن دستیاب ہیں۔ ایسے ہی سرمایہ کاروں میں سے کچھ سرمایہ کار جو زیادہ منافع کے لالچ میں اپنے ملک کے ہزاروں لوگوں کو بے روزگار اور دوسرے ملک کے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے وہاں منتقل ہوئے تھے، نے اپنے فیصلے پر مجھ سے داد لینا چاہی لیکن میں نے انہیں جواباً کہا کہ پاکستان کو پہلے ہی کافی مشکلات و چیلنجوں کا سامنا ہے اور اگر میرا گروپ بھی اپنی ٹیکسٹائل صنعتیں زیادہ منافع کی لالچ میں دوسرے ملک منتقل کرتا ہے تو یہ دھرتی ماں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ میں نے انہیں یہ بھی باور کرایا کہ اب بنگلہ دیش میں بھی توانائی کا بحران شروع ہوچکا ہے جبکہ وہاں جلسے جلوس اور ہڑتالیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔
قارئین! میں یہ بات آپ کو حلفیہ بتاتا چلوں کہ بنگلہ دیش نے جب ڈینم انڈسٹریز لگانا شروع کیں تو وہاں کے ایک بہت بڑے گروپ نے مجھے مشترکہ منصوبوں کی پیشکش کی لیکن چونکہ پاکستان میں اچھے برانڈ کے لئے ڈینم کپڑا تیار کیا جاتا ہے اور اس کے برعکس بنگلہ دیش میں اُس وقت مقامی طور پر نہ تو کوئی ٹیکنیکل اسٹاف دستیاب تھا اور نہ ہی بنگلہ دیش کو اس فیلڈ میں تحقیق و ترقی(R&D) کا تجربہ تھا لہٰذا میں نے ان کی اس پیشکش پر معذرت کرلی۔ آج مجھے اپنا فیصلہ درست نظر آرہا ہے کیونکہ اپنی صنعتیں بنگلہ دیش منتقل کرنے والے پاکستانی سرمایہ کار جنہوں نے بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل اور لیدر سیکٹر میں سرمایہ کاری کی تھی، جماعت اسلامی کے لیڈر ملا عبدالقادر کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں بنگلہ دیشی حکومت کے پاکستان مخالف رویّے کے باعث ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے۔ ان کے بقول بنگلہ دیشی حکومت کا پورا جھکائو بھارت کی طرف ہے اور ہمارے مقابلے میں بھارت کے سرمایہ کاروں کو ترجیح دی جارہی ہے جبکہ ٹیکسٹائل کے بڑے بڑے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر بھی بھارتی بزنس مین چلارہے ہیں جو اپنے آرڈرز مقامی گارمنٹ انڈسٹریز سے کم اجرتوں پر مکمل کروارہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال میں پاکستان اکنامک واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے اپنی رپورٹ میں شیخ حسینہ واجد کے پاکستان مخالف رویّے پر پاکستانی سرمایہ کاروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنا سرمایہ بنگلہ دیش سے پاکستان منتقل کردیں کیونکہ بنگلہ دیش کی موجودہ حالات میں ان کی جان اور مال کسی طرح بھی محفوظ نہیں۔
پاکستان کو یورپی یونین سے جی ایس پی پلس سہولت ملنے کے بعد میں نے اپنے متعدد ٹی وی اور اخبارات کے انٹرویوز میں اس بات پر مسرت کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کی طرح یورپی یونین کے 27 ممالک میں اپنی اشیاء ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی سہولت ملنے کے بعد متعدد ایسے غیر ملکی بڑے خریدار جو اس سے قبل اپنے آرڈر بنگلہ دیش کو دے رہے تھے، اب اپنے آرڈرز پاکستان منتقل کررہے ہیں کیونکہ بنگلہ دیش کے مقابلے میں ٹیکسٹائل سیکٹر میں ہماری کوالٹی اور پیداواری حجم کافی بہتر ہے، پاکستان میں خام مال مقامی سطح پر دستیاب ہے جبکہ بنگلہ دیش میں خام مال درآمد کیا جاتا ہے اور میری اپنی ملیں کئی سالوں سے بنگلہ دیش کو کاٹن یارن اور ڈینم فیبرک ایکسپورٹ کررہی ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹریوں میں آتشزدگی کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصانات کے باعث متعدد غیر ملکی خریداروں نے بنگلہ دیش کی گارمنٹ کی صنعتوں میں اپنے آرڈر روک کر انہیں عالمی حفاظتی معیار سے مشروط کر دیا ہے جس کے بعد ہی بنگلہ دیش کی گارمنٹ کی صنعتوں کو نئے آرڈر دیئے جا سکتے ہیں لیکن اس کیلئے بنگلہ دیش کی گارمنٹ کی صنعتوں کو نئی سرمایہ کاری اور وقت درکار ہو گا۔ پاکستان اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ ہماری گارمنٹ فیکٹریاں بین الاقوامی خریداروں کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔ چین بھی پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر میں اپنی سرمایہ کاری بڑھارہا ہے۔ حال ہی میں یورپی یونین میں ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی سے فائدہ اٹھانے کے لئے چین کے روئی گروپ نے پاکستان کے ٹیکسٹائل اور توانائی سیکٹر میں آئندہ 2 سالوں میں تقریباً 2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا ہے۔ ان حالات میں پاکستانی بزنس مینوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ وزیراعظم کی ایمنسٹی اسکیم جس میں سرمایہ کاروں کو فنڈ کے ذرائع نہ بتانے کی چھوٹ دی گئی ہے، سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صنعتی سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری کریں۔
وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کاروبار دوست جمہوری حکومت اور اس کے معاشی پروگرام کے باعث متعدد غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کے مئی 2013ء کے انڈیکس 19916 کو 25307 تک بڑھ جانے کی کارکردگی کو دنیا کی ایک بہترین اسٹاک مارکیٹ قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے حال ہی میں میڈیا کے ایڈیٹرز کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ملکی معاشی اہداف پر ایک بریفنگ دی جس میں وزیر خزانہ نے بتایا کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ ہوا ہے اور مینوفیکچرنگ سیکٹر نے گزشتہ مالی سال کے اس عرصے میں 4% کے مقابلے میں 6.8%گروتھ حاصل کی ہے۔ حال ہی میں پاکستانی روپے غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم ہوا ہے جبکہ حکومت کا آئندہ ایک سال میں زرمبادلہ کے ذخائر 16 بلین ڈالر تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔ حکومت نے 3.2ملین نئے ٹیکس دہندگان کی نشاندہی کی ہے جن میں سے 1.3ملین ایسے پرانے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان ہیں جو نہ تو ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں اور نہ ہی ٹیکس دیتے ہیں جنہیں حکومت ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے اقدامات کررہی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے اپنی مدت کے خاتمے تک 36000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے اور صنعتوں کو فوری طور پر 85MMCFT گیس پاور سیکٹر سے منتقل کی ہے تاکہ صنعتوں کا پہیہ رواں دواں رہے۔
گزشتہ دنوں ایف بی آر کے چیئرمین طارق باجوہ اور ممبر لینڈ ریونیو پالیسی شاہد حسین اسد سے اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں، میں نے بتایا کہ پاکستان کو یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کی ڈیوٹی فری سہولت ملنے کے بعد ملک کی بہتر صنعتی و معاشی کارکردگی کے باعث ایف بی آر کو 2014ء میں ریونیو وصولی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا جس پر شاہد حسین نے مجھے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ملک میں صنعتی و معاشی ترقی ہو جس سے ریونیو کی وصولی میں خود بخود اضافہ ہوگا کیونکہ ان کے نزدیک ٹیکس کا حصول صنعتی و معاشی ترقی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ میں گزشتہ 20 سال سے صنعت و تجارت کی ایف بی آر میں نمائندگی کر رہا ہوں اور مجھے پہلی بار اتنا مثبت ذہنی رجحان دیکھنے کو ملا ہے جس پر میں چیئرمین ایف بی آر اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم سب مل کر موجودہ مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں تو جلد ہی پاکستان خطے کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوجائے گا۔ پاکستان ہماری دھرتی ماں ہے، اپنا ملک اپنا ہوتا ہے، ہمارا جینا مرنا یہیں ہے، ماں اگر بیمار ہو تو اسے چھوڑ کر نہیں جایا جاتا بلکہ اس کی صحت یابی کیلئے مزید خدمت کی جاتی ہے۔ میری والدہ بچپن میں اکثر مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ ’’دور کے ڈھول سہانے‘‘ ہوتے ہیں۔ پاکستان سے اپنی صنعتیں بنگلہ دیش منتقل کرنے والے سرمایہ کار بھائیوں کو یہی میرا پیغام ہے۔
تازہ ترین