• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں فتح جنگ سے اسلام آباد آ رہا تھا، دو دوست میرے ہمراہ تھے، راستے میں خبر ملی کہ کراچی میں ایک نڈر پولیس افسر چوہدری اسلم کو شہید کر دیا گیا ہے۔ ان کی شہادت بارود سے بھری گاڑی کے ٹکرانے سے ہوئی ہے۔ جس وقت یہ خبر مجھے دوران سفر مل رہی تھی سورج شام کے آنگن میں اتر رہا تھا۔ میں نے سورج کی جانب دیکھا تو ایسا لگا جیسے وہ شہداء کے لہو سے سرخ ہو گیا ہو۔ بس ایک بہادر آدمی کی رخصتی نے افسردہ کر دیا۔ دیر تک سوچتا رہا کہ اس نے ان گنت دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا، اس کے وجود سے دہشت گرد خائف رہتے تھے، وہ جتنی دیر زندہ رہا دہشت گردوں کے لئے خوف کی علامت بنا رہا۔ میں نے دوستوں سے خبر شیئر کی تو ایک دوست نے کہا کہ میرا تھانہ کوہسار میں ضروری کام ہے، اسلام آباد پہنچتے ہی سب سے پہلے یہ کام کرنا ہے۔ میں دوستوں کے ساتھ تھانہ کوہسار پہنچا تو وہاں کا ایس ایچ او حاکم خان انتہائی افسردہ بیٹھا تھا۔ حاکم خان اسلام آباد پولیس کا سوچ بچار رکھنے والا افسر ہے۔ میں نے اس سے افسردگی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ…’’آج کراچی میں ہمارا شیر شہید ہو گیا ہے۔ پوری پولیس کو چوہدری اسلم پر فخر ہے۔ چوہدری اسلم دلیر آدمی تھا، بہادر آدمی تھا۔ ایک نڈر اور بہادر آدمی کی شہادت پر افسردہ ہوں‘‘۔ حاکم خان کی بات درست تھی کیونکہ جس روز چوہدری اسلم کی شہادت ہوئی پورے پاکستان میں پولیس نے اس کی شہادت کا دکھ دلی طور پر محسوس کیا۔ چوہدری اسلم کی موت کا دکھ اپنی جگہ مگر اس کی بہادری پر فخر ہے۔ اس کی شہادت نے پولیس کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ سچّی بات یہ ہے کہ پولیس میں ایسے افسر مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ چوہدری اسلم کو نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ بیرونی دنیا کے میڈیا نے بھی ایک بہادر سپوت کے طور پر یاد کیا۔ اس کے کارناموں کو فخر کے طور پر بیان کیا۔ چوہدری اسلم نے دلیری کے کارناموں کی طویل داستان رقم کی۔ اس کے گھر والوں نے بھی ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چوہدری اسلم کی بیوہ نورین اسلم نے بہت سے ٹی وی چینلوں سے بلاخوف و خطر بات کی۔ کمال یہ تھا کہ اس خاتون کی آواز میں ذرّہ برابر لرزہ نہیں تھا۔
اس نے بڑے تحمّل کے ساتھ گفتگو کی۔ چوہدری اسلم شہید کے بچّوں کا ردّعمل بھی کم و بیش یہی تھا۔ پوری قوم نے چوہدری اسلم کو خراج تحسین پیش کیا خاص طور پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے چوہدری اسلم کی خدمات اور بہادری کو سراہا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے تو ورثا کے لئے انعام و اکرام کا اعلان بھی کیا۔ چوہدری اسلم پچھلے کچھ عرصے سے اس لئے پریشان تھے کہ ان کے شعبے کے کچھ لوگ انہیں ایس پی کے بجائے ڈی ایس پی دیکھنا چاہتے تھے۔ پچھلے کچھ عرصے میں عدلیہ کے کچھ اقدامات نے ایسے پولیس افسران کا دل توڑا جو دن رات بہادری کی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ سندھ میں انعامی پروموشن کو روک کر بہادری کو روکنے کی کوشش کی گئی کیونکہ بہت سے پولیس افسران دلیرانہ کارنامے انجام دینے کے بعد خواہشمند ہوتے ہیں کہ انہیں انعامی پروموشن مل جائے۔ کئی پولیس افسران لائن میں پڑے پڑے بغیر کسی کارنامے کے سینئر بن جاتے ہیں۔
ان کی سنیارٹی کے سبب ان لوگوں کا حق مارا جاتا ہے جو بہادری کے کارنامے انجام دیتے ہیں۔ حکومت وقت کو سوچنا چاہئے کہ بہادر لوگوں کو انعامی پروموشن ضرور ملنی چاہئے کیونکہ بزدل لوگ تو ویسے ہی ڈرتے رہتے ہیں لہٰذا پورے پاکستان میں جہاں کہیں بھی کسی پولیس اہلکار نے بہادری دکھائی ہو اسے اس بہادری کا صلہ ضرور ملنا چاہئے کیونکہ اگر بہادر افراد کی قدر نہ کی گئی تو پھر کوئی بہادری نہیں دکھائے گا۔ پھر کوئی چوہدری اسلم پیدا نہیں ہو گا پھر دہشت گردوں کے راستے روکنے والا کوئی نہیں ہو گا اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر دہشت گردوں کا راج ہو گا۔ جنرل راحیل شریف نے اچھا کیا ان کی طرف سے خراج تحسین کے بعد پولیس کے حوصلے بڑھے ہیں اور دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوئے ہیں بلکہ دہشت گردوں کو ایک واضح پیغام گیا ہے کہ پاکستانی فوج کا سربراہ ان بہادر سپوتوں کے ساتھ ہے جو دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ بہادری کی دوسری مثال اعتزاز حسین نے قائم کی ہے۔ ہنگو کے اس نوعمر نے جو کہ نویں جماعت کا طالب علم تھا، بہادری کی وہ مثال قائم کی ہے جس سے طالبان لرز کر رہ گئے ہیں۔ اس نوعمر نے اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کر کے اپنے سیکڑوں ساتھیوں کو بچایا،کئی نسلوں کو محفوظ کیا۔ اعتزاز حسین نے اپنی جان مادر وطن پر قربان کی،اس نے دہشت گردوں کے آگے نہ جھک کر یہ پیغام دیا کہ ہماری قوم میں میرے جیسے بہت سے غیرت مند نوعمر موجود ہیں جو دہشت گردوں سے خائف نہیں ہیں۔ اعتزاز حسین کے والد نے تو اور بھی کمال بہادری اور ہمت دکھائی ہے کہ انہوں نے لوگوں سے صاف کہہ دیا ہے کہ لوگ میرے گھر میں تعزیت کے لئے نہیں مبارک باد دینے کے لئے آئیں کیونکہ میرے بیٹے نے شہادت کا درجہ پایا ہے۔ نوعمر اعتزاز حسین کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ اچھا کیا سپہ سالار نے اس کی قبر پر پھول چڑھائے اور وزیراعظم نے سفارش کی کہ اعتزاز حسین کو تمغۂ شجاعت سے نوازا جائے۔
بہادری کی ان دو مثالوں نے طالبان کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔ طالبان خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ اب پاکستانی قوم میں ایسے نوعمر پیدا ہو گئے ہیں جو ان کے خلاف سینہ تان کے کھڑے ہو جائیں گے۔ طالبان نے دہشت گردی کے لئے ہمیشہ معصوم نوجوانوں کو استعمال کیا تھا۔ اعتزاز حسین کی شہادت نے طالبان کو بڑا واضح پیغام دیا ہے کہ اب کوئی نوعمر مذہب کے نام پر ان کے ہتھے نہیں چڑھے گا۔ چوہدری اسلم اور اعتزاز حسین کی شہادت سے ایک اور پیغام ملتا ہے کہ جب تک پاکستانی قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کوئی نام نہاد دہشت گرد اپنا راج قائم نہیں کر سکتا۔ یہ دو شہادتیں یہ پیغام بھی دے رہی ہیں کہ اب طالبان کی شکست یقینی ہے کہ قوم کے نوجوانوں کا جذبہ یہ ہے کہ:
خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں
مجھ کو محفوظ میری ماں کی دعا نے رکھا
تازہ ترین