• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ کےادارتی صفحہ پر بعض لکھاریوں نے ایک موضوع کو زیر بحث لا کر نت نئی اصطلاحات کے ساتھ مضامین تحریر کئے ہیں۔ کوئی سیاستدانوں کو مسخرہ لکھ رہا ہے تو کوئی فنکار، لیکن یہ ایک عجیب سا مخمصہ ہے کہ لکھنے والے سیاسی رہنمائوں کے بیان کی اپنے اپنے انداز میں تشریح کر رہے ہیں جبکہ کسی بھی غیر جانبدار لکھاری کا منصب تقاضا کرتا ہے کہ وہ تصویر کے دونوں رُخ قارئین کے سامنے رکھے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دے۔
ایک قلمکار نے سیاستدانوں کو مسخرہ اور فنکار لکھ کر سندھ 1 اور سندھ 2 کی تجویز کو ہدفِ تنقید بنایا لیکن وہ اس حقیقت پر روشنی نہ ڈال سکے کہ 70ء کی دہائی میں ہی سندھ وہ واحد صوبہ تھا جہاں دو انتظامی یونٹ سندھ دیہی اور سندھ شہری قائم ہیں جس نے لسانی اور نسلی تعصب کی خلیج کو بڑھاوا دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل(ر) پرویز مشرف ان دنوں آئین سے غداری کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بیان اور قانونی نکات کو پڑھے اور سمجھے بغیر انہیں لسانی بنیادوں پر جنرل پرویز کی حمایت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس مسئلے پر محترم حامد میر صاحب نے الزام عائد کیا کہ الطاف حسین مہاجر کارڈ کھیل رہے ہیں۔ یہ اصطلاح اس سے قبل استعمال کی گئی نہ پڑھی گئی۔ بہرحال بہت بڑا طبقہ آبادی شکر گزار ہوگا کہ انہوں نے نئی اصطلاح دریافت کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی کہ 12اکتوبر 1999ء کی کارروائی جنرل مشرف کے حکم پر ہوئی۔ ایک مہاجر جنرل(ر) شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ پڑھنے کی صلاح دے ڈالی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنیادی مطالبہ ہی یہی ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف کارروائی صرف 3نومبر2007ء تک محدود نہ رکھی جائے بلکہ اس کا دائرۂ کار 12اکتوبر1999ء تک جاتا ہے۔ اس تناظر میں محترم کا یہ مشورہ صائب نظر نہیں آتا کہ کسی جنرل کی کتاب کو پڑھ کر اس بات کا فیصلہ کیاجائے کہ غداری کب شروع ہوئی اور اس کا آغاز کیسے کیاجائے اور کس کو ملوث کیاجائے۔ تاریخ اس سلسلے میں بڑی واضح ہے۔ چند زیر بحث مضامین میں ایک ذکر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا آیا اور اس کی تعمیر کی مخالفت کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ بیرون ملک تعلیم کے حصول کا دعویٰ کرنے والے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کے اسباب بیان نہ کرسکے۔ بنیادی طور پر اس ڈیم کی راہ میں حائل 3 بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اوّل چشمہ رائٹ بینک کینال کی تعمیر کے وقت ہونے والے سمجھوتے سے روگردانی، دوم نوشہرہ شہر کی بڑی آبادی کا انخلاء اور ان کی آباد کاری پیش نظر تھی۔ سوم یہ کہ اس ڈیم کی تعمیر کے مخالف پاکستان میں معاشی، معاشرتی اور سماجی عدم مساوات کے باعث پاکستان کی سا لمیت کے بارے میں بدگمان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑا طبقہ اس بات کا حامی ہے کہ کوئی بھی ڈیم قومی اتفاقِ رائے کے بغیر تعمیر نہ ہو۔
ایک اور کالم میں کالم نگار رقمطراز ہیں کہ سندھ 1 اور سندھ 2 کے مطالبے سے سندھ میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہونے لگی تھی اور موصوف پیر پگاڑا کی کافی معتقد نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف پیر پگاڑا ہی GHQ کے نمائندے نہیں، یہاں تو سب ہی ان کے نمائندے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سندھ کے لسانی فسادات کا تذکرہ کیا اور قاسم آباد (حیدر آباد) کی آباد کاری کا شاخسانہ انہی فسادات کو قرار دیا لیکن افسوس کے ساتھ پھر کہنا پڑے گا کہ یا تو یہ گڑے مردے اکھاڑتے نہیں یا پھر ان خاندانوں کا بھی ذکر کرتے جو سندھ کے دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوئے اور ان کا مال و اسباب لٹا اور ان کے کاروبار ختم ہوئے اور ان سیاسی جماعتوں کی ستائش بھی نہیں کی جاتی جو اس خلیج کو پاٹنے کے لئے معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی جدوجہد مسلسل اس امر کے لئے ہے کہ کسی طریقے سے ان بکھرے ہوئے عوام کو ایک مضبوط اور خوشحال قوم بنا سکیں۔ مجموعی طور پر قلمکار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بلاامتیاز رنگ و نسل اصلاح کی کوشش کرے۔ آج جو کچھ بھی پاکستان میں فساد برپا ہے، خواہ اُسے مذہبی انتہا پسندی سے تعبیر کیا جائے یا نسلی اور لسانی تفریق کا شاخسانہ قرار دیاجائے۔ اس کے برقرار رہنے اور برپا ہونے میں ملک کے قلمکاروں اور دانشوروں کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ صوبہ سندھ سمیت تمام صوبوں میں کسی نہ کسی بنیاد پر تفریق موجود ہے اور ہمارے قلمکاروں کے قلم کی روشنی اس خلیج کو نہ پاٹ سکی۔ البتہ بڑھاوے کا باعث ضرور رہی ہے۔ اگر مشرف کی حمایت مہاجر ہونے کی بنیاد پر کی جاتی تو 3نومبر2007ء اور 12اکتوبر 1999ء زیر بحث نہ لایا جاتا بلکہ پھر 5جولائی 1977ء اور 7اکتوبر 1958ء کے غداروں سے اس کا تقابلی مقابلہ کیاجاتا یہ کسی کی حمایت نہیں بلکہ اصول طے کرتا ہے۔ وطن عزیز کے مسائل کا حل ویسے تو آگے کی طرف دیکھنے میں ہے لیکن موجودہ عدالت جو غداری کے مقدمے کے لئے قائم کی گئی ہے، وہ ایک کمیشن نہیں بلکہ ایک مکمل، بااختیار عدالت ہے جس کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار بھی موجود ہے اور یہ امر ہم سب کے پیش نظر ہے کہ آرٹیکل 6پہلی مرتبہ روبہ عمل لایاجارہا ہے، اس سے قبل کہ اس کے تحت کسی پر غداری کا مقدمہ چلے، فاضل عدالت آرٹیکل 6کی تشریح کرکے اس بات کا تعین کردے کہ یہ ماضی سے نافذ العمل ہے یا اس کا اطلاق مستقبل سے ہوتا ہے اگرچہ ماضی سے ہوتا ہے تو اس کا آغاز 3نومبر سے کیاجائے، 12اکتوبر سے کیا جائے، 5جولائی 1977ء سے کیا جائے یا 7اکتوبر 1958ء سے کیاجائے۔
وطن عزیز کا نظام جمہوریت ہمیشہ مشکلات کا شکار رہا ہے جو فیصلے ملک کے عظیم تر مفاد کے نام پر کئے گئے وہی فیصلے بعدازاں انتشار کا باعث بنے ۔ہمارے لئے سب سے پہلے پاکستان کا جغرافیہ مقدم ہونا چاہئے اسکی مضبوطی کیلئے مسائل پر بحث ومباحث کرتے وقت نفرت کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمارے پیش نظر مسائل کا حل ہونا چاہئے ہمارے ہاں صوبوں کے قیام کی بحث کوزندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ اقوام کا تجربہ یہ سکھاتا ہے کہ یہ ترقی کا کلیہ ہے ۔لیکن ہماری مجموعی سوچ نسلی ،لسانی اور گروہی تفرقات کے تابع نظر آتی ہے اگر ہم اس جمود سے باہر آنے میں کامیاب ہوں تو تمام مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں لیکن افسوس ہمارے مضامین دوسرے طبقے کو مشتعل کرنے کا سبب بنتے ہیں اورمسائل نہ صرف جوں کے توں رہتے ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہو رہا ہے ۔لہٰذا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری کے مفروضوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد اپنی اپنی ذمہ داری پوری کے اصلاح کی جانب آگے بڑہیں اور انتشار سے بچیں۔
تازہ ترین