• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ اور مردم شماری کا مرحلہ

سال رواں مالیاتی نقطہ نظر سے خاصا اہم ہے، اس عرصہ میں ایک تو وفاقی حکومت کو نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے لئے ڈھانچہ قائم کرنا اور یکم جولائی سے اس کا نفاذ کرنا ہے۔ اس سے قبل آئینی تقاضے کی تحت نئی مردم شماری بھی حکومت کو کرانا پڑیگی۔ موجودہ حکومت کو یوں تو ماضی سے کئی مسائل و مشکلات جہیز میں ملی ہیں جس میں کچھ کی نشاندہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار یکم جنوری کو میڈیا کو بریفنگ میں کرچکے ہیں جبکہ کچھ کا تذکرہ اکثر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی تقاریر میں کرتے رہتے ہیں۔ اس سال کے پہلے سے موجودہ چیلنجوں میں سے سب سے بڑا چیلنج توانائی کے بحران، گورنس اور دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کا ہے۔ یہ چیلنجز حل کرنے کے لئے حکومت کی کوششوں سے ابھی عوام مطمئن نہیں ہوئے اور نہ ہی فوری مطمئن ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر انہیں بجلی اور گیس ملنا بھی شروع ہوگئی تو اس کے ٹیرف اتنے زیادہ ہوںگے کہ اس سے عام آدمی کا بجٹ یہ اخراجات برداشت نہیں کرسکے گا۔ اس سے ہٹ کر قومی سطح پر صوبوں کو مطمئن کرنے کے حوالے سے ایک چیلنج نئے مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا ہے جس میں اب ہر صوبہ چاہے گا کہ اسے زیادہ سے زیادہ وسائل ملیں تاکہ اس کے معاشی حالات ٹھیک ہوسکیں جبکہ وفاقی حکومت چاہے گی کہ اس کے وسائل میں کمی نہ ہو۔ تھوڑی بہت ایڈجسٹمنٹ ہوجائے، اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا اور سندھ کی طرف سے سیاسی پس منظر میں وفاق کو خاصا دبائو قبول کرنا پڑیگا جبکہ بلوچستان حکومت بھی پسماندگی کے نام پر زیادہ سے زیادہ فنڈز کے حصول کی کوشش کریگی۔ اس طرح2014ء میں حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج نئے مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ اس کے لئے ہر صوبے کی سیاسی سوچ اور معاشی ضروریات میں توازن ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ چاروں صوبوں کے پارلیمانی لیڈروں کی کمیٹی بنا کر ابھی سے معاملات صحیح کرنے کی حکمت عملی بنالیںدوسری صورت میں اس سے قومی یکجہتی کے لئے کئی نئے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں ۔اس کے لئے تمام قومی اداروں کو ایک سوچ کے تحت ریاست اور وفاق کے مفاد کو ملحوظ رکھنا ہوگا جو وقت اور حالات کی بہترین ضرورت ہے۔نئے مالیاتی ایوارڈ میں وسائل کی تقسیم کے لئے آبادی کی بنیاد پر پنجاب کو زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ہوسکتا ہے کہ اس دفعہ پنجاب کو بڑے بھائی کے طور پر کچھ نہ کچھ قربانی دینا ہوگی۔ اس سلسلہ میں وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کو چاہئے کہ وہ پنجاب کو متنازعہ ہونے سے بچائیں اور چھوٹے صوبوں کو چھوٹا بھائی سمجھتے ہوئے وسائل کی صحیح اور منصفانہ تقسیم پر آمادہ کریں کیونکہ حقیقت میں پنجاب کوا گر آبادی کے تناسب سے زیادہ وسائل ملتے ہیں تو اس کا قومی محاصل اور پیداوار میں بھی تو زیادہ حصہ ہے۔ دوسرا یہ کہ پنجاب زرعی اور صنعتی شعبہ میں بھی قومی سطح پر زیادہ افراد کو روزگار اور دوسری سہولتیں بہتر انداز میں فراہم کررہا ہے۔ کئی عالمی ادارے بھی پنجاب کی کارکردگی سے مطمئن ہیں مگر اب کی بار صورتحال عملاً مختلف نظر آرہی ہے۔ اس لئے کہ یہ معاملہ وفاقی حکومت اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ پہلے مردم شماری اور پھر قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ ،پہلے مردم شماری کی صورت میں ظاہر ہے کہ تمام صوبوں کی آبادی بڑھ جائے گی اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ نئی مردم شماری کی صورت میں قومی سطح پر آبادی کا حجم 20کروڑ سے بڑھ جائے گا جس میں نوجوانوں کی تعداد11کروڑ سے بھی زائد ہوگی۔ اس صورت میں FBRاور ریونیو اکٹھا کرنے والے دیگر اداروں کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی اور دوسری طرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو محدود وسائل کے باعث غیر ضروری اخراجات میں کمی اور غیر ضروری ڈیمانڈز میں کمی کرنا ہوگی ورنہ ملک میں سماجی سطح پر مسائل اور انتشار کا ایک نیا طوفان پاکستان دشمن طاقتوں کو مزید کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں یکجہتی کی ہر لحاظ سے اشد ضرورت ہے جس میں ساری قوم کو مل جل کر قربانی کے جذبے کے تحت معاملات چلانے کا عادی بننا ہوگا ورنہ جمہوریت ہو یا آمریت سب کو ایک ہی طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑیگا اور قوم کی پریشان ہی رہے گی حالانکہ اگر گورنس اور معاشی انصاف کو ٹھیک طریقے سے چلا یا جائے تو پریشانی یا فکر والی کوئی بات نہیں ہے۔
تازہ ترین