• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم ہم ہیں۔ اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ بات اٹل ہے۔ دو دونی چار ہوتے ہیں۔ دو دونی تین یا دو دونی پانچ نہیں ہوتے اس لئے ہم ہم ہیں! آپ بجا طور پر سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کم تر بڈھا جس نے صیغۂ واحد میں بدلتے ہوئے زندگی گزار دی ہے، اس نے اچانک صیغہ جمع میں کیسے بولنا شروع کر دیا ہے! معاشی یا سیاسی حالات سے چکرا کر کہیں بائولا تو نہیں ہو گیا ہے! اس نے ایک رات کہیں کسی پولیس لاک اپ میں تو نہیں گزاری ہے،اچھی خاطر مدارات ہوتی ہے تھانے میں۔
مگر میں نے کسی تھانے پر رات نہیں گزاری تھی،کسی نے میری خاطر مدارات نہیں کی تھی۔ بس ہم ہم ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، ہم ہم ہیں۔ اب خدا کے لئے یہ مت سوچئے گا کہ میری لاٹری نکل آئی ہے۔ پاکستان میں لاٹری پر بندش ہے، سٹہ بازی پر بھی پاکستان میں بندش ہے، ہر اس کام پر بندش ہے جو غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔ آپ شرط نہیں لگا سکتے۔ آپ اگر شرط لگانا چاہتے ہیں تو آپ ریس میں دوڑنے والے گھوڑوں پر شرط لگا سکتے ہیں۔ ریس میں چار ٹانگوں والے گھوڑوں سے تین ٹانگوں والے گھوڑے آگے نکل جاتے ہیں لیکن اسٹاک مارکیٹ میں آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ کوئی آپ پر سٹہ بازی، جوا اور لاٹری کے کھلنے کا الزام نہیں لگائے گا۔ میں سے ہم ہونے کیلئے ہم نے سٹے بازی نہیں کی ہے، جوا نہیں کھیلا ہے۔ جہاں تک لاٹری کا سوال ہے، ہماری لاٹری ایکسچینج میں اس لئے نہیں نکلتی کہ ہم شیئر بازار میں متروکہ سکّے کی طرح چل نہیں سکتے۔ میں سے ہم بننے کیلئے ہمیں کسی پیر سائیں نے دعا نہیں دی تھی۔ پیر سائیں ہمیں بددعا دیتے ہیں۔ پیر سائیوں نے ہمارے خلاف واجب القتل ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا ہے۔ تو پھر ہم، میں سے ہم کیسے بنا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حال ہی میں ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہمارے آبائو اجداد لکھنؤ، دلّی یا حیدرآباد دکّن کے نواب تھے؟ نوابوں کے بٹیر بھی ہم ہوتے ہیں۔ ہم نے آج تک کسی بٹیر کو صیغۂ واحد میں بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ایک بٹیر کو ہم نے یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ نواب صاحب ہمیں گود میں بٹھا کر اپنے مخملی ہاتھوں سے برفی کھلاتے ہیں۔ نواب صاحب کی پارٹی کی طرف سے ہم سینیٹر بنیں گے اور انشاء اللہ نواب صاحب کی دعائوں اور حمایت سے ہم آپ کو پاکستان کا منسٹر فار انٹرٹینمنٹ بن کر دکھائیں گے۔ لطیفے سنا کر، شکلیں بنا کر ہم آپ کو ہنساتے رہیں گے۔
لیکن ہم کسی نواب کے بٹیر نہیں ہیں۔ ہم جادوگر بھی نہیں ہیں، اس کے باوجود ہم اگر چاہیں تو کسی گمنام کو راتوں رات نامور بنا سکتے ہیں۔ ہم چاہیں تو کسی احمق کو دانشور بنا سکتے ہیں۔ کسی ٹھگنے کو قدآور بنا سکتےہیں۔ انڈے سے نکلے ہوئے چوزے کو باز بنا سکتے ہیں۔ ہاتھی کو چوہا اور چوہے کو ہاتھی بنا سکتے ہیں۔
کہانی سچّی ہو، جھوٹی ہو، چاہے من گھڑت ہو ہم آپ کو سناتے ہیں۔ بات بنانے، بات بتانے اور بات سنانے کا ہمارا انداز کچھ ایسا ہے کہ آپ ہماری بات ماننے اور بات پر اعتبار کرنے لگتے ہیں۔ بہت پہلے کی بات ہے ہم نے آپ کو ایک بچّے کے بارے میں ایک حیرت انگیز کہانی سنائی تھی۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ بچّہ امیر تھا یا غریب تھا۔ وہ بچّہ عجیب و غریب تھا۔ دو آنکھوں کے علاوہ اس بچّے کے ماتھے پر یعنی اس بچّے کی پیشانی پر تیسری آنکھ تھی۔ وہ کہانی اخباروں کی زینت بنی تھی۔ مرحوم زیڈ اے بخاری نے میڈیا میں ہم نئے رنگ روٹوں کو لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا ایک ہیبت ناک اژدہا ہے۔ اسے روزانہ کھانے کیلئے ٹنوں خبریں، واقعات، واردات، قصّے کہانیاں اور چپقلشیں چاہئیں۔ ورنہ چوبیس گھنٹے لگاتار چلنے والے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر آپ لوگوں کو سنانے کیلئے کیا سنائیں گے اور دکھانے کیلئے کیا دکھائیں گے؟ دس دس، بیس بیس صفوں والے بے شمار اخبارات کے صفحات کیسے بھریں گے؟ اس طرح کے لیکچر ہم نے آج سے پینتالیس، پچاس برس پہلے سنے تھے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے کچھ ماہرین زیڈ اے بخاری کو "Father of media in Pakistan." فادر آف میڈیا ان پاکستان کہتے ہیں۔
اسی طرح ایک بچّی کے بارے میں ہم نے حیران کن خبر آپ کو سنائی تھی۔ پیدائشی طور پر بچّی کے کندھوں پر دو چھوٹے چھوٹے پر تھے۔ نجومیوں نے والدین کو بتایا کہ ان کی بچّی جب ایک سال کی ہو گی تب پرندوں کی طرح اڑنے لگے گی۔ ایسی خبریں شائع ہونے کے بعد کسی پڑھنے والے نے پلٹ کر ہم سے یہ نہیں پوچھا کہ تین آنکھوں والے بچّے اور پروں والی بچّی کا کیا بنا؟ ہم جو بات آپ کو بتاتے اور دکھاتے ہیں آپ من و عن قبول کر لیتے ہیں۔ صدیوں سے لوگ خداحافظ کہتے تھے۔ ہم نے حال ہی میں جب اللہ حافظ کہنا شروع کیا تو لوگوں نے خدا کو چھوڑ دیا۔ سب نے اللہ حافظ کہنا شروع کر دیا۔ اس مثال سے آپ ہماری طاقت اور اثر کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک نوغیر لڑکا جس کے ہونٹوں پر برگر سے رس کر نکلنے والی کیچ اپ لگی رہتی ہے، اس کو ہم نے پاکستان کی نئی قیادت کے لقب سے نوازا۔ وہ قریبی دوستوں میں ڈسکو دیوانہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان میں روزانہ کئی خواتین کی بے حرمتی ہوتی ہے مگر ہم نے جب ایک مختاراں مائی کا کیس اٹھایا تو اسے اقوام متحدہ کے ایوانوں تک پہنچا دیا اور اسے دنیا بھر میں مشہور کر دیا۔ اس دوران مختاراں مائی نے آپ بیتی شائع کروا دی جو دنیا کی اٹھائیس زبانوں میں ترجمہ ہو کر کروڑوں کی تعداد میں بکی۔ طالبان روزانہ بچیوں کو مارتے اور قتل کرتے ہیں۔ ہم نے جب ایک ملالہ کا کیس اٹھایا تو اسے بھی اقوام متحدہ کے ایوانوں تک پہنچا دیا۔ دنیا بھر میں مشہور کر دیا۔ ملالہ نے بھی کتاب لکھی جو تیس زبانوں میں ترجمہ ہوئی اور کروڑوں کی تعداد میں بکی، ایسے ہوتے ہیں ہم!
ایسے ایسے سیاستدان جو صبح دیئے ہوئے اپنے بیان سے شام ہونے سے پہلے مکر جاتے ہیں، ان کو ہم نے ہوّا بنا دیا ہے۔ ہم زیرو کو ہیرو بنانے کا گر جانتے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے آج تک کسی تگڑے کو بنگلہ نہیں بنایا۔ یہاں یہ الگ بات ہے کہ گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکّا دینے والوں میں ہم سب سے آگے ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہم نے کرشمہ دیکھا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے کرچی کرچی ہو گیا تھا۔ ایک جرنیل صاحب نے ملک پر مارشل لا مسلّط کر دیا تھا۔ ہم نے اسے قطعی نظر انداز کر دیا۔ ہم نے ایسا رویّہ اختیار کیا جیسے ملک میں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اس کے غیر جمہوری اقدام کیلئے کچھ نہیں کہا گیا۔ عدالت نے جرنیل صاحب کے اقدام کی توسیع کر دی اور کہا کہ ملک کو ایک عدد مارشل لا کی سخت ضرورت تھی۔ ہم نے عدالت کے احکامات کو نظرانداز کر دیا۔ ایک لفظ اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن سے براڈ کاسٹ نہیں ہوا۔ تب ایسے محسوس ہوا تھا جیسے جرنیل صاحب نے خلا میں مارشل لا لگایا تھا۔ جرنیل صاحب بوکھلا گئے۔ ایسے ہوتے ہیں ہم! پھر نہ جانے کس نے جرنیل صاحب کو کسی گھر کے بھیدی کی طرح ہماری کمزوریوں سے آگاہ کر دیا۔ نتیجتاً جرنیل اور جرنیلی احکامات کو ہم نے خوب سراہا۔ جس مارشل لا کو ہم نے خلائوں میں دھکیل دیا تھا اسی مارشل لا کو ہم نے زمین پر مسلّط کر دیا۔ ہم نے ایسا کیوں کیا؟ ہماری مرضی۔ آپ کون ہوتے ہیں ہم سے پوچھنے والے!
تازہ ترین