• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں صرف وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی چلی جاتی ہیں جو علم و ہنر کی قدر کرتی ہیں جو خود علم و ہنر سیکھتی ہیں اور دوسروں کو سکھاتی ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے علم و ہنر و حکمت کی دولت چھوڑ کر چلی جاتی ہیں اور جو حکمران ایسی تاریخ ساز پالیسیاں اور اقدامات کرتے ہیں وہ ہمیشہ تاریخ کی زینت بنے رہتے ہیں اور جو قومیں اہل دانش اور اہل حکمت کی قدر کرتی ہیں ان کو کبھی زوال نہیں آتا۔
ای لرننگ / ای ایجوکیشن دنیا کے کئی ممالک میں پچھلی کئی دہائیوں میں شروع ہوئی اور یہ طریقہ تعلیم بہت جلد مقبول ہو گیا اور آج دنیا کے کئی ممالک ای لرننگ کی طرف جا چکے ہیں۔ امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی اور کیلی فورنیا یونیورسٹی میں 1960ء میں ای لرننگ شروع ہو چکی تھی جبکہ دنیا کے دیگر ممالک اور شہروں میں مثلاً نیو جرسی 1970ء، روس 1970ء، کینیڈا 1986ء، کولمبیا 1995ء، افریقہ 1999ء، چین 2004ء، انگلستان 2007ء اور سنگا پور میں 2008ء میں شروع ہو چکی تھی۔
آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) میں 1992ء میں ای لرننگ شروع ہو چکی تھی، بنگلہ دیش نے ہم سے علیحدہ ہو کر کئی شعبوں میں ترقی کر لی ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے جس نئے انداز میں ای لرننگ کو متعارف کرایا وہ لائق تحسین ہے۔ یعنی اب اسٹوڈنٹس کو نویں اور دسویں جماعت سائنس اور حساب کی تمام کتب آن لائن گھر بیٹھے بالکل مفت دستیاب ہو گئی ہیں اور آگے چل کر چوتھی اور پانچویں جماعت کی کتب بھی آن لائن آ جائیں گی۔ میاں محمد شہباز شریف کا وژن ہے اور وہ مستقبل کی تعلیمی ضروریات اور تقاضوں سے آگاہ ہیں، اس لئے انہوں نے ای لرننگ کو متعارف کرایا ہے، وہ اسٹوڈنٹس جو کتابیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اب انہیں یہ تمام کتب آن لائن مل جائیں گی۔
ہمارا حکومت کو ایک مشورہ ہے کہ اس ای لرننگ کو صرف نصابی کتب تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسلامی تعلیمات اور صحت کے حوالے سے بھی نالج دینے کے لئے بھی استعمال کیا جائے، عوام کو اپنی صحت کو بہتر بنانے، بیماریوں سے آگاہی اور بروقت ویکسینیشن کرانے کے بارے میں بھی اس کو استعمال کیا جائے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی ای لرننگ شروع ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ باقی صوبوں تک اس مفید پروگرام کو شروع کرانے کے لئے اقدامات کرے۔حکومت پہلے ہی ہونہار سٹوڈنٹس کو لیپ ٹاپ دے چکی ہے، یعنی ای لرننگ کے لئے اسٹوڈنٹس کے پاس لیپ ٹاپ بھی ہیں، ہمارے خیال میں اگر حکومت سرکاری تعلیمی اداروں میں دوپہر کے بعد انتہائی معمولی فیس پر یا مفت کسی ایک کمرے میں ای لرننگ کے لئے سنٹرز بنا دے، جہاں پر ایسے اسٹوڈنٹس جو تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی جاب یا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں، وہ ان سنٹروں میں جا کر ای لرننگ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ای لرننگ کے اس بڑے منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں پاکستان میں پہلی سرکاری آئی ٹی یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر سیف کو کریڈٹ جاتا ہے جنہوں نے شہباز شریف کے وژن کو آگے بڑھایا، اس سے قبل وہ شعبہ صحت، ٹریفک کے نظام اور پٹواری کے نظام کو بھی کمپیوٹرائزڈ کرنے میں اپنے جوہر دکھا چکے ہیں۔
نوجوانوں میں کتب بینی کے شوق کو دوبارہ پیدا کرنے کے لئے ای لائبریریاں بھی شروع ہو رہی ہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ نصاب کے علاوہ انتہائی نادر اور نایاب کتب کو فوری طور پر محفوظ کرکے انہیں ای لائبریریوں میں منتقل کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت سارا زور انگریزی پر نہ دے بلکہ اردو زبان کے فروغ پر بھی توجہ دے۔
ای لرننگ کی تقریب کی ایک خوبصورت بات یہ لگی کہ وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے وزیر تعلیم رانا محمد مشہود خان کو خود اسٹیج پر کہا کہ تقریر اردو میں کریں اور وی سی آئی ٹی ڈاکٹر عمر سیف نے بھی اردو میں تقریر کی، یہ ایک اچھی روایت ہے ہمیں سائنسی علوم دیگر کتب اور نالج والی کتب کو اردو میں منتقل کرنے کا کام بھی ہنگامی بنیادوں پر شروع کرنا چاہئے، اس مرتبہ پنجاب یونیورسٹی کے کانووکیشن کے دعوتی کارڈ اور پروگرام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید مجاہد کامران نے اردو میں چھاپے جو بہت پسند کئے گئے، اردو زبان اتنی کمزور یا کم الفاظ کا ذخیرہ نہیں رکھتی کہ انگریزی کے الفاظ کا ترجہ نہ ہو سکے، کیا دفتری خط و کتابت اردو میں نہیں ہو سکتی؟ قائداعظم نے خود فرمایا تھا کہ ’’میں اردو کی خدمت کو قوم کی خدمت سمجھتا ہوں‘‘ جلسہ عطائے اسناد، عبائے فضیلت، عطائے اجازت اور علمی جلوس کی آمد، کے الفاظ اگر ہم اپنے کانووکیشن میں بولتے ہیں تو کیا اس سے ہماری شان اور عزت میں فرق پڑ جاتا ہے؟
حکومت پنجاب نے 9سے زائد مختلف اقسام کی سوسائٹیوں کو حکومتی دائرہ کار میں لانے کا منصوبہ بنا رہی ہے جو واقعی بہت اچھا قدم ہے، ان مختلف سوسائٹیوں کی تعداد سینکڑوں اور ممبران کی تعداد ہزاروں ہے، حکومت کے پاس صرف 362 ہائوسنگ سوسائٹیاں رجسٹرڈ ہیں اور بے شمار ایسی ہیں جو رجسٹرڈ نہیں اور غیر قانونی کام کر رہی ہیں مثلاً لاہور شہر کے راوی ٹائون 7ہائوسنگ اسکیموں کو حکومت غیر قانونی قرار دے چکی ہے ذرا سوچیں پورے ملک میں ایسی کتنی ہائوسنگ اسکیمیں ہوں گی جو لوگوں کو ان کی زندگی بھر کی کمائی سے محروم کر رہی ہیں، لیکن ان میں سوائے ڈی ایچ اے لاہور کے کوئی ہائوسنگ سوسائٹی رول ماڈل نہیں، حکومت نے ہر ہائوسنگ اسکیم کی انتظامیہ کو پابند کیا ہوا ہے کہ جب بھی کوئی ہائوسنگ اسکیم شروع کی جائے گی اس میں مسجد، لائبریری اور قبرستان ہو گا، مگر افسوس کہ ڈی ایچ اے لاہور کے علاوہ کسی ہائوسنگ اسکیم میں لائبریری نہیں، پھر جب حکومت کے سامنے ایک رول ماڈل موجود ہے پھر حکومت کیوں نہیں ڈی ایچ اے لاہور کے رول ماڈل سے استفادہ کرتی؟ حکومت ایک طرف ای لائبریریوں اور کتب بینی کو فروغ دینا چاہتی ہے تو دوسری طرف پنجاب کی سینکڑوں ہائوسنگ اسکیموں میں کوئی لائبریری نہیں۔ حکومت ہائوسنگ اسکیموں کو دائرہ کار میں لانے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرکے کوئی اسکیم بنائے گی کئی ماہرین کو بلائے گی؟ وقت اور پیسے کا ضیاع کرے گی تو اس سے بہتر نہیں کہ ڈی ایچ اے لاہور کے افسروں سے بریفنگ لے اور کام شروع کرے۔ حکومت کو چاہئے کہ جو ہائوسنگ اسکیمیں بڑے بڑے دعوے کرکے عوام کو سہولتیں نہیں دے رہیں، ان کے خلاف انہی اشتہارات کی روشنی میں سخت ترین کارروائی کی جائے، بے شمار سوسائٹیوں نے عوام کے ساتھ فراڈ اور دھوکے کئے ہیں۔ وزیراعلیٰ صاحب ایک کھلی کچہری آپ ان دو نمبر ہائوسنگ اسکیموں کے بارے میں بھی لگائیں۔
ہمارے ملک کے معروف صحافی، دانشور، سینئر کالم نگار اور دوست سید انور قدوائی نے حال ہی میں انتخابات کے بارے میں ایک ایسی خوبصورت کتاب مرتب کی ہے جسے ہم کتاب نہیں بلکہ ایک تاریخی دستاویز کا نام دیتے ہیں، معروف مذہبی اسکالر اور روحانی شخصیت جناب سرفراز اے شاہ صاحب نے تو اسے بہترین کتاب اور دستاویز قرار دیا ہے۔ جب تک پاکستان کا وجود قائم رہے گا یہ دستاویز سیاسیات کے طالب علموں، سیاست دانوں، حکمرانوں بلکہ فوج کے لئے رہنمائی کا باعث رہے گی، انہوں نے 1946ء کے الیکشن سے لے کر 2013ء تک ہونے والے تمام انتخابات کی ایک ایسی خوبصورت تاریح مرتب کی ہے جو اس سے پہلے کسی نے اس منفرد انداز میں نہیں لکھی، اس کتاب پر لکھی ہوئی کیچ لائن ’’قصر جمہوریت کی پہلی سیڑھی‘‘ بہت متوجہ کرتی ہے، قدوائی صاحب نے اس کتاب میں چند نایاب تصاویر بھی شامل کی ہیں، کتاب کو پڑھنے کے بعد ’’جھرلو‘‘ کے بارے میں بھی کچھ اشارے ملتے ہیں، اس تاریخی مواد کو کتابی شکل دینے میں کالم نگار محمد ساجد خان اور دانشور فرخ سہیل گوئندی کا بھی حصہ ہے، بہرحال ہمارے نزدیک یہ ایک معیاری کتاب ہے اور قدوائی صاحب کو اپنے مشاہدات کے حوالے سے مزید اس طرح کی کتابیں لکھنی چاہئیں۔
تازہ ترین