• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت ہی گندی، میلی اور گدلی سی دھوپ ہے۔ گرمیوں میں انسان چھائوں ڈھونڈتا اور سردیوں میں دھوپ کی طرف لپکتا ہے لیکن ان سردیوں کی بیشتر دھوپیں ملگجی سی ہیں۔ مصنوعی گرمی مختلف قسم کے ہیٹروں سے ملتی ہے پر یہ دھوپ جیسی نہیں ہوتی لیکن ’’مدر نیچر‘‘ سے کون لڑ سکتا ہے کہ اس کے سامنے تو نپولین اور ہٹلر جیسے جنگجو ہار جاتے ہیں۔ مجھے نہ بیڈ روم میں سکون نہ سٹڈی میں اور نہ ٹیرس پر اس لئے سوچ کی آوارگی بہت ہی محدود ہو گئی لیکن اس موسم سرما میں ’’برسات‘‘ میرا سہارا بن گئی۔ سرما میں برسات کا مطلب وہ پانی والی برسات نہیں .... کتابوں کی برسات ہے جو نہال کئے دیتی ہے۔ ان پندرہ بیس کتابوں میں سے فی الحال صرف دو کتابوں کی بات کروں گا۔
اول جند جان شاعر نذیر قیصر کا تازہ ترین مہکتا دہکتا شعری مجموعہ ’’محبت میرا موسم ہے‘‘ شاعری انسانی روپ دھارتی تو نذیر قیصر کی شکل میں دکھائی دیتی۔ سبحان اللہ اس کا ایک قدیم نعتیہ شعر دیکھئے۔
میں اور منزل دور کی
چھتری کھلی کھجور کی
اسی انوکھے پن کا دوسرا نام نذیر قیصر ہے جس کے بارے میں فیض احمد فیض لکھ گئے، ’’نذیر قیصر ایک منفرد شاعر ہیں مگر ان کی انفرادیت اجتماعی شعور سے وابستہ ہے۔‘‘ احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں کہ .... ’’نذیر قیصر کو جدید شاعری کے معماروں میں شامل کرنا چاہئے۔‘‘ بانو قدسیہ کا خیال یہ ہے کہ .... ’’نذیر قیصر شہر سخن کا وہ بنجارہ ہے جس کے پاس ہمیشہ نئی نئی سوغاتیں ہوتی ہیں۔‘‘ منیر نیازی جیسا شعری دیوتا اس نتیجہ پر پہنچا کہ ....’’نذیر قیصر کی شاعری کسی چمکتے چاند کی طرح طلوع ہوئی ہے اس شہر ظلمات کو شہر طلسمات بنا دینے کیلئے ’’اور میرے استاد حضرت ظفر اقبال نے فرمایا ہے کہ ..... ’’نذیر قیصر کا شمار جدید شاعری کے ان گنے چنے بنیاد سازوں میں ہو گا جو شاعری کا منظر نامہ ہی تبدیل کرتے نظر آتے ہیں۔‘‘
ایسے دیو قامت لوگوں کی آرا کے ساتھ میں کیا لکھوں؟ میں کیا میری بساط کیا لیکن نذیر قیصر کا ’’شاعری نامہ‘‘ چکھاتا ہوں جسے چالو زبان میں دیباچہ کہتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے۔
’’لوگوں کے پیٹ دیگوں کی طرح ابل رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں اور زبانیں باہر لٹک رہی ہیں۔ وہ حرف و معانی کی گرہیں فکر سے نہیں دانتوں سے کھولتے ہیں۔ ان کے بوڑھے دانتوں سے چبائے ہوئے لفظ لہو لہان ہیں۔
اس TRAGIC JOKE کلچر کے لہولہان اندھیرے میں حسن نثار میرے دوست تمہاری پکار کون سنتا ہے؟ مگر پکرتے چلے جائو ..... کیونکہ اندھیرے کی فصیل کے پار ہم کھڑے ہیں۔ تمہاری پکار کا الائو اور بہائو ہم تک پہنچ رہا ہے۔‘‘
سحر زدہ کر دینے والی اچھوتی شاعری کے چند نمونے ۔
جب مرا سامنا ہوا تجھ سے
کیوں خدا درمیان میں آیا
..............................
قیصر اپنے خدا سے ہم کو بھی
ایک امید ہے جو شک سی ہے
..............................
محبت میں کسی کو کیا ملا ہے
محبت ہی محبت کا صلہ ہے
..............................
ابھی سویا ہوا ہوں میں
کسی دن جاگ جائوں گا
..............................
راتیں جل تھل کر دے سائیں
مجھ کو پاگل کر دے سائیں
..............................
پناہ مانگتی ہے ان سے موت بھی قیصر
جو زندہ لوگوں کی قبریں بنانے لگ جائیں
..............................
ہوئی لہو سے دوات خالی
پڑی ہے لوح نجات خالی
..............................
ایک ہوک یاہو کی
جیوے قبر باہو کی
شاہ حسین بلھے شاہ
روشنی ہے خوشبو کی
سلسلہ چراغوں کا
داستان مادھو کی
..............................
سمیٹے جا چکے ہیں سارے مہرے
بساط حکمرانی رہ گئی ہے
..............................
اور اک رات جی لیا اس نے
چاند کھڑکی میں سی لیا اس نے
..............................
دل مٹھی میں بند کیا
میں نے تجھے پسند کیا
..............................
اب کے تو کمال ہو گیا ہے
بچھڑے ہوئے سال ہو گیا ہے
قارئین!
معاف کیجئے ’’محبت میرا موسم ہے‘‘ میں اس طرح بہتا گیا کہ اب دوسری کتاب کے ذکر کی گنجائش ہی نہیں، پھر کبھی سہی کہ فی الحال محبت کا موسم ہی بہت کافی ہے۔
تازہ ترین