• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہنگو کا پندرہ سالہ بچہ اعتزاز حسن پاکستان کے مرکزی اور صوبائی حکمرانوں کے مقابلے میں بہادر نکلا جس نے اپنے اسکول پر خودکش حملے کی سازش ناکام بناتے ہوئے خود کش حملہ آور کو اپنے ہدف کی جائے واردات پر پہنچنے سے قبل ہی جا لیا اور اسے پکڑنے کی کوشش میں موت کو گلے لگایا۔ اسی طرح اعتزاز حسین نے اپنے کئی اسکول کے ساتھیوں اور اساتذہ کی جان بچاکر ایک ناقابل فراموش اور حقیقی ہیرو کا مقام حاصل کرلیا۔ اعتزاز حسن اپنے آبائی صوبے خیبر پختونخوا چاہے مرکز میں براجمان اقتدار حکمرانوں اور حکمران پارٹیوں کے سربراہان سے زیادہ باہمت اور بہادر ثابت ہوا جودہشت گردی کی مذمت میں زبانی جمع خرچ تو کرتے ہیں لیکن دہشت گردوں کا نام لینے سے وہ اس طرح ہچکچاتے ہیں جیسے قدامت پسند علاقوں میں کبھی کچھ خواتین (شاید آج بھی) اپنے منگیتروں اور شوہروں کا نام لینے سے شرماتی ہیں۔ اعتزاز حسن اور ملالہ یوسف زئی، بےنظیر بھٹو، گورنر سلمان تاثیر، شہباز بھٹی،بشیر بلور سمیت ایسے کئی سویلین چاہے فوج، پولیس، دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ہزاروں افراد تھے جو دہشت گردوں کو للکارتے لڑتے اپنی جانوں کے نذرانے دیکر زندہ و جاوید بن گئے۔ وہ اور غریب سپاہ اور چھوٹے پولیس افسر ایسے بھی تھے جن کی تدفین بھی انکے لواحقین نے چندہ کر کے کی ۔
جبیب ابن مظاہر بھی اک سپاہی تھا
بتانے آیا تھا معیار دوستی کیا ہے
حال ہی میں کراچی سی آئی ڈی پولیس کے ایس ایس پی چوہدری اسلم اور ان کے ہمراہ انسپکٹر کامران خان اور فرحان جونیجو کے طالبان کے ہاتھوں بزدلانہ اور دہشت گردی کی کارروائی میں قتل بھی ایک انتہائی قابل مذمت عمل اور المناک واقعہ ہے۔ چوہدری اسلم کا خاندان، انکے دوست و احباب ہمدردی کے مستحق ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہزارے کے علاقے کے اس سپوت کیلئے کچھ دنوں بعد علاقے کی لوک شاعری میں ٹپے بنائے اور گائے جائيں۔
چوہدری اسلم کو پاکستان اور پاکستان سے باہر کے میڈیا نے ایک ہیرو بنادیا ہے۔ کہتے ہیں میڈیا چاہے تو ایک بیلے ڈانسر کو کوے میں تبدیل کردے اور کوے کو بیلے ڈانسر میں۔ لیکن یہاں میڈیا نے کراچی اور سندھ کی پولیس میں خوف اور دہشت کی علامت چوہدری اسلم کو قومی ہیرو بنادیا۔ چوہدری اسلم کراچی کے لاقانونیت کے جنگل میں ایک شیر تھا۔ پاکستان جیسی پولیس ریاست میں مبینہ طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں اور ٹارچر کا بادشاہ۔ تربت میں لاپتہ نو سالہ بچے چاکر بلوچ کی تشدد شدہ لاش اور کشمور میں پولیس کے خوف سے تین عورتوں کا پانچ بچوں سمیت دریائے سندھ میں ڈوب جانا ظاہرکرتا ہے کہ پاکستان پولیس ریاست نہیں تو کیا ہے؟ الزام ہے کہ وہ ایک ایسا دبنگ پولیس افسر تھا جو ہاتھ بندھے چور پر جھپٹتا تھا۔ پولیس مقابلہ ٹھا ٹھا ٹھا اور پھر زیادہ تر جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانیوالوں کے سر پر کروڑوں کی انعامی رقومات کا بٹورنا۔ یہ رام گوپال ورما کی فلم کا مرکزی کردار پولیس افسر تھا یا میرے دوست محمد حنیف کے ناول’’ اور لیڈی ایلس بھٹی‘‘ میں جعلی مقابلوں اور ٹارچر کا ماہر انسپکٹر ملنگی جس نے اپنی راتوں کی راہی ٹیم میں ایک اور پرائیویٹ معاون ٹیڈی بٹ نامی بھی لیا ہوا تھا۔ کراچی میں اب یہ کھلا راز ہے کہ چوہدری اسلم جیسے ظالم پولیس افسروں کے مبینہ طور نجی عقوبت گاہیں اور قید خانے تھے۔
راتوں رات لوگ اٹھائے جاتے۔ انکی رہائی کیلئے لاکھوں اور کروڑہا روپوں کا تاوان وصول کیا جاتا۔ اور صرف تاوان ادا نہ کرنے یا ادا کرنے کی سکت نہ رکھنے والے یرغمالی اسی طرح کے پولیس افسران کی ٹیم کے ہاتھوں تحویلی مقابلے میں ہلاک کیے جاتے۔
بقول فراز:
ہمیں سے کوئی صبح سویرے کھیت میں مردہ پایا گیا
دہشت گرد سمجھ لو اس کو جو بھی جہاں بھی مارا گیا
بہت دنوں سے پولیس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں راتوں رات ارب پتی بننے اور ترقیاں پانے کے نسخے ہاتھ کیے ہوئے ہیں۔ پرویز مشرف کی طرح دہشت گردی کی جنگ میں ڈبل رول نے لالچی ارب پتیوں کی نئی کلاس پیدا کرلی ہے۔ بقول صحافی عاجز جمالی ارب پتی پولیس افسر ہیرو اور شہید ہوہی نہیں سکتا!
لیاری پر چوہدری اسلم کے دنوں میں ٹپی اسپانسرڈ ٹائپ آپریشن کے دوران پی پی پی کی جیالی تاج بی بی نے میڈیا والوں سے کہا تھا: ’’تم لوگ صرف فوٹو کیلئے ان لوگوں کو مار رہے ہو۔‘‘ تاج بی بی کے کہنے کا مطلب میڈیا پر فرقہ تصویر یہ کے سپہ سالار چوہدری اسلم سے تھا۔ کیا ہر وقت سفید کاٹن کے کپڑوں میں ڈیوٹی دینا قانونی تھا۔ کیا سی آئی ڈی کو بھی قانون کے مطابق یونیفارم نہیں پہننا۔ چوہدری اسلم کی میڈیا میں فقط وردی پہنے ایک تصویر ہے جب وہ سندھ کے تاحیات گورنر عشرت العباد سے تمغہ شجاعت وصول کررہے تھے۔ میں نے سوچا اپنے اپنے مقام پر کھڑے گورنر عشرت العباد اور چوہدری اسلم ایک دوسرے اور اپنے متعلق اس وقت کیا سوچ رہے ہونگے:
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
کبھی آپ نے سوچا کہ چوہدری اسلم سمیت 1990 کی دہائی میں کراچی میں آپریشن میں حصہ لینے والے سب کے سب پولیس افسر قتل ہوچکے ہیں۔ ایس ایچ او اسلم خان سے ایس ایس پی چوہدری اسلم تک پہنچنے کیلئے کتنی حکومتیں اور انکی وفاداریاں بدلیں اور دہشت گردی کے وصف بھی۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر ایجنسیوں کے ہٹ مین تھے۔ آج سے نہیں 1980 کی دہائی سے جب وہ کراچی میں فریئر تھانے پر ایس ایچ او تھے۔ بتایا جاتا ہے کئی سندھی اور بلوچ و ایم کیو ایم کے سیاسی کارکن بھی انکے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئے۔ چوہدری اسلم نے جلد ہی جان لیا تھا کہ پاکستان میں ترقی کا راستہ کہاں کہاں سے ہوکر گزرتا ہے۔ وہ سنیئر اور قانون پسند اور فرض شناس افسر اور ہیں جو چوہدری اسلم جیسے شولڈر پرموشنز حاصل کرنے والوں کے مقابلے میں کچہریوں کے چکر کاٹ رہے ہیں، کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔
کراچی میں دہشت گردی اور لاقانونیت کے جنگل میں راج ان پولیس افسروں کا ہے جو میر مرتضی بھٹو سے لیکر رسول بخش بروہی جیسوں تک کے جعلی مقابلوں میںہلاکتوں کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ تمغے حاصل کیے ہوئے ہیں۔18 اکتوبر 2007کو کراچی میں بینظیر بھٹو کو کارساز میں ان کے استقبالی جلوس کے موقع پر دہشت گردانہ حملے کی جگہ سے بچاکر بلاول ہائوس سلامت لیکرجانے والوں میں لیاری ٹاسک فورس کا ایک پولیس افسر اور رحمٰن ڈکیت ساتھ ساتھ تھے۔ کچھ عرصہ بعد اسی رحمٰن ڈکیت کو مبینہ طور پر چوہدری اسلم کی سربراہی میں گڈاپ کے قریب جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا گیا۔ اب چوہدری اسلم کے قتل کے ساتھ رحمٰن ڈکیت کے جعلی مقابلے میں کس شخصیت کے حکم پر قتل کیے جانے کی گواہی بھی ختم ہوئی۔ چوہدری اسلم جیسے پولیس افسر جو ہرن کو اپنے آپ ہاتھی کہلوادینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے نے مبینہ طور پر رسول بخش بروہی کو ڈاکو معشوق بروہی گنواکر جعلی مقابلے میں ہلاک ظاہر کیا۔ چوہدری اسلم اپنے شریک جرم ساتھیوں کے ساتھ اٹھارہ ماہ رسول بخش بروہی کے قتل کیس میں جیل میں رہے لیکن ظاہر ہے کہ بقول پروین شاکر ایک ایسا ملک جہاں:
خون بہنے سے پہلے خون بہا دے
یہاں انصاف سے قاتل بڑا ہے
اور پھر کچھ ماہ بعد یہ الزام لگے کہ چوہدری اسلم اینڈ کمپنی نے اس شہر میں اپنے ڈنر اور ناشتے پر لوگوں کو جعلی مقابلوں اور تشدد میں قتل کرنے کے معمولات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی شنڈلرز لسٹ ٹائپ گسٹاپو کارروائياں بڑھتی گئيں۔ اس سے قبل جام صادق علی اور عرفان مروت کے دنوں میں سی آئی اے کراچی سمیت کراچی پولیس پر جنرل شفیق رپورٹ کہیں سرد خانے میں پڑی ہے۔ اور اب ماورائے عدالت قتل اور تشدد کے بادشاہوں کو قومی ہیرو قرار دینے کی رسم بھی اس ملک نے ضرور دیکھنی تھی۔ وہ حکومت جو کبھی آصف زرداری کی پولیس کے ہاتھوں زبان کٹوانے میں ملوث تھی۔
رہی چوہدری اسلم جیسوں کی دہشت گردوں کے خلاف حقیقی جنگ کی بات تو اس شہر میں کل تک ایک بڑی دہشت گردی میں ملوث دائود ابراہیم بھی رہتا تھا (شاید اب بھی رہتا ہو) تو اس پر چوہدری اسلم نے ہاتھ کیوں نہیں ڈالا(شاید ہاتھ ڈالنے کا حکم بھی نہ ہو) اور ان جیسوں کی دہشت گردی کے خلاف للکار حقیقی ہوتی تو کراچی جیسے شہر پر طالبان کا اب تک غلبہ نہ ہو جاتا کہ منگھو پیر کی پہاڑیوں پر وہ اپنے جھنڈے گاڑ چکے۔ اگر وہ اتنے ہیرو تھے تو انہیں ایبٹ آباد، مانسہرہ ، اور ڈیرہ اسماعیل خان بھیجا جاتا جہاں اسامہ بن لادن سمیت بڑے بڑے دہشت گرد اصلی تے وڈے چوہدریوں کے ناک تلے چھپے بیٹھے تھے۔
تازہ ترین