• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ہی دیس میں چند میلوں کی مسافت موسم کے رنگ بدل دیتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے پاکستان کو تمام موسموں سے نواز رکھا ہے، کہیں موسموں کی شدت کا احساس ہوتا ہے اور کہیں یہ احساس مدھم ہوجاتا ہے۔ مثلاً اسلام آباد سے چند کلومیٹر دور مری بہت یخ بستہ ہے، وہاں سڑکیں اور گھر برف کا لحاف اوڑھ لیتے ہیں، اسلام آباد میں برف سے دھلی ہوئی ہوائیں جسموں کو چیرتی ہوئی گزرتی ہیں۔ اگر باقی اسلام آباد میں درجہ حرارت دو ہو تو بنی گالہ میں منفی ایک ہوتا ہے کیونکہ یہ آبادی راول ڈیم کے کنارے ہے دوسری طرف پہاڑ ہیں اور مری کی طرف سے اتری ہوئی سرد ہوائیں، چاروں اطراف میں سبزہ، بالکل کھلی فضا، یہ سارا منظر بنی گالہ کو مزید سرد کردیتا ہے، اگرچہ بنی گالہ کو شہرت عمران خان کی وجہ سے زیادہ ملی ہے مگر وہاں تو احسن اقبال، طارق فاطمی اور ماروی میمن بھی قیام پذیر ہیں، آغاز میں ناہید خان کا گھر ہے، ڈاکٹر قدیر خان کی ایک رہائش بنی گالہ میں ہے، سندھ کے سومرو، تالپور، پگاڑا فیملی اور مخدوم امین فہیم بھی ان فضائوں میں شب و روز گزارتے ہیں، ذرا سے فاصلے پر پرویز مشرف کا شہرت یافتہ فارم ہائوس ہے۔ سینیٹر میر محبت خان مری، سینیٹر ادریس صافی، اخوند زادہ چٹان، خورشید قصوری، فوزیہ قصوری، عائلہ ملک، سمیرا ملک، فریدہ ملک یہ سب بنی گالہ کے باسی ہیں، جمال لغاری، اویس لغاری، مخدوم جاوید ہاشمی اور ریاض پیر زادہ سمیت کئی اہم سیاست دان اس بستی کے مکین ہیں۔ ماروی سرمد، سندھ کا دیوان خاندان، ضیاء الحق کا قلعہ کاٹنے والے جمیل عباسی اور شوبز سے تعلق رکھنے والی دو تین ہستیاں یہاں قیام پذیر ہیں اور مجھ جیسا خاکسار بھی اسے مسکن بنا بیٹھا ہے۔
اتوار کی صبح موسم کی یخ بستی کے عالم میں بنی گالہ سے نکلا تو سیدھا دینہ کے قریب لدھڑ نامی گائوں پہنچا، جہاں جہلم کے معروف سیاسی خاندان کے اہم فرد مرحوم جاوید حسین چوہدری کا چہلم تھا۔ مرحوم سابق ناظم دینہ تھے، ان کے ایک بھائی پنجاب کے گورنر رہے تو دوسرے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، چوہدری شہباز حسین وفاقی وزیر تو چوہدری فواد حسین مشیر رہے۔ فاتحہ خوانی کے بعد اجازت لی کہ دوپہر کو لاہور میں سرگودھا کی برتھ فیملی کے چشم و چراغ صہیب احمد برتھ کی شادی تھی اس نوجوان کی شادی خیبر پختونخوا کے معروف سیاسی خاندان، سیف اللہ فیملی میں ہوئی ہے۔ یہ نوجوان ڈاکٹر اعجاز احمد برتھ کا صاحبزادہ، ڈاکٹر مختار اور ملک امتیاز برتھ کا بھتیجا ہے۔
لاہور پہنچتے پہنچتے تین بج گئے۔ جونہی پنڈال میں داخل ہوا تو سامنے سے ایک قافلے کے ساتھ حمزہ شہباز آرہے تھے، حمزہ شہباز بڑے تپاک سے ملے، شاید اس لئے کہ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے جونیئر تھے، وہ انوائرنمنٹ سوسائٹی کے سیکرٹری تھے اور سمیرا شیخ اس سوسائٹی کی صدر تھیں۔ آگے بڑھا تو ایک اور جلوس آرہا تھا، یوسف رضا گیلانی اور عبدالقادر گیلانی عرف بنی آرہے تھے ان سے بھی مصافحہ ہوا۔ اسی پنڈال میں ایاز صادق، ندیم افضل چن اور بلال یاسین بھی تھے۔ تھوڑا اور آگے بڑھا تو سیف اللہ برادران مل گئے۔ انور سیف اللہ، سلیم سیف اللہ اور ہمایوں سیف اللہ اکٹھے آرہے تھے۔ سلیم سیف اللہ نے مجھے کہا کہ ہم نے پنجاب میں بیٹی بیاہی ہے میں نے ان سے عرض کیا کہ چوہدری وجاہت حسین کی بیوی صدر ایوب کے خاندان سے ہیں اسی طرح آفتاب شیرپائو کی بیٹی کی شادی پنجاب میں ہوئی ہے۔ یہی نہیں سندھ کے پیر مظہر الحق کی بیٹی کی شادی جہلم میں ہوئی ہے۔ سسی پلیجو کی بہن کی شادی سیالکوٹ میں ہوئی ہے۔ عبدالقادر گیلانی کی شادی سندھ میں جبکہ اپنے پیارے راجہ بشارت کی شادی بلوچستان میں ہوئی ہے۔ خیر اس شادی سے فری ہوتے ہی میں لاہور کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کافی پینے چلا گیا، وہاں بیٹھا سوچتا رہا کہ صبح جب اسلام آباد سے نکلا تھا تو کس قدر سردی تھی، جہلم سے گجرات تک پہنچتے سورج کی چمک اس قدر بڑھ گئی کہ چترالی ٹوپی اتارنا پڑی، سوئٹر اتارنا پڑا، ایک ہی دیس میں موسم کی تبدیلی اس قدر، یہ تمام قدرت کے رنگ ہیں۔ بس کافی پی اور پھر عازم سفر ہوا کہ رات کا کھانا منگلا کینٹ میں تھا، منگلا میں کافی سردی تھی پھر وہی سرد لباس تھا جو اسلام آباد تک رہا، رات تین بجے واپسی ہوئی۔
اگلی صبح پتہ چلا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے طارق ملک کی بطور چیئرمین نادرا تقرری کو جائز قرار دیاہے اور ان کی برطرفی کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دیا ہے۔ اخلاقی طور پر حکومت کی اس محاذ پر شکست ہوئی مگر جبر یہاں کام دکھا گیا، طارق ملک نے جبر کے ساتھ کام کرنے سے انکار کیا، استعفیٰ دیا اور گھر چلے گئے۔ ان کی بیٹی کے حوالے سے ارشاد عارف صاحب نے شاندار کالم لکھا ہے، مزید لکھنے کی ضرورت نہیں کہ شاہ صاحب نے پورا دکھ بیان کردیا ہے۔
اب آتے ہیں امن و امان کی دلچسپ صورتحال کی طرف۔ اسلام آباد پاکستان کا وفاقی دارالحکومت ہے۔ یہاں بڑی فول پروف سیکورٹی کا دعویٰ ہے، ایک دعویٰ سکندر ملک نے خاک میں ملایا تھا، دوسرا دعویٰ سلیم بیگ کو لوٹنے والوں نے خاک میں ملا دیا ہے۔ محمد سلیم بیگ پرنسپل انفارمیشن آفیسر رہے ہیں، بڑے سینئر بیوروکریٹ ہیں، اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ ون میں بیوروکریٹس کی سرکاری رہائش گاہیں ہیں۔ اسی سیکٹر کے ایک مکان میں محمد سلیم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مقیم ہیں، چند روز پیشتر صبح دس بجے جب محمد سلیم پیمرا آفس جانے کی تیاری کررہے تھے کہ اچانک ڈاکوئوں نے سلیم صاحب کے علاوہ انکے بیوی بچوں کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنایا اور پھر جی بھر کے لوٹ مار کی، گھر کی ساری نقدی گئی، طلائی زیورات گئے۔ یہ ہے اسلام آباد کی صورتحال، باقی ملک کا اندازہ آپ اس واردات سے بخوبی کرسکتے ہیں آخر میں ذائقہ کی تبدیلی کیلئے اسد مصطفیٰ کے اشعار
میں لوگوں سے ملاقاتوں کے لمحے یاد رکھتا ہوں
میں باتیں بھول بھی جائوں تو لہجے یاد رکھتا ہوں
سر محفل نگاہیں مجھ پہ جن لوگوں کی پڑتی ہیں
نگاہوں کے حوالے سے وہ چہرے یاد رکھتا ہوں
محبت جس سے کرتا ہوں نبھاتا ہوں دل و جاں سے
میں اپنی دوستی کے سب حوالے یاد رکھتا ہوں
تازہ ترین