• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں 1990ء سے شروع کیا جانے والا نجکاری کا عمل متنازعہ، غیر شفاف اور کرپشن و اقرباء پروری کا ذریعہ اور ملک و قوم کیلئے خسارے کا سودا رہا ہے۔ ماضی میں نجکاری کمیشن کے کئی سابق چیئرمین گرفتار ہوئے یا ان کے خلاف سنگین الزامات لگے اور نجکاری کے پروگرام کے تحت قومی اثاثے خریدنے والے بہت سے افراد گرفتار ہوئے یا ملک سے فرار ہوگئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی حکومت کی نجکاری کی حالیہ پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت نے 1990ء کی دہائی کے شروع میں ان دو بینکوں کی نجکاری کی تھی جو کروڑوں روپے کے نقصان پر چل رہے تھے مگر اب یہ کروڑوں روپے کا منافع دکھا رہے ہیں۔ یہ باتیں غلط اور غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ ان دونوں بینکوں کے اسٹیٹ بینک سے منظور شدہ سالانہ گوشواروں کے مطابق نجکاری کے وقت اور اس سے کئی دہائیاں پہلے سے یہ دونوں بینک سال بہ سال منافع دکھلا رہے تھے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ ان میں سے ایک بینک نے نجکاری کے بعد چند برسوں میں جو زبردست نقصانات دکھائے ان کا حجم اس بینک کے گزشتہ کئی دہائیوں کے مجموعی منافع سے کئی گنا زیادہ تھا۔ نجکاری کے بعد مقرر ہونے والے اس بینک کے دو صدر گرفتار ہوئے جبکہ تیسرے کو برطرف کردیا گیا۔ آخرکار یہ بینک اس کے مالکان سے واپس لے لیا گیا۔ اسی طرح دوسرے بینک کی نجکاری کیخلاف مقدمہ کرنے والی پارٹی کو حکومت کی ایماء پر دو ارب روپے کے قرضے دلوائے گئے جنہیں بعد میں معاف کردیا گیا۔
واضح رہے کہ اس بینک کے 25فیصد حصص کی فروخت سے حکومت کو صرف 56روڑ روپے ملے تھے۔ اس بینک کی نجکاری کے بعد مقرر ہونے والے چیئرمین اور صدر دونوں ملک سے فرار ہوئے۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ گزشتہ 23 برسوں میں 166 فیصد اداروں کی کارکردگی نجکاری کے بعد خراب ہوئی یا ان میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
اس پس منظر میں یہ بات تکلیف دہ ہے کہ موجودہ حکومت نے کرپشن اور ٹیکسوں کی چوری و چھوٹ سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور آئی ایم ایف کے قرضے کی شرائط پوری کرنے کیلئے قومی اداروں کی اضطراری کیفیت میں نجکاری کا فیصلہ کیا ہے بلکہ اس ضمن میں نہ صرف دانستہ غلط بیانیاں کیں بلکہ آئین پاکستان کی شقوں اور ضابطوں کی بھی صریح خلاف ورزیاں کیں۔ یہ یقیناً ایک قومی المیہ ہے کہ امریکی ایجنڈے کے تحت آئی ایم ایف سے امریکا اور یورپ کے ملکوں سے سفارش کروا کر پاکستان کی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا قرضہ حاصل کرنے کیلئے وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے دستخطوں سے 19 اگست 2013ء کو جو خط آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کو بھیجا گیا تھا اس میں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اس خط کے ساتھ معاشی و مالیاتی پالیسیوں کی جو یادداشت منسلک کی گئی ہے۔ وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور صوبائی حکومتوں کے رہنمائوں کی زبردست تائید حاصل ہے جیسا کہ اس ضمن میں مشترکہ مفادات کونسل کے ایک حالیہ فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان پالیسیوں میں بجلی کے نرخوں میں تین برسوں تک مرحلہ وار اضافہ کرنا اور 65 حکومتی شعبے کے اداروں کی نجکاری کے ضمن میں فیصلے بشمول پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کرنا شامل ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ حالیہ عرصے میں مشترکہ مفادات کونسل نے ایسی کوئی منظوری نہیں دی ہے موجودہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ نجکاری پالیسی کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے گا مگر حکومت اس وعدے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ قومی اثاثوں کو فروخت کرنے سے پہلے چاروں صوبوں کی منظوری ضروری ہے۔
فی الحال صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا مختلف قومی اداروں بشمول پی آئی اے کے 26 فیصد حصص فروخت کرکے اس ادارے کی نجکاری کرنے کے فیصلے کی مخالفت کررہے ہیں چنانچہ ان اداروں کی نجکاری کا فیصلہ خلاف ضابطہ اور آئین پاکستان سے متصادم ہے۔
سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے پیش ہوگا تو وہ اس معاملہ کو دیکھیں گے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ اور مشترکہ مفادات کونسل کو نظر انداز کرکے پی آئی اے کے 26 فیصد حصص فروخت کرنے کے فیصلے کیخلاف تحریک استحقاق پیش کی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے حکومت کی نجکاری کے فیصلے کیخلاف سیاسی پارٹیوں اور لیبر یونین وغیرہ کے ساتھ مل کر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس بات کے شواہد نظر آرہے ہیں کہ حکومت جان بوجھ کر پاکستان اسٹیل ملز کی کارکردگی کو خراب ہونے دے رہی ہے تاکہ اس کی نجکاری کا جواز پیدا کیا جاسکے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسٹیل ملز کو 30 لاکھ روپے فی گھنٹہ کا نقصان ہورہا ہے اور یہ ادارہ اپنی استعداد کے صرف تقریباً ڈیڑھ فیصد پر کام کررہا ہے۔ اسٹیل ملز کو بحران سے نکالنے کیلئے پیش کی جانے والی تجاویز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے گزشتہ دو اجلاس کے ایجنڈے میں شامل تھیں۔ لیکن مبینہ طور پر کمیٹی کے چیئرمین وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے وقت کی کمی کو جواز بناکر اس معاملہ پر غور نہیں کیا حالانکہ ایک میٹنگ کیلئے اسٹیل ملز کے ڈائریکٹر صاحبان کو اسلام آباد بلوالیا گیا تھا مگر انہیں سنے بغیر واپس بھیج دیا گیا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر پی آئی اے اور اسٹیل ملز کو پیشہ ورانہ اصولوں کے مطابق چلایا جائے اور ان کی تنظیم نو کی جائے تو یہ دونوں ادارے یقیناً پھر منافع میں آجائیں گے مگر مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ پی آئی اے منافع میں تو آجائے گی مگر خدشہ یہ ہے کہ اگر پانچ برس بعد پیپلز پارٹی دوبارہ برسراقتدار آگئی تو وہ اس ادارے کو پھر نقصان پہنچائے گی چنانچہ اس کی نجکاری کرنا ضروری ہے۔ نومبر 2008ء میں ایک سازش اور دھوکہ دہی کے ذریعے پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا تھا۔ اس قرضے کی ادائیگی کیلئے 2013ء میں آئی ایم ایف سے ایک نیا قرضہ لینا اور اس قرضے کی شرائط کے تحت اہم قومی اداروں کی نجکاری اسی سازش اور امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) سنجیدہ کوششیں کرتی اور اپنے انتخابی منشور پر عمل کرتی تو ان دونوں تباہ کن فیصلوں سے بچا جاسکتا تھا۔
تازہ ترین