• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کاغذ اور قلم ہر کسی کی دسترس میں ہے سو جس کا جی چاہے وہ ان معصوموں کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کاغذ کالے کر دینے والا ہر شخص قلم کار ہوتا ہے اور اسی لئے جگہ جگہ رطب ویابس کے انبار لگے ہیں جو قابل فہم اور قابل برداشت اس لئے ہے کہ ہر شعبہ میں ’’شوقیہ فنکار‘‘ ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسی بونگیاں پڑھنے سننے کو ملتی ہیں کہ موڈ کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔ چغلی چغلائی، گھسی پٹی، رٹی رٹائی لنڈے کی لاجک اور لفاظی توبندہ طوعاًکرہاً جھیل جاتا ہے لیکن ’’بونگی ‘‘ برداشت نہیں ہوتی کیونکہ جسم میں ہائی بلڈ پریشر کاشت کر دیتی ہے مثلاً آج کل کسی ڈرامے کا پروموچل رہا ہے جس میں اک احمقانہ سے مکالمہ کو ہائی لائیٹ کیا جا رہا ہے ۔ مکالمہ کچھ یوں ہے کہ ’’کوئی آدمی گھر میں کیکر کا درخت نہیں لگاتا جس میں نہ پھلی نہ پھول نہ چھائوں ‘‘ وغیرہ (مفہوم) مجہول مصنف یا مصنفہ کیکر کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔ ہمارے ’’بیلی پور ‘‘ والے گھر کے لان میں تین قد آور خوبصورت کیکر ہیں جو حمید اختر مرحوم و مغفور کو بہت پسند تھے کہ سرو اور شیشم، فائیکس اور کانوکارپس نہیں کیکر ہی برصغیر کا مقامی درخت ہے ۔ اس کے پیلے پھول جب سبز گھاس پر بکھرتے ہیں تو انسان عش عش کر اٹھتا ہے ، کیکر کی چھال صدیوں سے کئی کاموں کیلئے استعمال ہو رہی ہے ۔ اس درخت کو جب پھلیاں لگتی ہیں تو شروع شروع میں پکانے کے کام آتی ہیں اور ان کا سالن ہڈیوں کیلئے اکسیر سمجھا جاتا ہے اور جب ذرا پک جائیں تو ان سے ایسا اچار بنتا ہے جس کے سامنے آم، مرچ، لیموں، لہسن وغیرہ کا اچار بھی ہیچ سمجھو اور جب یہ پھلیاں پوری طرح پک جائیں تو بکریوں کیلئے اس سے بہتر خوراک ممکن نہیں ۔ کیکر کی مسواک ہی لاجواب نہیں بلکہ اس کے ’’چھاپے ‘‘ کانٹے دار ہونے کے سبب فصلوں وغیرہ کو بہت سے جانوروں اور پرندوں سے بھی محفوظ رکھتے ہیں ۔ گیس اور بجلی کو تو سو سال بھی نہیں ہوئے، ہزاروں سال کیکر کی لکڑی ہی ’’بالن‘‘ کا کام دیتی رہی اور جب پاکستان بنا تو یہ کیکر کے کانٹے ہی تھے جو کامن پنوں کے طور پر استعمال ہوتے رہے ۔ کیکر کی صرف چھال کے فوائد اور استعمال بتانے لگوں تو کالم کم پڑ جائے گا اور ہاں کیکر کی پھلیاں جب کومل ہوں تو ان سے جو ’’دودھ‘‘ رستا ہے وہ بہت قیمتی سوغات کی مانند ہے ۔ کیکر کا درخت جب چالیس پچاس سال کا ہو جائے تو اس کی سیاہ لکڑی بیش قیمت فرنیچر کے کام آتی ہے کیکر کی چھائوں کا بھی میرے جیسے کسی پینڈو سے پوچھو کہ ہم جیسے شہروں میں بھی رہیں تو گائوں ان کے اندر بستے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیکر تو ساغر صدیقی جیسا درویش درخت ہے ۔ اسے کھانے پینے کو کھاد پانی نہ بھی دو تو یہ خاموشی سے تمہاری خدمت کرتا رہتا ہے ۔ کیکر انا پرست نہیں خدا پرست ہوتا ہے ۔ نازوں نخروں سے ماورا یہ کسی خدمت خاطر کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔ پاکستان کے عوام کی طرح سخت جان یہ درویش درخت بدترین حالات میں بھی حرف شکایت زبان پر لائے بغیر زندہ رہتا ہے تو ایسے صوفی درخت کے بارے میں ایسی سوقیانہ وغیر ذمہ دارانہ جملے بازی لیکن کیا کریں بھائی کہ یہاں تو ہر شعبہ میں جوکروں کا جم غفیر اور مسخروں کا میلہ لگا ہوا ہے ۔ جتنا بڑا مچھندر اتنا بڑا لیڈر، جتنا اعلیٰ جاہل اتنا ہی بڑا عالم، دو دو مرلے کے دارالعلوم، 8ویں پاس نہیں حکیم لقمان بن کے بیٹھا، ہیپاٹائٹس سے لیکر کینسر تک کا شرطیہ علاج ہی نہیں کر رہا بلکہ بانجھ عورتوں میں بچے بھی بانٹ رہا ہے اور اس کے دواخانہ کے اشتہار کیبلز پر چل رہے ہیں ، عوام کی بھوک بڑھتی جا رہی ہے ادھر بلٹ ٹرینوں کے خواب بیچے جا رہے ہیں ۔
ماں نے نہ ماری کبھی مینڈکی
اور بیٹا تیر انداز
عام تاثر یہ ہے کہ بیورو کریٹ بہت پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہوتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ کہ انہیں سڑکوں کے نام تک رکھنے کا سلیقہ نہیں ۔ اول تو سڑکوں، عمارتوں، باغوں اور شہروں کے نام تبدیل کرنا ہی خاصی مکروہ اور قابل نفرت حرکت ہے لیکن اگر تاریخ کی ٹمپرنگ کا اتنا ہی شوق ہے تو یہ بدعقلی تھوڑی سی عقل کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے لیکن بھونڈے بابوئوں کو اتنی تمیز کہاں مثلاً کچھ برس پہلے ڈیوس روڈ کا نام تبدیل کرکے اسے جو نیا نام دیا گیا ----ملاحظہ فرمائیے۔
’’سرسلطان محمد آغا خان سوئم روڈ ‘‘نہر پر ٹھوکر نیاز بیگ کی طرف جائیں تو اک اور مضحکہ خیز بورڈ عقلوں پر ماتم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ’’میاں محمد یاسین خان وٹو روڈ‘‘اسی طرح شوکت خانم کینسر ہسپتال کے سامنے نجانے کس کارنامہ کے نتیجہ میں کسی سابق سعودی سفیر کے لمبے سے نام کے ساتھ کوئی سڑک منسوب کی گئی ہے ۔ پورا نام لیتے لیتے یا لکھتے لکھتے جوان آدمی ادھیڑ عمر ہو جائے اور اسی طرح ایک مشہور تاریخی پارک کو ’’مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح پارک ‘‘ قرار دیا گیا تو بندہ پوچھے کیا ’’مادر ملت پارک‘‘ کافی نہیں تھا ؟ گلبرگ کی ایک معروف سڑک کا نام ہے ----’’ملکہ ترنم نور جہاں روڈ‘‘ تو بھائی !کیا کوئی دوسری ملکہ ترنم ہے یا ہو سکتی ہے ؟ مہذب دنیا کی سینکڑوں سڑکیں دیکھی ہیں ۔ ہر جگہ اختصار سے کام لیا جاتا ہے مثلاً ڈیٹرائیٹ میں محسن انسانیت بابائے آٹو موبیل کے نام پر سڑک ہے ---’’فورڈ روڈ‘‘ یا لاس ویگس میں سیدھی سادی ’’فرینک سناٹرا روڈ‘‘ اور جہاں نام لمبے ہوں وہاں شرنک کر دیئے جاتے ہیں مثلاً جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ جے ایف کے ایئر پورٹ لیکن یہاں ’’شاعر مشرق ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال روڈ ‘‘ سے کم پہ پیٹ نہیں بھرتا۔وقت سے لیکر لفظ لٹانے تک ہمارا جواب نہیں لیکن جنہیں ’’ساورنٹی ‘‘ کے لٹنے کی پرواہ نہ ہو ان سے کیسا شکوہ کیسی شکایت؟بندروں کے ہاتھ ماچسیں آ جائیں تو یہی کچھ ہوتا ہے، قصابوں کے ہاتھ قلم آ جائیں تو وہ اسے کلہاڑوں کی طرح کیکروں پر نہ چلائیں گے تو کیا کرینگے ؟
تازہ ترین