• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رام لیلا اسٹیڈیم میں لوگ عام آدمی پارٹی کے جھنڈے اٹھائے اور سفید ٹوپی پہ پارٹی کا نام لکھا ہوا جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔ بہت سردی اور دھند کے باوجود لوگ ٹولیوں کی صورت میں پیدل چلتے ہوئے آ رہے تھے۔ کسی نے دھوتی باندھی ہوئی تھی، کسی نے پاجامہ پہنا ہوا تھا، پیروں میں جرابیں نہیں تھیں۔ میں نے سوچا کہ اگر پاکستان ہوتا تو لوگ بسوں میں بھر کر آ رہے ہوتے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جھاڑو کو اپنا سمبل سمجھا۔ گھروں میں جا کر عورتوں نے تقلیدی گروپ بنائے۔ کچھ ایسا تو پاکستان میں عمران خان کی پارٹی نے بھی کیا تھا مگر وہ عام عورتیں نہیں تھیں، وہ زیادہ تر ڈائمنڈ والی بیگمات تھیں۔ دلّی میں کانگریس اور بی جے پی کے لوگ مذاق اڑا رہے تھے۔ یہ کیجر یوال اور اس کے ساتھی تھے جنہوں نے الیکشن جیت کر یہ دکھا دیا کہ عوام کانگریس اور بی جے پی کو نہیں چاہتے۔ ادھر عوام پارٹی نے حلف لیا۔ اگلے دن سے پانی اور بجلی کے ترقیاتی منصوبوں خاص کر غریبوں کیلئے مراعات کا اعلان کر دیا۔ ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا حلف اٹھائے کہ میں ابھی دلّی ہی میں تھی۔ بھارت کے عام انتخابات میں 300 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ عوام پارٹی کے نمائندے بھوشن نے پریس کانفرنس کر کے اعلان کیا کہ اگر کشمیری ہمارے ساتھ ہیں تو کشمیر میں سات لاکھ فوج رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ ضرورت ہے تو کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے۔ اس پر دوسری پارٹیوں کے لوگ سیخ پا ہو گئے، وہاں سے آ گئی، اپنے ملک کے لوگوں کو بتانے کہ حالات بدلنے کیلئے پارٹیوں کو عملی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ کیجریووال نے تو پانچ کمروں کا رہائشی گھر لینے سے انکار اس لئے کر دیا کہ پارٹی کے لوگوں نے بھرپور زور ڈالا کہ آپ نہ لال بتّی والی گاڑی استعمال کریں گے اور نہ اتنے بڑے گھر میں رہیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ عوام ہی ہیں جو پارٹی لیڈروں کو اوقات میں رہنے کی ہدایت کرتے ہیں اور مسلسل ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اعلان ہوتا ہے کہ لوگ بلکہ جوان آئیں اور قرضے لے کر اپنا کام شروع کریں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے ان جوانوں کو فنی تربیت دی جاتی پھر ان کو مطلوبہ فن کی فیکٹریاں یا ادارے کھولنے کیلئے سرمایہ فراہم کیا جاتا۔ خدا نہ کرے کہ اس اسکیم کا انجام بھی پیلی ٹیکسیوں جیسا یا پھر ان لیپ ٹاپ جیسا ہو جو ایک دفعہ وزیراعلیٰ سے وصول کر کے بازار میں بیچے جا رہے تھے۔ حکومت کی نیک نیتی میں کوئی شبہ نہیں لیکن مشورہ دینے والوں کی نیتوں پر شبہ ہے۔اب پھر 21؍ارب روپے کے لیپ ٹاپ نوجوانوں کو دینے کیلئے خریدے جا رہے ہیں۔ بھلا وہ اس کے ذریعے کمائی کیسے کریں گے؟ ویسے بھی انگریزی میں ہم سب کا ڈبہ گول ہے۔ جتنے بھی کال سینٹر کھلے تھے ان میں سے اکثر بند ہو گئے ہیں کہ فنی غرض سے کم اور بے ہودہ کالز کیلئے زیادہ استعمال ہوتے تھے۔
بھارت کی ایک اور بات پر غور کریں۔ غالب انسٹیٹیوٹ نے جب انڈر گریجویٹ طلبہ کو کتابیں دینی شروع کیں تو ان میں سے 90؍فیصد نوجوان ایسے تھے جنہوں نے داڑھیاں، ٹوپیاں اور اونچے پاجامے پہنے ہوئے تھے۔ پتہ کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ سب نوجوان مدرسوں یا اردو میڈیم اسکولوں سے پڑھے ہوئے ہیں۔ کوئی حرج نہیں مگر ان سب نے حلیہ کیا بنایا ہوا ہے؟ سب لوگ مسکرا کر چپ ہو گئے مگر جب میں ممبئی نہرو سینٹر کی لائبریری میں پہنچی تو ایک لمبی قطار میں چھوٹے بچّے اسی طرح کی ٹوپی اور پاجامے پہنے اور لڑکیاں چھوٹا سا عبایا پہنے نظر آئیں۔ یہ سارے بچّے پلینی ٹیریم دیکھنے آئے تھے۔ مجھے مسلمان بچّوں کا طرز پوشاک نظام الدین کے مزار پر بھی یہی نظر آیا اور جامع مسجد کے اردگرد بھی۔ مسلمان اپنے تشخص کو اس طرح برقرار رکھنا چاہتے اور بھارت کے دوسرے فرقوں اور طبقوں کے ساتھ مل کر نہیں چلنا چاہتے تو یہ کوئی صائب فیصلہ معلوم نہیں دیتا کہ صدر جمہوریہ سے لے کر بے شمار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی مسلمان اس لئے رہے ہیں کہ معاشرے میں مل کر رہے، تعلیم حاصل کی اور مقابلے کے امتحانوں میں اپنی علمی صلاحیت کی بنا پر فوقیت حاصل کی، جیسے برطانیہ میں ہمارے کئی مسلمان لارڈز ہیں۔ خاتون بھی وزیر کے عہدے پر تعینات ہیں۔ مسابقت کا طریقہ صحت مند بھی ہے اور معاشرے میں یکجائی کو فروغ دیتا ہے۔
ہم سب نے مسلمان ہونے کے باوجود پاکستان میں کون سی یکجائی کو فروغ دیا ہے۔ ’’فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں‘‘۔ سائنس دان نہیں بنائے جاتے، اختر حمید خان جیسے اور ایدھی جیسے رضاکارانہ خدمت کرنے والے نہیں بنائے جاتے۔ آج کل کسی گھر میں گیس نہیں آ رہی ہے۔ کھانا پکانے کے لئے لوگ سیلنڈر خرید کر روزمرّہ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مجال ہے کہ سو دو سو عورتیں ہی جلوس نکال کر سرکار کو کچھ احساس دلائیں۔ ہاں وہ گھر جن کے اردگرد بلیک واٹر رہتے ہیں، ان کے گھروں میں یا پھر جو علاقے پریزیڈنسی کے قریب ہیں وہاں گیس آ رہی ہے۔ گیس اسٹیشن پر یہ حال ہے کہ بڑی بڑی ویگنیں اور گاڑیاں بھی گیس بھروانے کے لئے آ رہی ہیں۔ جب گیس اسٹیشن اتنی زیادہ گیس استعمال کریں گے تو گھروں میں گیس کیسے آئے گی؟ ہمیں بھی کسی عام پارٹی کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین