• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ پاک کا بہت کرم کہ عید میلاد النبیﷺ کا تہوار پورے تزک و احتشام کے ساتھ گزر گیا توفیق کے مطابق ہر کسی نے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائی، انتظامیہ نے سیکورٹی کے معاملات میں کمال چابکدستی کا مظاہرہ کیا۔ کراچی والوں نے آب زم زم کی سبیل لگائی۔ ملتان والوں نے پچاس من حلوے کی دیگ پکائی۔
بھارت سے ہمارے دیرینہ دوست حافظ اقبال اور عاشق رسول جناب سرجیت سنگھ لانبہ نے نعت کے دو شعرپاک، بھارت میں امن کے سفیر کے طور بھجوائے۔
ہر نخل مدینے کا لاتا ثمر شیریں
جنت سے مشابہ ہیں باغات مدینے میں
اللہ نے دی مجھ کو توفیق اگر لانبہ
دن گزرے گا مکّے میں اور رات مدینے میں
لانبہ جی کی دو کتابیں امیر خسرو اور ناطق قرآن تو پہلے ہی قبولیت عام کی سند حاصل کر چکی ہیں مگر حال ہی میں انہوں نے علامہ اقبالؒ کی معروف نظم شکوہ، جواب شکوہ کا انگریزی ترجمہ کیا ہے ہر صفحے پر اردو نظم مسدس کی صورت اور اسی طرح چھ چھ مصرعوں میں انگریزی ترجمہ اور ساتھ اردو تلفظ میں ہندی رسم الخط کے چھ چھ مصرعے بھی کتاب کی اہمیت کو دو چند کئے ہوئے ہیں کل 67 مسدس کا یہ مجموعہ 101 صفحات پر محیط ہے۔ جو سرجیت سنگھ لانبہ کی علامہ اقبال سے عقیدت کا ثبوت ہے۔
عید میلادالنبی ﷺوالے دن پاکستان کے ممتاز شاعر جناب خالد شریف سے نعت کے حوالے سے بات ہورہی تھی تو انہوں نے کہا
ترے در کی گدائی چاہتا ہوں
مرے مولا خدائی چاہتا ہوں
مرے مولا انا کی قید میں ہوں
مرے مولا رہائی چاہتا ہوں
1998ء میں اسلام آباد کی ایک تقریب میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے تقریر کرتے ہوئے میرے بارے میں کہا تھا کہ ’’میں جبار مرزا کو اس وقت سے جانتا ہوں جب اس کے سر پر بال ہوا کرتے تھے اسی مناسبت سے کہوں گا کہ میں جناب خالد شریف کو اس عرصے سے جانتا ہوں جب وہ اپنا نام شریف خالد لکھا کرتے تھے وہ میرے ہم مکتب ہی نہیں میرے محلے دار بھی رہے یہ وہی خالد شریف ہیں جن کا ایک شعر زبان زد عام ہے کہ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
خالد شریف جو بہت سے شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ وہ 1947ء میں راولپنڈی میں انکم ٹیکس آفیسر ہوا کرتے تھے کینٹ ایریا ان کا زون تھا،میں ان دنوں تھری پیس سوٹ پہنا کرتا تھا نیک ٹائی تو میں سوتے وقت بھی مشکل سے ہی اتارا کرتا تھا لیکن بعد میں جب جنرل ضیاء الحق نے شلوار قمیض کی مہم چلائی تو اس ریلے میں بہہ کر میں نے تھری پیس سوٹ سلیپنگ سوٹ کے طور استعمال کرنا شروع کر دیئے، ان دنوں تھری پیس سوٹ کا کپڑا سو، سوا سو کا مل جایا کرتا تھا ایک دن صدر کی ایک دکان سے بھائو پوچھا تو دکاندار نے ڈیڑھ سو قیمت بتائی بغیر خریدے دکان سے باہر آیا تو خالد شریف مل گئے حال احوال کے بعد صدر آنے کا سبب پوچھا تو میں نے سوٹ کی عدم خریداری کی وجوہات بتائیں انہوں نے کہا چلو میرے ساتھ، دوبارہ دکان پر گئے تو مالک نے بڑا سواگت کیا شربت پلایا اے سی بھی چلا دیا، میں نے سوٹ کی قیمت پوچھی تو اس نے اسی سوٹ کے 80روپے مانگے جو ادا کر دیئے گئے۔ خالد شریف علاقے میں سخت گیر انکم ٹیکس آفیسر سمجھے جاتے تھے جو غلط اعداد و شمار والے گوشوارے کو کسی صورت قبول نہیں کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بہت جلد وہ نوکری چھوڑ دی کیونکہ ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتی تھی پھر انہوں نے ’’ماورا‘‘ کے نام سے خود کو علم و ادب سے وابستہ کرلیا اور یوں وہ راولپنڈی سے لاہور چلے گئے مدتوں میرا ان سے رابطہ نہ رہا میں ویسے بھی ادب میں ان سے خاصا جونیئر ہوں، وہ 1972-73ء میں خوبصورت غزل کہا کرتے تھے میں بمشکل تُک بندی کرلیا کرتا تھا کوئی اتنا نمایاں بھی نہیں تھا جو انہیں یاد رہتا، میں آج بھی اسی مقام پر ہوں مگر وہ بہت بلند ہیں انہی کی غزل کا ایک شعر ہے
آنکھوں کی ڈوبتی ہوئی کیفیتیں نہ دیکھ
ان مردہ آنسوئوں میں زمانے تلاش کر
گزشتہ دنوں 38سال بعد ان سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا تو وہ پاکستان کے معروف پبلشر جناب نیاز احمد کی فوتگی کی تقریب میں بیٹھے تھے تعارف کرایا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کا کالم باقاعدگی سے پڑھتا ہوں، خالد شریف بھی جناب عطاء الحق قاسمی اور شعیب بن عزیز صاحب کی طرح اہل قلم کی فلاح و بہبود کیلئے ہمہ تن مصروف رہتے ہیں ایسے شاعر ادیب صحافی جو کسی وجہ سے زندگی کے سفر میں تھک جائیں گاہے گاہے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں اس سلسلے میں پنجاب حکومت نے پنجاب رائٹرز ویلفیئر فنڈ کے نام سے صوبائی وزارت اطلاعات و ثقافت کے زیر انتظام ایک ادارہ بنا رکھا ہے جس کی گورننگ باڈی میں جناب عطاء الحق قاسمی ، جناب شعیب بن عزیز، جناب امجد اسلام امجد، جناب ظفر اقبال، ڈاکٹر اجمل نیازی اور ڈاکٹر محمد کامران شامل ہیں، کوئی بھی شاعر ادیب صحافی ان بورڈ ممبران سے رابطہ کرسکتا ہے۔ گزشتہ روز کے اجلاس میں شعیب بن عزیز کی تحریک پر ناصر زیدی صاحب اور خالد شریف کی خواہش پر راولپنڈی کے نثار ناسک کی مالی معاونت کی گئی ہے، میں ہر دو حضرات کے نام نہ لکھتا مگر ناصر زیدی خود ہی کو بتارہے ہیں۔
اسلام آباد میں اکیڈمی آف لیٹرز ہے جو ضرورت مند اہل قلم کی فوری امداد کے علاوہ ماہانہ وظیفہ بھی دے رہی ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے ناصر زیدی کی بیماری سے اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین جناب عبدالحمید کو فون پر اطلاع کی تو وہ فوراً اپنا صوابدید کا چیک لے کر لاہور ناصر زیدی کو نہ صرف معقول رقم دے آئے بلکہ ماہانہ امداد بھی جاری کر دی۔ سچی بات ہے مجھے جناب عبدالحمید کی ادیب دوستی نے متاثر کیا ہے۔
تازہ ترین