• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ربیع الاول کا مبارک مہینہ اور نیا سال2014ء ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔ ملکی وعالمی منظرنامے میں یہ سال بڑی اہمیت کا حامل ہے۔موجودہ سال کے آغاز سے ہی اچھی خبریں سننے کو نہیں مل رہیں۔پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔عالمی طاقتیں پاکستان کے حالات کو خراب ترکرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی سے نجات کے لئے طالبان سے مذاکرات بے حد ضروری ہیں مگر جب بھی ان سے مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے لگتی ہے۔ عالمی طاقتوں کا کھیل شروع ہوجاتا ہے اور مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دیا جاتا۔ طالبان قیادت حکیم اللہ محسود، بیت اللہ محسود اور نیک محمد کو ایسے مواقع پر امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ جب طالبان سے حکومت پاکستان کے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے تھے۔ امریکی ڈرون حملوں کے ذریعے اس سارے عمل کو نہ صرف سبوتاژکردیا گیا بلکہ طالبان قیادت اور پاکستان کے درمیان فاصلے پیدا کئے گئے۔ کراچی اور خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر نفرت کے الائو بھڑک اٹھے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف ملک دشمن قوتوں کو ہوگا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔ اس حوالے سے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے حالیہ بیان سے قوم کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔ غیر واضح حکمت عملی کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں عملی طور پر پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔ حکومت پاکستان عالمی طاقتوں کے دبائو میں آچکی ہے اور مذاکرات کیلئے حقیقی طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ بدقسمتی سے طالبان قیادت اور موجودہ حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا برقرار ہے جسے ختم کئے بغیر مذاکراتی عمل کا آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ نوازشریف حکومت کے برسراقتدار آنے پر یہ امید بندھ چکی تھی کہ نئی حکومت ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کا اعادہ نہیں کرے گی۔ پاکستان میں عالمی طاقتوں کا خوفناک کھیل ختم ہوگا اور عوام کو بدترین دہشت گردی سے چھٹکارا ملے گا مگر سات ماہ سے زیادہ گزرنے کے باوجود حالات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے چلے جا رہے ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ طالبان سے مذاکرات بلاتاخیر شروع کئے جائیں۔پوری قوم جانتی ہے کہ قبائلی علاقوں میں حالات کی خرابی کی اصل وجہ امریکی ڈرون حملے اور افغانستان میں عالمی طاقتوں کا قابض ہونا ہے۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی کڑیاں اسی سے جاملتی ہیں۔نائن الیون سے قبل پاکستان کے حالات معمول پر تھے۔امریکہ نے 2001ء میں افغانستان پر حملہ کر کے پاکستان اور جنوبی ایشیاء کا امن تباہ کیا۔ پوری دنیا کی نظریں اس وقت افغانستان میں امریکی و نیٹو فورسز کے انخلاء پر لگی ہوئی ہیں۔ 2014ء میں غیر ملکی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاء کے بعد پورے خطے میں انقلابی تبدیلی رونماہوسکتی ہے۔ کیا طالبان کا افغانستان انہیں دوبارہ مل سکے گا؟عالمی طاقتوں کا یہ کھیل اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے۔پاکستان کو اس حوالے سے پھونک پھونک کر قدم اٹھانے ہوں گے۔ امریکیوں کے انخلاء اور ڈرون حملوں کے خاتمے سے قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں طالبان کا شدید ردعمل ختم ہوجائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی افواج کے نکلنے کے بعد افغانستان میں حقیقی نمائندہ افغان حکومت قائم ہو۔ اگرخدانخواستہ امریکہ و یورپی ممالک نے افغانستان میں خانہ جنگی کی تاریخ دہرائی تو پھر حالات کو سنبھالنا زیادہ مشکل ہوجائے گا۔پاکستان کی قیادت کو اس نازک اور کٹھن صورتحال پر گہری نظررکھنا ہوگی۔امریکہ نے 2001ء میں افغانستان پر قبضہ کر کے طالبان کی حکومت ختم کی۔ اب اسے ذلیل ورسوا ہوکر وہاں سے جانا پڑ رہا ہے۔ تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ افغانوں کے جذبوں اور ولولوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ماضی میں حکمرانوں کی عاقبت نا اندیش پالیسیوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ محب وطن قبائلی عوام پر پے درپے امریکی ڈرون حملوں سے حالات دن بہ دن تباہی کی جانب گامزن ہوئے۔ ہمارے بعض ’’دانشوروں‘‘ کے نزدیک ساری خرابیاں طالبان میں ہی ہیں اور امریکہ تو اس معاملے میں بڑا ’’معصوم‘‘ ہے۔ افغانستان میں12سالہ طویل امریکی جارحیت میں دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ امریکہ ہی فساد کی اصل جڑ ہے۔ افغانستان اور عراق میں جارحیت سے سوائے لاکھوں انسانوں کے قتل عام کے امریکہ نے کیا حاصل کیا؟ آج ہماری ناقص حکمت عملی اور بے تدبیری کا نتیجہ ہے کہ وہ محب وطن قبائلی عوام جنہوں نے1948ء میں بھارت سے لڑ کر ’’آدھا کشمیر‘‘ ہمیں لے کر دیا تھا۔ دنیا کے نقشے پر موجود’’ آزاد کشمیر‘‘کا علاقہ انہی کی مرہون منت ہے۔ قبائلی عوام کل بھی محب وطن تھے اور آج بھی الحمدللہ پاکستان اور اسلام سے ان کی وابستگی نمایاں ہے۔ قائداعظمؒ نے قبائلی عوام کو بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا آج ہم نے انہیں بھی اپنا’’مخالف‘‘بنالیا ہے۔پاکستان کی خاطر بغیر تنخواہ لڑنے والے ان مجاہد خاندانوں کے سیکڑوں ’’پیاروں‘‘ کو امریکی ڈرون حملوں میں اڑا دیا گیا ہے۔ آج وہ پاکستان کیلئے دیئے گئے اس خون کا حساب مانگتے ہیں؟ افغانستان کے ابھرتے ہوئے آئندہ کے منظرنامے میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے پر امریکہ اور بھارت خائف ہیں۔ سامراجی قوتوں کی سازشوں کے باوجود یہ نوشتہ دیوار بن چکا ہے کہ افغانستان کی اصل قوت طالبان ہی ہیں۔ ان کے بغیر کوئی بھی حکومت افغانوں کو اب قابل قبول نہیں ہے۔افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں امن تھا اور پاکستان بھی محفوظ تھا۔امریکہ نے نائن الیون کے خودساختہ ڈرامے کی آڑ میں لاکھوں افغانوں کا قتل عام کیا اور پاکستان کو بھی تباہی کے کنارے پہنچا دیا۔ پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے یہ لازمی ہے کہ افغانستان میں حالات معمول پر آجائیں۔ پاکستانی حکومت کو پورے اعتماد اور یکسوئی کے ساتھ ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے ملک مضبوط ومستحکم ہو۔ افغانستان میں عالمی طاقتوں کے ’’اسٹیج ڈرامے‘‘ کے ڈراپ سین کا اب وقت قریب آ گیا ہے۔ پاکستانی قیادت کو اس کڑے وقت میں سرخروئی کیلئے قوم کی امنگوں اور آرزوئوں کے مطابق آگے بڑھنا چاہئے۔ امریکی و نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد ایک ’’نیاپاکستان‘‘ ہمارا منتظر ہے۔ ایسا ’’نیاپاکستان‘‘ جو امریکی و بھارتی ریشہ دوانیوں سے پاک ہو۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کا مذموم ایجنڈا یہ ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت کی 2014ء کے سال کے درمیانی عرصے میں بساط لپیٹ دی جائے۔ جمہوری عمل کا پٹڑی سے اتارنے کا اصل مقصد ایسے سازگار حالات پیداکرنا ہے جن سے امریکی و نیٹو فورسز کا افغانستان سے انخلاء پُرامن طور پر ہوسکے اور افغانستان کے بعد پاکستان میں آگ و خون کا فائنل رائونڈ کھیلا جائے۔ پارلیمنٹ میں مڈٹرم الیکشن کی بازگشت اسی کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی قوتوں کو اس بھیانک سازش سے محتاط ہوناچاہئے اور ایسے طرزعمل سے گریز کرنا چاہئے جس سے امریکہ کو یہاں کھل کھیلنے کا موقع نہ مل سکے۔امریکہ پاکستان میں دہشت گردی کی آگ کو مزید بھڑکانے میں کامیاب ہوگیا تو امریکی و نیٹو فورسز کا اگلا ہدف پاکستان ہوگا۔پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کا خاتمہ ان طاقتوں کا اگلا نشانہ ہے۔ وہ مسلسل اپنے ہدف کی جانب بڑھ رہے ہیں۔اب یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم امریکی ’’گریٹ گیم پلان‘‘ کو کامیاب ہونے دیتے ہیں یا نہیں؟ پاکستان کا حقیقی دشمن کون ہے؟کیا امریکہ ہمارا دشمن ہے یا طالبان؟اب ہمیں اس کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ طالبان کو تو حکمت و دانائی سے اپنے قریب لایا جاسکتا ہے۔2014ء میں افغانستان سے امریکیوں کے انخلاء کے بعدویسے بھی یہ کام بآسانی ہو جائے گا۔ کسی بھی مسئلے کا حل تلاش کرنا ہی اہم کام ہوتا ہے۔جب مرض کی تشخیص ہو جائے تب ہی دوا صحیح کام کرتی ہے۔2001ء کے بعد سے اب تک ہم درحقیقت ’’ٹامک ٹوئیاں‘‘ہی مار رہے ہیں۔ مسئلے کے حقیقی حل کی طرف توجہ نہیں کر پا رہے۔محب وطن دینی و سیاسی قوتوں کو مستقبل میں خدانخواستہ کسی بڑے المیے سے پاکستان کو بچانے کیلئے اپنا بھرپور کردار اداکرنا ہوگا۔
تازہ ترین