• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
19ویں صدی میں ایک برطانوی تاجر سیسل جون رہوڈز (Rhodes ) نے جنوبی افریقا میں جا کر نہ صرف خوب دولت کمائی بلکہ وہ کیپ کالونی کا وزیر اعظم بھی بنا۔ سونے اور جواہرات کے کاروبار پر اس نے پوری دنیا میں اپنی اجارہ داری قائم کی ۔ 1902ء میں جب اس کا انتقال ہوا ، وہ دنیا کا امیر ترین آدمی تھا۔جنوبی افریقا کے کچھ علاقوں کو اس کے نام کی مناسبت سے ’’رہوڈیشیا‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ رہوڈیشیا کے کچھ علاقے آج زمبابوے اور کچھ زمبیا میں شامل ہیں ۔ سیسل رہوڈز کی وصیت کے مطابق اسے جنوبی رہوڈیشیا (موجودہ زمبابوے) کے میٹا پوس پہاڑ کی چوٹی پر دفنایا گیا۔ اب افریقا خصوصاً زمبابوے میں یہ مہم چلی ہوئی ہے کہ سیسل رہوڈز کی لاش قبر سے نکال کر جلا دی جائے یا اس لاش کو واپس برطانیہ بھیج دیا جائے کیونکہ رہوڈز نو آبادیاتی نظام کا سب سے بڑا حامی تھا اور اس نے افریقا کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس جیسے شخص کی افریقی سرزمین پر قبر بھی نہیں ہونی چاہئے۔ اگرچہ وہ قبر ابھی تک موجود ہے لیکن نو آبادیاتی نظام کے خلاف نفرت کی علامت بنی ہوئی ہے۔ رہوڈز کس قدر بے رحمی کی حد تک نو آبادی علاقوں کو لوٹنے کا حامی تھا، اس کا اندازہ اس کے بیان کردہ تاثرات سے ہوتا ہے۔ 1896ء میں اس نے لکھا تھا کہ ’’ میں لندن کے مشرقی علاقے میں تھا۔ وہاں بے روزگاروں کے ایک اجلاس میں شریک ہوا اور میں نے وہاں جوشیلی تقریریں سنیں۔ لوگ مسلسل روٹی، روٹی، روٹی چیخ رہے تھے۔ گھر واپس جاتے ہوئے میں نے اس معاملے پر غور کیا۔ اس کے بعد سے میں سامراجیت کے حق میں اور زیادہ ہوگیا۔ میرا خیال ہے کہ بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اور برطانیہ کے 4 کروڑ لوگوں کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے ہم لوگوں کو ، جو نو آبادیات کے مدبرین ہیں اور زیادہ زمین حاصل کرنا چاہئے تاکہ وہاں ہمارے ملک کی آبادی کا ایک حصہ آباد ہوجائے اور ہماری فیکٹریوں کے لیے نئی نئی منڈیاں پیدا ہو جائیں‘‘۔ آج پاکستان میں بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ہر طرف روٹی، روٹی، روٹی کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی ، خونریزی اور خانہ جنگی نے بین اور نوحے بھی ان چیخوں میں شامل کردیئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقات نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ لوٹ لو اور اپنے بچوں کو ان ملکوں میں منتقل کردو جنہیں بھوک ، افلاس اور خانہ جنگی سے بچانے کے لیے رہوڈز جیسے سامراجیوں نے سفاکانہ حکمت عملی اختیار کی تھی ۔ رہوڈز نے اپنے ملک کے بجائے دوسرے ملکوں کو لوٹنے کا فلسفہ دیا تھا، جو ’’نو آبادیت‘‘ کہلایا۔ ہمارے حکمران اپنے ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ ’’جدید نو آبادیت‘‘ ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں سے لوٹا ہوا سارا سرمایہ ان ملکوں میں جا رہا ہے جو ماضی میں براہ راست قبضہ کر کے سارے وسائل اپنے تصرف میں لے آتے تھے مگر اب یہ وسائل خود بخود ان ملکوں کے پاس جا رہے ہیں جن ملکوں کو لوٹا جارہا ہے، وہاں صرف روٹی ، روٹی ، روٹی کی چیخیں ، گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بارود کی بو فضاؤں کو بوجھل بنائے ہوئے ہیں ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے شاید اسامہ بن لا دن نے افغانستان میں مفت روٹی کے تنور لگا کر مقبولیت حاصل کی جبکہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سستی روٹی کے تنور غریب عوام کے پیسے سے چلا کر سیاسی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ حاصل کیا گیا ۔ سندھ میں بھی سیلاب متاثرین کو کچھ عرصے کے لیے مفت روٹی فراہم کی گئی تھی اور وہ بھی سرکاری خرچے پر یعنی عوام کے اپنے پیسے سے۔ اس مفت روٹی کے چکر میں 2010ء کے بعض سیلاب متاثرین ابھی تک اپنے گھروں کو واپس نہیں گئے ہیں حالانکہ انہیں اس وقت مفت روٹی نہیں مل رہی ہے لیکن وہ کراچی اور حیدرآباد میں جھونپڑیاں لگا کر مخیر حضرات کی امداد کے انتظار میں پڑے ہوئے ہیں جبکہ انہیں مفت روٹیاں کھلانے والوں نے دبئی، لندن اور نیویارک میں عالی شان ’’ولاز‘‘ خرید لیے ہیں ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں فلاحی تنظیموں کی جانب سے غریبوں کے لیے مفت کھانے کے مراکز جگہ جگہ قائم کردیئے گئے ہیں۔ آپ گھر سے جیسے ہی باہر نکلتے ہیں ، ہر طرف سے صدائیں آنے لگتی ہیں ’’ بابا ایک روٹی کا سوال ہے ، صاحب بچے بھوکے ہیں ، بیٹا ایک روٹی کی مدد کردو‘‘ اور یہ صدائیں اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑتیں ، جب تک آپ گھر میں داخل ہوتے ہی کنڈی نہیں لگا لیتے۔ گھر بھی اب محفوظ پناہ گاہ نہیں رہے۔ جان کا خوف گھر میں بھی چین نہیں لینے دیتا ۔ جدید نو آبادیت میں غربت اور دہشت گردی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ دہشت گردی بھی لوٹ مار کے نظام کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور لوٹ مار کا سرمایہ دہشت گردی کو پروان چڑھاتا ہے۔ یہ بات کسی کو پاکستان میں رہتے ہوئے شاید سمجھ نہیں آئے گی۔ اسے سمجھنے کے لیے زیادہ دور نہیں، کچھ دن کے لیے ایک پڑوسی عرب ملک جا کر بیٹھنا ہو گا، جو اس خطے میں طاقت کا نیا مرکز ہے۔ وہاں یہ بات سمجھ آئے گی کہ کراچی، بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں امن کیوں نہیں ہو رہا۔ بدامنی والے علاقوں میں اہم سرکاری اداروں کے افسران اپنی تعیناتی کے لیے کتنی بڑی سفارشیں کراتے ہیں۔ انتہا پسند گروہوں کے رابطے کہاں کہاں تک ہیں۔کرپشن کے تدارک ، عدلیہ کی آزادی، دہشت گردی کے خلاف مہم، پاکستان کو ترقی یافتہ اور خود مختار ملک بنانے کے اقدامات، ڈرون حملے رکوانے کی سیاست، غربت اور ناانصافی کے نعروں کے پس پردہ کیا کھیل ہوتا ہے اور اس کھیل میں مخالفین کو کس طرح ایک ہی جگہ سے اشارے مل رہے ہوتے ہیں ۔ وہاں کچھ دن بیٹھ کر یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ پاکستان کے بڑے قومی اداروں کی نجکاری میں پاکستان کی ترقی کا کون سا فلسفہ مضمر ہے۔ وہاں بیٹھ کر یہ بھی معلوم ہو گا کہ سیسل رہوڈز خود ہمارے ہاں پیدا ہو چکے ہیں، جو روٹی، روٹی، روٹی کی چیخیں سن کر اپنے ہی ملک کو اور زیادہ لوٹ رہے ہیں اور یہ سیسل رہوڈز ہمارے سرمایہ دار، جاگیردار، سول اور ملٹری بیورو کریٹس، انتہا پسند گروہ چلانے والے، نام نہاد کارپوریٹ ازم کے علمبردار اور ان کے ایجنٹس اور گماشتے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہ تو کسی کو پاکستان میں دفن ہونے سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی قبریں اکھاڑنے کی بات کر سکتے ہیں ۔ یہ ہماری اخلاقیات نہیں ۔ ہم صرف یہی کر سکتے ہیں کہ جو لوگ اس نظام کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ، ان کے مزاروں پر حاضری دیں ۔ روٹی ، روٹی ، روٹی کی چیخوں پر مخیر حضرات مفت کھانے کے مزید کیمپ لگائیں گے کیونکہ یہ کیمپ لوٹ مار والے نظام کی عظیم کامیابی کا ثبوت ہیں ۔لیپ ٹاپ جیسی غربت کے خاتمے کی مزید اسکیمیں آئیں گی، یوتھ اور کلچرل فیسٹیولز میں سرکاری ملازمین اور اسکول کے بچوں کو جمع کرکے زبردستی ہنسایا اور رقص کرایا جائے گا اور اس ہنسی پر مزید رونا آئے گا۔
تازہ ترین