• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے لفظ’ جدید‘ پر یہ باور کرانے کے لئے واوین(commas) لگائے ہیں کہ اگر پاکستانی ٹیلی وژن بھی جدید ہے تو پھر ہمیں اس اصطلاح کے از سر ِ نو معانی تلاش کرنے پڑیں گے ۔ یہاںجدید سے مراد ترقی پسندسوچ نہیں بلکہ زمانے کے اعتبارسے عصر ِ حاضر ہے۔ اتنی وضاحت کافی ، اب اصل موضوع کی طرف آجائیں۔
ایک وقت تھا(اور یوں لگتا ہے کہ زمانے بیت گئے ہیں) جب میڈیا کاتکلم ٹی وی اسکرین کی بجائے اخبار کا صفحہ تھا۔ سچ پوچھیں تو میڈیا اپنا وجود ہی نہیں رکھتا تھا، ہمارے پلڑے میں صرف پریس تھا۔ ٹی وی سے مراد پی ٹی وی (پاکستان ٹیلی وژن) تھا، اور اس کی پیش کش ایک تو نو بجے کا خبر نامہ تھا جو آپ دیکھتے تھے کیونکہ اس کے علاوہ کچھ دیکھنے کے لئے تھا بھی نہیں، اور دوسرا ڈرامہ تھا، جو حیرت انگیز طور پر بہت اچھا تھا، کم از کم اُس سے کہیں بہتر جو سرحد پار سے دیکھنے کو ملتا تھا۔ ماضی کا اسیر نہیں لیکن کبھی کبھی ایسا کرنے سے دل میں جوش و جذبہ جوان ہوجاتا ہے کہ اُس وقت پاکستان میں کتنا اچھا کام ہورہا تھا۔ بہت سے شعبوں میں ترقی کرتے ہوئے ایسے لگتا تھا جیسے مستقبل ہمارا ہے ۔ تاہم اُس وقت کی قیادت 1965کی بلامقصد جنگ کی حماقت کربیٹھی، اور اس کے دوررس نتائج اتنے منفی ثابت ہوئے کہ پاکستان کا خواب چکنا چور ہوکر بکھر گیا۔ جو ملک منزل بہ منزل آگے بڑھ رہا تھا، یکے بعد دیگرے مختلف بحرانوں کی زد میں آتا چلا گیا۔ کہاں ہے وہ پیر خانہ، وہ خانقاہ، وہ مزارجس کے فیض سے یہ ملک اُس آسیب کے قبضے سے نکل کر معمول کی راہ پر آسکے؟کسی ایسے مقدس مقام کی تلاش اہم ترین قومی خدمت شمار ہوگی۔
واپس اصل کہانی کی طرف آتاہوں۔ اُس وقت میڈیا سے مراد پریس تھا جبکہ ٹی وی صرف شام کی تفریح کا ایک ذریعہ تھا۔اس کی ’’فعالیت‘‘ شام کے چند گھنٹوں، گھر کی بتیاں بجھانے سے پہلے ، تک محدود تھی۔ اور یہ تفریح اور تعلیم کا سرسری فریم ورک تھا جو آج چوبیس گھنٹے نان اسٹاپ ہڑبونگ کے مقابلے میں کہیں معقول ،مناسب،بلکہ متناسب دکھائی دیتا ہے ۔ اگر موجودہ بے کیف اور بوریت سے بھرپور مشق سے کسی کو کچھ حاصل ہوتا ہے تو یہ متعدد ٹی وی چینل ہی ہیں جن کی تعداد میں غیر معقول حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ہمارے ہاںٹی وی چینلوں کی دنیا بسانے والا کولمبس کوئی جمہوری ناخدا یا قائد ِعوام نہیں بلکہ ایک وردی پوش آمر، جنرل پرویز مشرف تھے۔ میڈیا کے زیادہ تر سرخیل حقائق کی یہ کڑوی گولی حلق سے اتارنے کے لئے تیار نہیںکیونکہ یہ حقیقت ہمارے طے شدہ تصورات کی دیدہ دلیری سے نفی کرتی ہے ۔ ہم سینہ تان کر، سربلند کرکے، فخر سے کہتے ہیں کہ آج میڈیا جس مقام پرہے اور اس میں جتنے بھی چینل بھاری بزنس کررہے ہیں، یہ سب ہماری جدوجہد کا نتیجہ ہے ۔
ایک سوانح عمری ہٹلر کی تھی، ’’Mein Kampf‘‘ (میری جدوجہد)، اور ایک طرف ’’ پاکستانی میڈیا کے شہسواروں کی آگ وخون کا دریاعبور کرنے اور سرفروشی کی عجب تاریخ رقم کرنے ‘‘کی خودساختہ داستان ہے۔جس طرح ہٹلر کی سوانح عمری فسانہ نہیں ، اسی طرح ہماری’’عظیم جدوجہد ‘‘ کی کہانی حقیقت نہیں، لیکن صحافتی برادری کے ’’بھائی چارے ‘‘ نے ایک فسانے کو حقیقت کا روپ دے کر تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے۔ پاکستانی فسانوی ادب میں شاید اس سے بڑی طلسم ہوشربا کوئی نہ ہو۔ مسخ شدہ حقائق کے اس بیان کے متوازی ایک اور بیانیے کی بھی شعوری کوشش سے فکری آبیاری کی گئی کہ اگر جنرل مشرف نے میڈیا کے لئے کچھ کیا تو کوئی احسان نہیں کیا، اُن کے پاس ایسا کیے بغیر کوئی چارہ تھا ہی نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے سائبراسپیس کو روکنا یا اس کی نگرانی کرنا ناممکن بنا دیا تھا۔ آپ سعودی عرب، ایران یا شمالی کوریا جائیں اور دیکھیں کہ کیا سائبراسپیس کو روکا جاسکتا ہے یا نہیں؟پرویز مشرف کے پاس میڈیا کوکنٹرول کرنے ، اسے محدود رکھنے اور ٹی وی چینلوں کی تعداد ایک حد سے بڑھنے سے روکنے کا اختیار موجود تھا،لیکن جمہوری حکمرانوں اور سابق آمروں کے برعکس وہ آزاد میڈیا کے تصور کے حامی تھے کیونکہ، (1) اُنہیں اعتماد تھا کہ وہ کیمرے کا سامنا کرسکتے ہیں ۔ درحقیقت وہ پہلے پاکستانی حکمران ہیں جو براہ ِراست پریس کانفرنس سے خطاب کرسکتے تھے ، (2)زیادہ تر پریس، اور شاید ہم یہ بات یاد رکھنا پسند نہ کریں، نے اُن کے اقتدار سنبھالنے کا خیر مقدم کیا تھا۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، مشرف دور میں ہی، میڈیا اتنا آزاد ہوگیا کہ محتاط اورکمزور صحافی بھی فوجی حکومت اور آمریت کے خلاف حبیب جالب بنتے دکھائی دئیے ۔ یہ جرات و بہادری ایم کیو ایم کا نام لینے سے البتہ گریز کرتی تھی، لیکن فوجی حکومت پر چڑھائی صحافت کا اہم ستون بن چکی تھی ۔ چونکہ ملازمت کے زیادہ مواقع میسر آنے لگے ، تو زیادہ تر صحافی دوستوں کو بھاری ، بلکہ پرکشش معاوضہ ملنے لگا۔ مشرف دور سے پہلے تک صحافت، غربت کا ہی مہذب اور قابل ِ احترام نام تھا۔ آپ صحافت کو بطور پیشہ دولت کمانے کے لئے نہیں، کیونکہ اس میں پیسہ تھا ہی نہیں، بلکہ صرف نیک نامی ،مثالیت پسندی یا اس ’’قبیل‘‘ کی کچھ دیگر آفاقی قدروں کی انجانی آبیاری کے لئے اپناتے تھے ، اور کافی حد تک کامیاب بھی رہتے، لیکن دولت آپ سے کنی کترا کر گز ر جاتی ۔ درجنوں ٹی وی چینلوں کی آمداور ان کی نان اسٹاپ نشریات کا شکریہ کہ اب یہ ایک پرکشش پیشہ بن چکا ہے ۔ اب اس کی کشش کے سامنے فوجی ملازمت اور سول سروس کی تاب بھی ماند پڑچکی ہے۔
اس انقلابی تبدیلی کے لئے، جیسا کہ اس برادری کے پرانے اور جغادری صحافی خودساختہ جذبات کے خیالی سمندر میں غوطہ زن ہو کر ابھرتے ، ڈوبتے، اورہر دوعمل کے دوران یا درمیان مبینہ جدوجہد کا مظہر شاہ بنتے ہیں، کسی نے کوئی معرکہ سر نہیں کیا ، نہ ہی کوئی جوکھم اٹھایا، بلکہ میڈیا کی کم مائیگی سے آزادی اور فروتنی سے فروہی تک کا سفر صرف اور صرف ایک آمر کی عطا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ پرویز مشرف سے بہت سے دیگر گناہوں کا ارتکاب ہوا ہو،اور ان میں سے کچھ کی پاداش میں اُنہیں مقدمات کا بھی سامنا ہے ، لیکن اُنہیں پاکستانی جدید میڈیا کا گاڈ فادر کہلائے جانے کے مرتبے سے کوئی نہیں گرا سکتا۔ اُنھوں نے میڈیا کو پھلنے پھولنے کی اجازت دی یہاں تک کہ اس نے ہمارے اجتماعی نفع نقصان کا تعین کرنا شروع کردیا۔ بہرحال میڈیا میں پایا جانے والا تنوع اورجائے انتخاب خوش آئند ہونا چاہئے ، لیکن عقل اور معقولیت سے دستبردار ہوتے ہوئے اس نے نہایت آزادی سے اپنا معیار پست سے پست تر کرنے کا سفر شروع کرلیا۔
اور پھر ایک وقت آیا جب پرویز مشرف کو میڈیا کو دی گئی اتنی آزادی پر پچھتانا پڑا۔ وکلا کی جس تحریک نے اُن کے اقتدار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں، وہ میڈیا کوریج کے بغیر ممکن نہ تھی۔ کیمرے کے ذریعے ’’مشرف کا جو یار ہے ، غدار ہے ، غدار ہے ‘‘ یا ’’چیف تیرے جانثار، بے شمار، بے شمار‘‘ کی گونج ملک کے کونے کونے میں سنائی دی جانے لگی۔ کیمرے کا کرشمہ مظاہرے میں شامل وکلا کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا، اور قوم دل تھام کر اُن یاد گار لمحات کو دم بخود ہو کردیکھتی رہتی۔ جن بوتل سے باہر آچکا تھا۔ اب وہ تحریک بھی ماضی کا حصہ، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا لیکن میڈیا پرکشش تنخواہ دینے والی ایک کامیاب صنعت بن چکا ہے ۔ میں نے یہ بات پہلے بھی کہی ہے ، ایک بار پھر دہرانے کی اجازت دیجیے کہ کم از کم سال میں ایک مرتبہ اینکر حضرات کے دستے صف بستہ ہوکر جنرل صاحب کے قد ِآدم پورٹریٹ کو سیلوٹ کریں ۔ میڈیا کے اس سنہری دورکے گاڈ فادر پرویز مشرف ہی ہیں۔
تازہ ترین