• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نگاہ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا
حجا ب اہل محبت کو آئے ہیں کیا کیا
فراق راہ وفا میں سبک روی تیری
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
مشرف کے تین نومبر کے کیس کے سلسلے میں بہت دھیرے دھیرے سابقہ عشاق کے قافلے مشرف کو بچانے کے لئے میڈیا پر جلوہ افروز ہو رہے ہیں۔ پہلی جرات اور بہادری کا مظاہرہ چوہدری شجاعت نے بیان دیکر کیا اور اہل نظر سے داد وصول کی ۔ بقول غالب
وفاداری بہ شرط استواری ،اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں،تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
چوہدری صاحب کے بعد کچھ سابقہ فوجیوں نے بھی ان کی حمایت میں ایک چھوٹا موٹا اجتماع کر ڈالا۔ بہرحال ایسے حالات میں یہ بھی کافی تھا۔ اب چوہدری پرویز الہٰی بھی بول پڑے ہیں۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ تو آج بھی 62روپے کا ڈالر یاد کرتی ہے۔ امن و امان کے حالات کافی بہتر تھے۔ بم دھماکے اگرچہ تھے مگر ایسے نہیں تھے کہ مدرسے بھی محفوظ نہ ہوں۔ مہنگائی ،بھتہ خوری ،لوڈ شیڈنگ موجودہ دور سے کافی بہتر تھی ۔ غربت اس وقت بھی تھی مگر آج تو غریب سفید پوش شخص کا جینا محال ہوگیا ہے خیرات دینے والوں کے حالات خیرات لینے والوں جیسے ہو گئے ہیں۔ سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔حکمران اپنے بدلے اتار رہے ہیں، وزیر وں کی تعداد میں اضافے ہو رہے ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھے لوگوں کو راضی کیا جا رہا ہے اور بھوک سے مرنے والوں اور سردی سے ٹھٹھرنے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ان کے پیٹ پر جمہوریت باندھ دیں اور انہیں جمہوریت کا کمبل اوڑھا دیں،سب ٹھیک ہو جائے گا ۔مشرف کا کیس اب نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ وہ اگلی تاریخ پر عدالت میں حاضر ہوجائیں گے۔مگر ایسا نہیں ہو سکا، ان کی صحت اور ڈاکٹروں نے اجازت نہیں دی اور اب عدالت نے میڈیکل بورڈ سے رپورٹ طلب کی ہے جو کہ مروجہ عدالتی طریقہ ہے۔ کوئی بھی فیصلہ بورڈ کی رپورٹ کی روشنی میں ہو گا ۔ مشرف مختلف عدالتوں میں قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور ایسی صورت میں دل کے مریض کا ذہنی دبائو کا شکار ہونا ایک لازمی امر ہے اور ایسے حالات میں مریض کی ریکوری بھی آہستہ ہوجاتی ہے۔ بہرحال ڈاکٹروں کا بورڈ اس نکتے پر بہتر روشنی ڈالے گا اور اس کے مطابق آئندہ کیسوں کی کارروائی میں پیش رفت ہوگی۔ گزشتہ پوراہفتہ ملک کے لئے بہت ہی غمناک گزرا ہے۔ خیبر پختون خوا میں امیر مقام کے قافلے پر حملہ، اے این پی کے رہنما مشتاق اور ان کے ساتھیوں پر حملہ اور جانوں کا زیاں، نواب شاہ میں ڈمپر کی ٹکر سے معصوم بچوں کی شہادت ،پشاور میں تبلیغی مدرسے پر دھماکا اور بے گناہ طالب علموں کی شہادت ایسے افسوسناک واقعات ہیں جن سے پورے ملک کی فضا مغموم ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ مذاکرات میں سست پیش رفت کو دھماکوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جبکہ طالبان کے ترجمان کا اخبار میں بیان شائع ہوا ہے کہ مدرسوں میں ہونے والے دھماکوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ چوہدری نثار صاحب کو چاہئے کہ اس سلسلے میں خصوصی توجہ دیں تاکہ جانوں کے زیاں کا سلسلہ رک سکے۔ ہر دھماکے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کسی کی کوئی حکومت ہی نہیں اور جس کا جو دل چاہتا ہے کر سکتا ہے۔
کراچی میں عید میلاد النبی ؐکے پرامن جلوسوں کے بعد اچانک کراچی پولیس میں ہونے والے مجوزہ تبادلوں کی خبروں نے تشویش کا سماں پیدا کر دیا تھا۔ بہرحال جنرل رضوان اختر کی فوری مداخلت سے معاملہ حل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کراچی آپریشن انتہائی کامیابی سے چل رہاہے اور اس موقع پر ان کی ٹیم میں کوئی بھی مداخلت ٹیم اسپرٹ کو کمزور کر سکتی ہے۔ بات پھر وہی ہے اور لوگ بھی پوچھتے ہیںکہ اتنے لوگ جوگرفتار ہو رہے ہیں تو پھر ان کے مقدمات کیوں نہیں چل رہے اور اگر چل رہے ہیں تو فیصلے کیوں نہیں ہو رہے۔ آج ہی اخبار میں خبر ہے کہ سندھ حکومت نے اصولی طور پر سندھ ہائیکورٹ کی تجویز کو قبول کر لیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ سے لیکر سیشن جج تک 173مزید عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے۔ خبر کے مطابق اس سال سندھ حکومت اپنے بجٹ کی مشکلات کی وجہ سے صرف 58عدالتیں قائم کرے گی جس میں 700لوگوں کا تقرر ہو گا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ عدالتوں پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ عدالتوں میں نئے داخل ہونے والے کیسوں کی تعداد مکمل ہونے والے کیسوں سے کہیں زیادہ ہے اور پھر خاص طور پر جب آپریشن ہوتے ہیں اور گرفتاریاں بڑھتی ہیں تو نہ صرف عدالتوں میں رش بڑھ جاتا ہے بلکہ جیلوں کے اندرملزمان کو رکھنے کی جگہ بھی کم پڑ جاتی ہے۔ اس وقت بھی جیل سے آنے والے قیدیوں نے بتایا کہ بیرکوں میں اتنی زیادہ تعداد میں ملزم بند ہیں کہ رات کو زمین پر سوتے ہوئے کروٹ بدلنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ بندے کے ساتھ بندہ جڑا ہوتا ہے۔ ابھی تو سردی کا موسم ہے اور گزارا ہو جاتا ہے۔ کراچی میں تو مارچ کے مہینے سے ہی گرم موسم کا آغاز ہو جاتا ہے جو کہ مئی اور جون میں اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ صاحب اقتدار اور اہل اختیار لوگوں نے اس بات پر توجہ دی ہے کہ نہیں کہ اتنے زیادہ لوگوں کو گرفتار کر کے رکھیں گے کہاں؟ کراچی میں کوئی نئی جیل بھی زیر تعمیر نہیں اور نہ ہی کوئی منصوبہ اخبار میں شائع ہوا ہے۔ میری صاحبان اقتدار سے گزارش ہے کہ جہاں عدالتی نظام میں توسیع ہو رہی ہے وہاں جیلوں میں قیدیوں کو رکھنے کیلئے بھی جگہ کی گنجائش پیدا کریں تاکہ زیر سماعت کیسوں کے ملزمان کی رہائش کا انتظام ہو سکے اور سزا یافتہ ملزمان کو بھی رکھنے کی جگہ پیدا ہو سکے،چونکہ ذکر جیل کا چل رہا ہے تو موقع کی مناسبت سے فیض احمد فیض کی نظم’’زنداں کی ایک صبح‘‘ کے چند اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
لذت خواب سے مخمور ہوائیں جاگیں
جیل کی زہر بھری چور صدائیں جاگیں
دور دروازہ کھلا کوئی، کوئی بند ہوا
دور مچلی کوئی زنجیر، مچل کے روئی
تازہ ترین