• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے بھی وطن عزیز میں سارے تجربات کرکے دیکھ لئے اور اب عوام و خواص سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارا مستقبل جمہوریت سے ہی وابستہ ہے۔صد شکر کہ آزاد عدلیہ ، میڈیا اور صاحب فکر پاکستانی سب بیدار ہیں۔عمرانی مسائل کے حوالے سے اس بات سے اب کسی انکار کی گنجائش نہیں رہی کہ کسی بھی شہری آبادی کے موجودہ مسائل صرف مقامی حکومت اور نمائندے ہی حل کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ایوب خان نے بی ڈی کا نظام وضع کیا ، ضیاالحق نے کونسلروں کا نظام نافذ کیا اور پرویز مشرف نے مزید تجربات کا سہارا لیکر ایک جداگانہ نظام متعارف کرایا۔ان نظاموں سے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔اسی نظام میں مصطفی کمال نے داد پائی تو بہت سو ں نے زر نقد معلو م نہیں کہاں کہاں گنوادیا۔آج ہماری بستیوں میں مسائل کاانبار کسی عفریت کی طرح منہ کھولے نظر آتا ہے ۔ ہر طرف ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،ابلتے ہوئے گٹر جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔یہ وہ مسائل جنھیں صرف مقامی سطح پر منتخب عوامی نمائندے ہی حل کرسکتے ہیں،جو اپنے پڑوس میں رہنے والوں کے سامنے جواب دہی اور اپنی کارگزاری کا حساب دینے کے لئے حاضر باش ہوں۔بلاشبہ مقامی مسائل کا ادراک ان کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔سرکاری عمال اپنے کام میں بھلے چنگے ہوں،مگر وہ مقامی نمائندوں کی طرح شہریوں کا درد محسوس نہیں کرسکتے اور جواب دہی تو بہر طور عوامی نمائندوں کی ہی ہوتی ہے ۔یہ بات قابل ستائش ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اہمیت عامہ کے اس اہم موضوع پر اپنے فیصلے میں ارباب بست و کشاد پر واضح کیا کہ وہ مقامی انتخابات کرانے کے قانونی طور پر اور حکماً پابند ہیں۔معلوم نہیں کہ ہمارے صوبائی و وفاقی حکمرانوں کو اس بات سے چڑ کیوں ہے۔بنیادی سطح پر عوامی مسائل کو حل کرنا انہی منتخب نمائندوں ہی کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے چاہے وہ جماعتی بنیاد پر منتخب ہوئے ہوں یا غیر جماعتی بنیاد پر ۔جب تک ارباب اختیار شہریوں کے ان عوامی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوں گے یہ بیل منڈے چڑھتی نظر نہیں آتی۔اب ملک میں جمہوریت قدم جماچکی ہے اور بیدار معزز عوامی نمائندے پارلیمان کا حسن بڑھارہے ہیں۔تو یہ توقع کرنا بھی بالکل بجا ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کے نظام کو فروغ دے کر اور اس نوخیز پودے کو بھی پنپنے اور پھولنے پھلنے کا موقع دیتے مگر ؎ اے بسا آرزو کہ خاک شد
مقامی انتخات سے قبل دو بڑے صوبوں کے ارباب اختیار نے اس بے ڈھنگے انداز میں حلقہ بندیاں شروع کردیں کہ الامان و الحفیظ۔30اکتوبر 2013کو میں نے لکھا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے پنجاب میں من پسند حلقہ بندیاں خوفناک ہیں،مگر شاید ارباب اختیار یہی چاہتے تھے کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر قانونی حلقہ بندیاں کردی جائیں کہ عدالت کے پاس انہیں کالعدم قرارد ینے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہ رہے۔صرف پنجاب میں غیر قانونی حلقہ بندیوں کے حوالے سے 400درخواستیں ہائیکورٹ میں دائر کی گئیں۔لاقانونیت کا یہ عالم تھا کہ ایسے علاقوں کو آپس میں جوڑ کر ایک یونین کونسل بنائی گئی ،جن کی آپس میں حدود بھی نہیں ملتی تھیں۔اپوزیشن کا تو یہ خیال ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہی مقامی انتخابات کو موخر کرنے کے لئے گیا تھا۔ جو بظاہر درست دکھائی دے رہا ہے،کیونکہ سندھ حکومت نے تو ہائیکورٹ کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا مگر پنجاب حکومت نے تو نظر ثانی تک کی درخواست دائر کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔
صوبائی حکومتیں نہیں چاہتیں کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں اور لگتا ہے اپوزیشن درست ہی کہتی ہے کہ میاں شہباز شریف تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کے قائل ہیں اور پورا صوبہ ایک سیکریٹری کی مدد سے چلارہے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب مقامی انتخابات ہو جائیں گے تو ضلع کونسل کے چئیرمینوں کی موجودگی میں ڈاکٹر توقیر شاہ کے حکم پر ڈی سی اویا ڈی پی او اس انداز میں من و عن عمل نہیں کریں گے جیسے وہ اب کررہے ہیں۔پھر تو عوامی نمائندوں کو جواب دینا پڑے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی ہی صوبائی کابینہ کے ایک سینئر وزیر کا کہنا تھا کہ جب وہ ممبر صوبائی اسمبلی نہیں ہوتے تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ مقامی انتخابات ہونے چاہئیں ،مگر جب وہ صوبائی ایوان میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ ہرگز برداشت نہیں کرتے کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں۔ویسے تو پنجاب میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ ہمارے وزیر اعلیٰ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں ہی رکھنے کے قائل ہیں اور کابینہ کے ارکان بھی اس بات کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ کابینہ کا اجلاس چل رہا ہوتا ہے کہ اچانک گریڈ 20 کے جونئیر پرنسپل سیکریٹری آکر کہتے ہیں کہ میاں صاحب !آپ کے آرام کا وقت ہوچکا ہے اور اجلاس کو ملتوی کردیا جاتا ہے۔اس صوبے میں عوام کو کیسے اختیارات منتقل ہوسکتے ہیں جہاں پر ممبر صوبائی اسمبلی اس تگ و دو میں لگے رہیں کہ صوبائی کابینہ کا حصہ بننا یاصوبے میں کوئی کام کرانا ہے تو ایک سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو رام کرلیا جائے۔یہی بیوروکریسی سے تو صوبے کو چلانے کے معاملے پر سردار ذوالفقار کھوسہ جیسے زیرک اور دانا سیاستدان نے خاموشی سےایک طرف ہوجانے میں عافیت جانی تھی،وگرنہ بھلا ان سے زیادہ مسلم لیگ (ن )سے مخلص یا میاں صاحبان کا درد کون رکھتا ہے۔مگر یہ بات تو طے ہے کہ وزیر اعلی پنجاب اور ان کی ٹیم ہر گز یہ نہیں چاہتی کہ پنجاب میں فوری مقامی انتخابات ہوں۔اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ایک تو مسلم لیگ (ن )کی مقامی انتخابات کیلئے ٹیم تو ہے مگر قیادت کے فقدان کی وجہ سے مسلم لیگی گروپ ہی آپس میں برسر پیکار ہیں۔فیصل آباد کی ایک یونین کونسل کا یہ عالم ہے کہ وہاں پر چئیرمین اور کونسلر کے لئے مسلم لیگ( ن) کے ہی 82مختلف گروپ میدان میں آجاتے ہیں۔باقی صوبے کا بھی یہی حال ہے ۔حتی کہ ڈیرہ غازی خان میں تو انتخابات میں حصہ لینے والے سب نمائندے ہی مسلم لیگ( ن) کے ہی حمایت یافتہ ہونے کے دعویدار ہیں۔چاہے لغاری ہوں،یا دوست کھوسہ کے امیدوار ۔جبکہ دوسری واضح وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکمران اپنے لامحدود اختیارات کا دائرہ کار محدود کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔مگر حکمران شاید بھول بیٹھے ہیں کہ وطن عزیر جمہوریت کے راستے پر تو گامزن ہوگیا ہے لیکن اگر آمریت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہے تو ایک عام شہری تک اختیارات منتقل کریں تاکہ اسے اس سسٹم کا اندازہ ہو ۔کیونکہ اگر مستقبل میں پھر کبھی آمر نے دستک دینے کی کوشش کی تو غیر قانونی اقدام کی مزاحمت کے لئے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں موجود ان 1175ارکان کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں وہ عوامی نمائندے بھی ہونگے جو اس غیر قانونی و غیر آئینی عمل سے براہ راست متاثر ہورہے ہونگے۔
اس میں شک نہیں کہ ترقیاتی کام اور ان سے متعلق اسکیموں کی تعمیر اور انہیں قابل عمل بنانا اولین ترجیح ہونا چائیے۔ رہا لااینڈ آرڈر وہ بلاشبہ انتظامیہ کا حق ہے۔یہ حقیقت ناقابل تردید انتہائی تکلیف دہ ہے کہ 6ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک لیت ولعل سے کام لیا جارہا ہے کبھی کہیں قانون کے ہونے یا نہ ہونے ،یا حلقہ بندیوں کا خودساختہ مسئلہ اور کہیں سرکاری افسران کی تعیناتیوں پر لے دے ،سب تاخیری حربے نہیں تو اور کیا ہیں۔خدارا اس قوم کے ساتھ مزید مذاق سے باز رہیں کہ آپ کے تمام اعمال ،حرکات و سکنات کو مملکت کےسب ذی شعور شہری اپنی فہم و فراست سے دیکھ رہے ہیں،چلیں آپ نے عوام سے تین ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے اور خوشحالی لانے کے وعدے تو پورے نہیں کیے مگر عدالتوں کے بار بار احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اب بلدیاتی انتخابات ہی کرادیں ،ویسے آپ بھی سابق حکومت کی روش پر تو چل ہی پڑے ہیں ، پھرکیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے آپ کا انجام ان سے مختلف نہیں ہوگا۔
تازہ ترین