• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ سپریم کورٹ کی پونے دو سالہ محنت کو الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومتوں کی ڈرامہ بازی نے غارت کر دیا اور الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ سندھ میں چند گھنٹوں میں 13کروڑ اور پنجاب میں بارہ روز میں 30کروڑ بیلٹ پیپروں کی چھپائی ممکن نہیں اس لئے سندھ میں 18جنوری اور پنجاب میں 30جنوری کو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ اب الیکشن کمیشن دونوں صوبوں میں لوکل گورنمنٹ ترمیمی بلوں میں ترمیم، رولز اور قانون سازی کے بعد آئندہ شیڈول کا اعلان کرے گا۔الیکشن کمیشن کے ایک نوٹیفکیشن سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لئے 2لاکھ 4ہزار 855امیدواروں نے جو کاغذات جمع کرائے تھے وہ ضائع ہوگئے گو ان دو صوبوں میں تین مرتبہ مقامی انتخابات ملتوی کئے گئے مگر سیکورٹی کی مد میں الیکشن کمیشن 47کروڑ 70لاکھ روپے کمانے میں کامیاب ہوگیا اور ان تین مہینوں کے دوران امیدواروں کی طرف سے الیکشن مہم کے دوران خرچ کیاجانے والا 50ارب روپیہ حکومت کے بلدیاتی تجربے کی نذر کر دیا گیا۔ عوام سوچ رہے ہوں گے کوئی بات نہیں اب یہ انتخابات آئندہ چند مہینوں میں منعقد ہو جائیں گے تو یہ غلط فہمی بھی دل سے نکال دیں کیونکہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ذاتی دلچسپی سے منعقد ہوئے، خبیرپختونخوا میں ممکن ہے کہ عمران خان اپنی ذاتی دلچسپی سے مارچ تک انتخابات منعقد کرا کے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن پنجاب اور سندھ حکومتوں کیلئے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا گھاٹے کا سودا لگتا ہے اس لئے فی الحال عوام بھول جائیں کہ ان دو صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بلدیاتی قوانین میں ترامیم اور حلقہ بندیاں کرنے کیلئے کئی ماہ درکار ہوں گے۔ الیکشن کمیشن ڈیڑھ مہینے پہلے حکومت سے درخواست کر چکا ہے کہ 2014ء میں مردم شماری کرائی جائے۔ اس حوالے سے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی حکومت کو خط لکھا اور ابھی چند روز پہلے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی یہ تجویز دے چکی ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات سے پہلے مردم شماری کرائے تاکہ ان کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کرائی جائیں۔ مردم شماری کے لئے تعلیمی اداروں کا عملہ اور اساتذہ ہی کام آتے ہیں چونکہ یہ امتحانات کا سیزن ہے اس لئے مردم شماری مئی اور جون سے پہلے شروع ہونا ممکن نہیں۔ فرض کریں مردم شماری جون میں شروع ہوتی ہے اور حکومت کی نیت بھی ٹھیک رہتی ہے تو دسمبر سے پہلے اس کام کا مکمل ہونا ممکن نہیں۔ مردم شماری کے بعد دوسرا مرحلہ حلقہ بندیوں کا ہے۔ قانون کے مطابق اب تک حلقہ بندیاں انتظامیہ ہی کراتی چلی آئی ہے لیکن انتظامیہ کی حلقہ بندیوں پر ہمیشہ اپوزیشن کے اعتراضات رہے اور یہ اعتراضات بڑی حد تک صحیح بھی ہوتے ہیں کہ حکومت وقت اپنے امیدواروں کی سہولت کے مطابق حلقہ بندیاں کراتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کی شق 10کے تحت اگر حکومت مناسب سمجھے تو ایکٹ سے ایک تحریری حکم کے ذریعے نئی حلقہ بندیوں کا سیکشن ختم کر سکتی ہے۔ ویسے تو پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ یہ بیان دے چکے ہیں کہ حلقہ بندیوں کے لئے ایک سال تک کا عرصہ درکار ہوگا اور یہ الیکشن کمیشن سے کرائی جائیں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی حلقہ بندیوں کا الیکشن کمیشن کو تجربہ ہی نہیں، نہ ہی اس کے پاس سسٹم موجود ہے تو پھر مجبوراً انتظامیہ پہ انحصار کیا جائے گا یا پھر الیکشن کمیشن کو انتظامیہ سے تائید دلوائی جائے گی اور یہ کام پھر بھی شفاف طریقے سے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے گا۔
امکان یہی ہے کہ ان بھول بھلیوں میں بلدیاتی انتخابات کو گم کرنے کی کوشش کی جاتی رہے، یہ انتخابات صرف اسی صورت میں ہو سکیں گے جب حکمرانوں کو یقین ہو جائے کہ مقامی سطح پر فضا ان کے حق میں ہو گئی ہے اور ان کے نامزد امیدوار جیت سکتے ہیں لیکن پھر بھی یہ شفاف طریقے سے منعقد نہیں ہوں گے کیونکہ شفافیت کے سسٹم کو ہی ختم کیا جا رہا ہے۔ نادرا کے چیئرمین نے عام انتخابات میں دھاندلی کو چیک کرنے کیلئے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا طریقہ اپنایا تو انہیں راتوں رات برطرف کر دیا گیا لیکن وہ عدالت چلے گئے اب عدالت عالیہ نے ان کی برطرفی کو غلط قرار دیتے ہوئے حکومت کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے مگر حکومت نے جب اپنی شکست دیکھی تو پہلے ان کو اور پھر ان کی بیٹی کو دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں اور چیئرمین نادرا طارق ملک کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت ایسی نہیں جس کے ساتھ کام کیا جاسکے۔ اس کے بعد اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ کسی غیر جانبدار چیئرمین نادرا کی تقرری ہوگی یا نادرا کا ادارہ بلدیاتی انتخابات کو شفاف بنانے میں کوئی کردار ادا کر سکے گا تو یہ محض خام خیالی ہے ۔ عوام نہ توکبھی جیت سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی یہ خواہش پوری ہوگی کہ آئین کے آرٹیکل 140-Aکے مطابق ہر صوبہ قانون کے مطابق مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرے۔ سیاسی انتظامی اور مالیاتی ذمہ داریاں، اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کئے جائیں۔ اگر یہ سب ہو گیا تو حکومتی خواہشات دھری کی دھری رہ جائیں گی جو کبھی ہونے نہیں دیا جائے گا!
وزیراعلیٰ توجہ دیں:کوئٹہ سے عبدالقیوم کاکڑ نے لکھا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف صوبہ بلوچستان کے مسائل کے حل میں بھی خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقوں کے حوالے سے ان کی خصوصی شفقت سب کے سامنے ہے۔ میاں شہباز شریف نے 2009ء میں دورہ کوئٹہ کے دوران بلوچستان کے عوام کے لئے حکومت پنجاب کی طرف سے تحفہ کے طور پر جدید سہولتوں سے آراستہ امراضِ قلب کا اسپتال تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے 2010-11ء کے مالی بجٹ میں ایک ارب روپے بھی مختص کئے تھے تاکہ اسپتال کی تعمیر کے ساتھ ساتھ عملے کو تربیت اور جدید آلات بھی فراہم کئے جائیں۔ بلوچستان حکومت نے اس اسپتال کے لئے دس ایکڑ اراضی مختص کر کے حکومت پنجاب کو آگاہ بھی کیا مگر پنجاب حکومت نے اس زمین کو موزوں قرار نہ دیا اور کہا کہ ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں عام مریض ایمرجنسی کی صورت میں بآسانی پہنچ سکیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے کہ زمین کے حوالے سے وفاق سے جو این او سی درکار ہے وہ لینے کے بعد دل کے امراض کے اسپتال کو فوری بنواکر 2009ء میں بلوچ عوام سے کئے اپنے وعدے کی تکمیل کی جائے۔
تازہ ترین