• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی ایس پی پلس پر لکھے گئے اپنے ایک کالم میں، میں نے قارئین کو اس بات سے آگاہ کرنے کا وعدہ کیا تھا کہ پاکستان نے جی ایس پی پلس کے حصول میں حائل رکاوٹوں اور مخالفت کے باوجود کس طرح یورپی یونین سے ڈیوٹی فری جی ایس پی پلس کا درجہ حاصل کیا جس کیلئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور جو برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر رہ چکے ہیں، کو یورپی یونین میں لابنگ کے لئے خصوصی طور پر برسلز بھیجا جنہوں نے اس سلسلے میں نہایت اہم کردار ادا کیا کیونکہ برسلز میں پاکستانی سفیر کے مطابق ووٹنگ سے ایک روز پہلے تک ووٹنگ میں پاکستان کی کامیابی ناممکن نظر آتی تھی۔ گزشتہ دور حکومت میں، میں نے بھی جی ایس پی پلس سہولت کے حصول کے لئے انتھک کوششیں کی تھیں اور اس سلسلے میں موجودہ حکومت میں بھی گورنر پنجاب سے مسلسل رابطے میں رہی لہٰذا یہ میرا اخلاقی فرض ہے کہ میں قوم کو اس تاریخی کامیابی کے پس منظر سے آگاہ کروں۔
ستمبر 2013ء میں جب مجھے اور میرے بھائی اشتیاق بیگ کو چوہدری محمد سرور نے گورنر ہائوس لاہور مدعو کیا تو میں نے رات گئے تک جاری رہنے والی ملاقات کے دوران گورنر پنجاب کو بتایا کہ پاکستان گزشتہ 8 سالوں سے یورپی یونین میں جی ایس پی پلس درجے کے حصول کے لئے کوششیں کررہا ہے لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی جس کی بڑی وجہ یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان مخالف لابنگ ہے۔ یورپی یونین جی ایس پی پلس اسکیم کے تحت صرف وہی ممالک اس سہولت کے حقدار ہوتے ہیں جن کی ایکسپورٹ یورپی یونین کی مجموعی امپورٹ کا 1% سے کم ہو جبکہ پاکستان کی یورپی یونین کو ایکسپورٹ 1.5% ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا شمار اقوام متحدہ کی درجہ بندی کے مطابق کم آمدنی اور کم ترقی یافتہ ممالک کے بجائے ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ ان رکاوٹوں کے پیش نظر میں نے گزشتہ دور حکومت میں ملک کے بڑے برآمد کنندگان شاہد سورتی، شبیر دیوان، بشیر علی محمد اور دیگر کے ساتھ ملاقاتیں کرکے جی ایس پی پلس درجے کے حصول کیلئے یورپی یونین کو ایک نظرثانی شدہ اسکیم پیش کی جس میں یورپی یونین کی درآمد کی حد بڑھاکر 2% کرنے کی تجویز دی گئی تھی تاکہ پاکستان جی ایس پی پلس اسکیم کیلئے کوالیفائی کرسکے جبکہ میری درخواست پر اس وقت کے وزیراعظم نے دورہ یورپی یونین کے موقع پر اپنے ہم منصب کو بتایا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث پاکستان کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے جنہیں پیش نظر رکھتے ہوئے ملکی معیشت کی بحالی کے لئے پاکستان کو جی ایس پی پلس کی سہولت دی جائے جس سے نہ صرف ملک میں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ بیروزگاری میں بھی کمی آئے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ یورپی یونین نے ہماری تجویز کے تحت جی ایس پی پلس کے قانون میں ترمیم کی جس کے بعد پاکستان اس سہولت کا حقدار بنا۔ گورنر پنجاب کو میں نے بتایا کہ آپ 3 مرتبہ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں آپ کے صاحبزادے بھی برطانوی پارلیمنٹ کے رکن ہیں اور یورپی پارلیمنٹ میں برطانیہ انتہائی اثر و رسوخ رکھتا ہے جسے پیش نظر رکھتے ہوئے آپ یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کے لئے حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر اپٹما کے گوہر اعجاز اور ایس ایم تنویر نے بھی گورنر پنجاب سے اس معاملے میں مدد کی درخواست کی جس کے بعد انہوں نے وزیراعظم کی ہدایت پر برطانیہ جانے کا فوراً فیصلہ کیا جنہیں لندن میں اشتیاق بیگ نے جوائن کیا۔5 نومبر کو 31 ممبران پر مشتمل یورپی یونین کی انٹرنیشنل ٹریڈ کمیٹی کی میٹنگ جس میں پاکستان کو یورپی یونین کی نظرثانی اسکیم کے تحت جی ایس پی پلس کا درجہ دینے کا اصولی فیصلہ کرنا تھا، میں پاکستان کو 18 میں سے صرف 3 ممبران کی حمایت حاصل ہوئی جن میں سے 2 وہ ممالک تھے جو اصولی طور پر فری ٹریڈ کے حامی ہیں تاہم صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے چوہدری سرور نے یورپی پارلیمنٹ میں برٹش سوشل الائنس پارٹی کے ڈیوڈ مارٹن، یورپین کنزرویٹوز اینڈ ریفارمسٹ کے سجاد کریم، یورپی یونین پیپلزپارٹی کے مائیکل غلارا اور کرسٹوفر کیسپیر سے ملاقاتیں کیں لیکن انہیں بتایا گیا کہ یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کو جی ایس پی پلس سہولت دینے میں سخت مخالفت کے باعث اکثریت کی حمایت ملنا انتہائی مشکل نظر آتی ہے لیکن چوہدری سرور نے ہمت نہ ہاری اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 50 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی قربانیوں اور موجودہ جمہوری حکومت کی کامیابی کو جی ایس پی پلس کی سہولت سے مشروط کرکے انٹا کے 31 ممبران میں سے 18 ممبران کی حمایت حاصل کرلی۔ اس طرح پاکستان پہلے مرحلے میں جی ایس پی پلس کا ڈیوٹی فری درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن انٹا کمیٹی کے چیئرمین ویتال موریرا جو 15 سال سے کمیٹی کے سربراہ ہیں، نے یورپی پارلیمنٹ کے 100 ممبران پر مشتمل گرین گروپ کے ذریعے پاکستان کو جی ایس پی پلس سہولت دینے کے خلاف بل پیش کردیا۔ ان کا موقف تھا کہ جی ایس پی پلس کیلئے جن 10 ممالک کا گروپ بنایا گیا ہے، وہ جغرافیائی یا کسی اور بنیاد پر پاکستان کے ساتھ نہیں لہٰذا پاکستان کو ان ممالک سے علیحدہ کرکے اُن 27 عالمی معاہدوں کی کارکردگی پر جانچا جائے جو جی ایس پی درجے کے حصول سے مشروط ہیں جس کی رپورٹ کے بعد پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دینے کیلئے یورپین پارلیمنٹ میں ووٹنگ کرائی جائے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر چوہدری سرور نے یورپی پارلیمنٹ کے تمام 766 ممبران اور ان کے متبادل ممبران کو خطوط لکھے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ایسا کرنا پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک اور ناانصافی ہوگی۔ اپنے خط میں انہوں نے پاکستان میں امن و امان اور معیشت کی بحالی کیلئے جی ایس پی پلس کی سہولت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور بتایا کہ یہ سہولت ملنے کے بعد پاکستان میں نئی سرمایہ کاری ہوگی اور حکومت نوجوانوں کو روزگار فراہم کرسکے گی۔ بصورت دیگر پاکستان کے نوجوان اپنے پیٹ کے ایندھن کیلئے کسی انتہا پسند تنظیم ے آلہ کار بن سکتے ہیں۔ ووٹنگ سے 5روز قبل چوہدری سرور، وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر دوبارہ برسلز پہنچے اور مجھ سے مسلسل رابطے میں رہے۔ برسلز پہنچنے کے بعد انہوں نے یورپی پارلیمنٹ میں تمام بڑے گروپ لیڈروں کے علاوہ 100 سے زائد یورپی پارلیمنٹیرین سے فرداً فرداً ملاقات کی اور انہیں پاکستان کی حمایت کیلئے آمادہ کیا جس کے حوصلہ افزا نتائج نکلے اور 12 دسمبر کو یورپی پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ میں یورپی یونین پیپلزپارٹی کے 275 ممبران، الائنس آف سوشلسٹ اینڈ ڈیموکریٹس کے 195 ممبران، الائنس آف لبرل ڈیمو کریٹس کے 85 ممبران اور یورپین کنزرویٹوز اینڈ ریفارمسٹ کے 56 ممبران نے پاکستان کو یہ سہولت دینے کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اس پارلیمنٹ کے 766 ووٹوں میں سے پاکستان کی حمایت میں 409 ووٹ جبکہ مخالفت میں 182 ووٹ ڈالے گئے۔ فرانس جس نے انٹا کمیٹی میں پاکستان کی حمایت میں ووٹ ڈالے تھے، نے آخری وقت میں اپنے 72 ووٹ پاکستان کی مخالفت میں ڈالے۔
گزشتہ ماہ (PDMEA) کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے گورنر پنجاب کو یورپی یونین سے پاکستان کو جی ایس پی پلس ڈیوٹی فری سہولت کے لئے قابل قدر خدمات پر خراج تحسین پیش کرنے کیلئے کراچی میں عشایئے کا اہتمام کیا جس میں فیڈریشن کے صدر زبیر احمد ملک، اپٹما کے چیئرمین یاسین صدیق، سابق چیئرمین اپٹما گوہر اعجاز، ایس ایم منیر، مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار، EFU کے چیئرمین سیف الدین زومکا والا، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک اشرف وتھرا، سندھ بینک کے صدر بلال شیخ، مراکش کے اعزازی قونصل جنرل اشتیاق بیگ، عارف شاہ بخاری، پاکستان میں برطانیہ کے ہیڈ آف مشن گل ایڈکنسن، برطانوی سفارتی قونصلر سوسان ہیلینڈ، ایران اور سری لنکا کے قونصل جنرلز کے علاوہ ملک کے ممتاز ایکسپورٹروں اور صنعت کاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر میں نے جی ایس پی پلس سہولت سے فائدہ اٹھانے کیلئے وزیراعظم کی سربراہی میں پاک یورپی یونین بزنس فورم کی تجویز پیش کی جس میں گورنر پنجاب، اپٹما، پڈمیا، فیڈریشن آف پاکستان، ایکسپورٹرز ایسوسی ایشنز، وزارت تجارت و ٹیکسٹائل انڈسٹریز اور TDAP کے نمائندے شامل ہوں گے جس کا مقصد ایکسپورٹ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، مصنوعات کی ایکسپورٹ گروتھ کی مانیٹرنگ اور پاکستانی مصنوعات کو یورپی یونین میں ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی کیلئے کمرشل قونصلرز کو دیئے گئے اہداف کی مانیٹرنگ کرنا ہوگا۔
وزیراعظم اس فورم کی باقاعدگی سے میٹنگ طلب کریں تاکہ اس سہولت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کیلئے حائل رکاوٹوں کو فوری طور پر ختم کیا جاسکے۔ جی ایس پی پلس ملنے کے بعد پاکستان یکم جنوری 2014ء سے 10 سال کیلئے یورپی یونین کے 27 ممالک کو بغیر کسٹم ڈیوٹی اپنی 6000 سے زیادہ مصنوعات ایکسپورٹ کرنے کا حقدار ہوچکا ہے لیکن اس سہولت پر ہر 3 سال بعد نظرثانی کی جائے گی۔ جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے سے پاکستان کی ایکسپورٹ میں پہلے سال تقریباً ایک بلین ڈالر کا اضافہ ہو گا جس میں آنے والے سالوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہے گا۔ آج گورنر پنجاب چوہدری سرور نے جنگ عظیم دوم کی کامیابی کے بعد ونسٹن چرچل کے مختصر تاریخی خطاب میں کہے گئے اس جملے "Never, never, never give up" ( کبھی ہمت نہ ہارو) کو صحیح ثابت کردکھایا ہے جس کیلئے میں اُنہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
تازہ ترین