• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد میں آج کل قومی اداروں کی نج کاری کے حوالے سے بڑی تیزی سے کام ہورہا ہے، اس سلسلہ میں نج کاری کمیشن کے نئے سربراہ محمد زبیر اور ان کی ٹیم کوشش کررہی ہے کہ بڑی احتیاط سے کام آگے بڑھایا جائے لیکن انہیں یہ بھی احساس ہے کہ نج کاری کے ایشو پر حکومت اگر اس کی پرزور حامی ہے تو ان کی اپوزیشن کرنے والے بھی کافی تعداد میں ہیں جن کو موجودہ مہنگائی اور بے روزگاری کے حالات میں عوامی سپورٹ بھی زیادہ مل سکتی ہے۔ اس لئے کے اس وقت معاشی حالات کچھ ایسے ہیں کہ اس میں لوگوں کو اور بالخصوص یوتھ کو روزگار کے نئے مواقع نہیں مل رہے، اس صورتحال میں کئی اداروں کی نج کاری کے باعث اگر ان بے روزگار افراد کی تعداد بڑھ گئی تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے، ویسے تو نج کاری کے معاملہ پر وفاقی کابینہ میں پورا اتفاق نہیں ہے کئی وزراء اور مشیران اس حوالے سے وہ رائے نہیں رکھتے جو حکومت چاہتی ہے ۔وہ اداروں کی نج کاری کی بجائے ان کی انتظامی اور معاشی مینجمنٹ کی بہتری کے حامی نظر آتے ہیں اور تین ہفتے قبل نج کاری کمیشن نے اپنے پہلے باضابطہ اجلاس میں پی آئی اے کی نج کاری کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے یہ بات پبلک ہوئی کہ یہ سب آئی ایم ایف کے حکام کے کہنے پر ہورہا ہے۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ باتیں شروع ہوگئیں کہ یہ ائیر لائن فلاں شخص یا ملک کے دوستوں کو دی جارہی ہے۔ اس سے عوامی سطح پر غلط تاثر دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے۔
تاریخی طور پر دیکھے تو1971ء کے بعد نئے پاکستان میں بھٹو صاحب نے جب قومی صنعتوں کو قومیانے کا اقدام کیا تو اس کے بعد صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کی نج کاری یا واپسی کے کام کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے1990ء کی دہائی کے آغاز میں یہ بیان دیا کہ حکومت کا کام سرکاری ادارے چلانا نہیں ہے ۔ اس کے بعد ساری دنیا میں نج کاری کے عمل کا آغاز ہوا۔ کئی ممالک میں یہ تجربہ کامیاب رہا اور کافی میں ناکام رہا۔ پاکستان میں تو اس تجربہ کی روشنی میں بے روزگاری بڑھی اور دوسری طرف ان اداروں کی سروسز کی لاگت میں اضافہ سے مہنگائی بھی بڑھی۔ غرض یہ معاملہ ہر لحاظ سے متنازعہ رہا۔ مسلم لیگ(ن) ہمیشہ سے نج کاری کی حامی رہی اور پیپلز پارٹی ماشاء اللہ سوئے ہوئے اور بعض مر جانے والے ورکروں کو بھی پرانے واجبات دلاتی رہی۔ دونوں صورتوں میں بے چارے عوام کو کچھ نہیں ملا۔ چند بڑے بڑے امیر ہوتے گئے ، ریاست اور عوام غریب ہوتے گئے۔
آج کل پی آئی اے کی 26فیصد فروخت کا چرچا ہے جسے خریدنے والے کو مینجمنٹ بھی مل جائے گی۔ شاید عملی طور پر ایسا ممکن نہ ہو، کوٹ ادو پاور ہائوس کی نج کاری بھی اس انداز میں کی گئی تھی تو پھر عدالت عالیہ کی مداخلت سے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکا تھا۔ پی آئی اے کے انچارج وزیر شاہد خاقان عباسی تو شاید ز یادہ موثر ثابت نہیں ہورہے ورنہ وہ بھی اس میں فعال اور مستعدمینجمنٹ کے ذریعے پاکستان کے اپنے بنائے ہوئے پہلے ادارہ کو بچا سکتے تھے اور اب بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ ان کے والد خاقان عباسی صاحب ہوتے تو شاید وہ ایسا نہ کرتے۔ اس کے برعکس ریلوے کے وفاقی وزیر سعد رفیق مضبوط اعصاب کے ساتھ اس کی نج کاری کی بجائے اسے فعال بنانے کے لئے سرگرم ہیں۔ وہ نوجوان ہیں اور مستعد بھی ہیں ،وہ عوامی ا ور سیاسی ردعمل کے حوالے سے کئی زمینی حقائق سے آگاہ ہیں ،انہیں بھی پتہ ہے کہ ریلوے ہر لحاظ سے تباہ حال ادارہ ہے، بدانتظامی ،کرپشن، لاپرواہی کئی معاملات ان کے علم میں ہیں، اس کے باوجود وہ ریلوے کو نج کاری سے بچانے اور صحیح ٹریک پر چلانے کے لئے سرگرم ہیں۔ وہ ریلوے کے امور کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی کرتے رہتے ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ ریلوے کو سستے سفر کا بہترین ذریعہ بنائیں اور ریلوے کی لاکھوں ایکڑ قیمتی اراضی کو بااثر قوتوں سے بچانے کے لئے اس کے لئے صحیح استعمال کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ اس سلسلہ میں پچھلے دنوں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ظہرانہ میں انہیں تجویز دی گئی تھی کہ وہ پاکستان میں ریلوے کی فاضل اور غیر استعمال اراضی پر ریلوے میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ انہوں نے ساری بات بڑی دلچسپی سے سنی ۔اب وقت ہے کہ وہ ریلوے کو بچانے اور چلانے کے لئے ایسی حکمت عملی تیار کریں جس سے ریلوے کا امیج بھی بہتر ہو اور ریلوے کی آمدن بھی بڑھے۔ ریلوے ہو یا کوئی اور ادارہ ایسا نہیں ہے جسے ٹھیک نہ کیا جاسکتا ہو۔ ہر چیز ممکن ہے بشرطیکہ اس کے لئے صحیح جذبے سے سوچا جائے۔ سرکاری اداروں میں اس وقت حقیقت میں حکومت نہیں، عوام کے سالانہ اربوں روپے ضائع ہورہے ہیں مگر حیران کن بات یہ ہے کہ یہ اخراجات کارکنوں کی تنخواہوں پر اتنے زیادہ نہیں ہیں جتنے پرانے قرضوں کی ادائیگی یا دیگر غیر ضروری اخراجات کی مد میں صرف کرنے پڑتے ہیں۔ ضروری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً دو سو سرکاری اداروں میں سالانہ 500ارب روپے کا خسارہ ہورہا ہے جو روزانہ کے تناسب سے1. 5ارب روپے اور فی گھنٹہ57ملین (پانچ کروڑ 70لاکھ) روپے بنتا ہے۔ اس لحاظ سے تو حکومت کا یہ حق بلکہ فرض بنتا ہے کہ وہ سالانہ 500ارب روپے بچائے۔ اس کیلئے ملک میں مالیاتی اخراجات کی تقسیم(ایلوکیشن) اور ان کی موثر مانیٹرنگ کا نظام لانا ہوگا۔ شاید اس حوالے سے آنیوالے دنوں میں آئی ایم ایف کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی سامنے آجائے جیسا کہ انہوں نے عملاً گن پوائنٹ پر پاکستان کے حکام کو مجبور کیا کہ وہ تمام ممبران پارلیمنٹ کے نیشنل ٹیکس نمبر(NTN)کو یقینی بنائیں ۔اس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار سرگرم ہوئے اور ایف بی آر کے حکام تمام ممبران اسمبلی اور سینٹ کو این ٹی این الاٹ کرنے میں مصروف ہوگئے لیکن کیا اس سے ایلیٹ کلاس ٹیکس نیٹ میں آجائیگی۔ شاید ایسا نہ ہوسکے، ٹیکس نیٹ میں تو کمزور لوگ ہی آئینگے۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی ،پشاوریا کوئٹہ کے طاقتور بزنس ہائوسز اور تجارتی اداروں سے ایف بی آرکے حکام ٹیکس وصول کرنیکی جرأت کرسکتے ہیں حالانہ انہیں معلوم ہے کہ صرف چند سو بڑے تجارتی اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے سالانہ کئی ارب روپے کے اضافی ٹیکس بھی مل سکتے ہیں اور کئی ارب روپے کی ٹیکس چوری بھی رک سکتی ہے۔ اس وقت عوام ٹیکس دینے کے موڈ میں نظر آتے ہیں مگر محکمانہ پوچھ گچھ کا خوف انہیں آگے بڑھنے سے روکے ہوئے ہے جبکہ بڑے بڑے لوگ چاہے وہ پارلیمنٹ کے اندر ہیں یا باہر انہیں اس حوالے سے کوئی فکر یا تشویش نہیں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی کیا مجال کہ وہ ہمارے ہاں ایسی ا صلاحات کیلئے دبائو ڈالے۔ پاکستان کی معیشت تو عملاً70فیصد انفارمل اکانومی پر چل رہی ہے۔ وہ اسے فارمل سیکٹر میں لانے کیلئے کچھ کرے تو سب مسائل حل ہوجائینگے، اس کیلئے اداروں کی نج کاری سے کام نہیں چلے گا بلکہ اداروں کی مینجمنٹ بہتر بنانے اور بلا امتیاز سب کو ایک ہی لاٹھی یا اصول کے تحت ٹیکس نیٹ میں لانے سے کام چلے گا۔
تازہ ترین