• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی چھٹی برسی کے موقع پر پیپلزپارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں پارٹی منشور اور اپنے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں بیان کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر میری مشہور نظم ’’میں باغی ہوں‘‘ کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ پڑھا اور اس کے حوالے سے موجودہ سماج سے بغاوت کا اظہار کیا۔ میرے لئے یہ باعثِ مسرت ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی یہ نظم بہت پسند تھی اور وہ اسے پارٹی منشور قرار دیکر اپنے جلسوں میں اکثر پڑھا کرتی تھیں۔ میں نے یہ نظم راولپنڈی میڈیکل کالج میں اپنے ایّامِ طالب علمی میں لکھی تھی۔ جب جنرل ضیاء نے منتخب وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔ جس کے اثرات سے ہمارا ملک ابھی تک باہر نہیں نکل سکا۔اس نظم کو لکھنے کی پاداش میں اگرچہ مجھے تشدّد اور قیدوبند کی صوبتوں کا شکار ہونا پڑا لیکن یہ نظم محنت کشوں اور مزاحمت کاروں کا محبوب ترانہ بن گئی۔ یہ نظم زیرِ زمین سیاسی کارکنوں سے سفر کرتی ہوئی برطانیہ تک پہنچ گئی جہاں ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ نظم 5جنوری 1985ء کو بھٹو شہید کی سالگرہ کے موقع پر کانوائے ہال لندن میں پڑھی جس کا ذکر انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’’دخترِ مشرق‘‘ میں بھی کیا ہے لیکن اسے اُس وقت خاص شہرت حاصل ہوئی جب محترمہ نے اسے 10اپریل 1986ء کو اپنی پہلی جلاوطنی سے وطن واپسی پر مینارِ پاکستان پر لاکھوں کے مجمعے کے سامنے پڑھا۔ 27نومبر1992ء کو جب محترمہ نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران لانگ مارچ پر نکلیں تو وہ خصوصی طور پر ’’میں باغی ہوں‘‘ کتاب کی تقریب ِ رونمائی کے لئے لاہور تشریف لائیں۔ بعد میں اس کتاب کے کئی غیر ملکی زبانوں میں تراجم بھی شائع ہوئے کئی گلوکاروں نے اسے گایا اور اس پر ڈرامے بھی بنے جبکہ ایک سیاسی لیڈر نے بھی اپنی کتاب کا نام اسی نظم سے لیا حالانکہ انہوں نے اس کا حوالہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ اب یہ نظم نئی نسل میں منتقل ہوچکی ہے تقریباً 28سال کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی زبانی یہ نظم سُن کر یہ بات تو پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پاکستان آج بھی انہی مسائل میں گھرا ہوا ہے جن میں 28سال پہلے مبتلا تھا اور جن کی نشاندہی اس نظم میں کی گئی تھی۔ یعنی عوامی حاکمیت کی نفی، لاقانونیت، مذہبی بلیک میلنگ ، حکومتی کرپشن ، عورتوں کے حقوق کی پامالی اور معاشرے کی طبقاتی تقسیم وغیرہ۔ دیکھا جائے تو باقی دنیا کے برعکس ہمارے ہاں یہ تمام منفی رجحانات وقت کے ساتھ ساتھ اور گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ جنہوں نے ہمارے معاشرے کو بھوک اور خوف کا معاشرہ بنا دیا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈر معاشرے میں تبدیلی کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ معاشرہ اس وقت تک تبدیل نہیں ہوسکتا جب تک کسی پارٹی کو انقلابی سوچ اور تربیت یافتہ کیڈر کے تحت منظم نہ کیا جائے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے مراحل بہت کم آتے ہیں جب کسی واقعے کی وجہ سے اُن میں عوام دشمن اور عوام دوست طبقوں کے تقسیم نہایت واضح ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں ضیاء آمریت نے اسی تقسیم کو پہلی مرتبہ نمایاں طور پر اُجاگر کردیا تھا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو، ان کے خاندان اور پیپلزپارٹی کے جیالوں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کی خاطر بے مثال قربانیاں دی تھیں۔ اس کی نظیر پاکستان کے سِوا جنوب مغربی ایشیاء کے کسی ملک میں بھی نہیں ملتی لہٰذا بھٹو اور دیگر شہیدانِ جمہوریت نے اپنے خون سے عوام دشمنوں اور عوام دوست طبقوں میں جو لکیر کھینچی تھی وہ ان کی قربانیوں کا حاصل تھی ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ نہ صرف اس لکیر کو برقرار رکھا جاتا بلکہ اس کی بنیاد پر پیپلزپارٹی کی تنظیمِ نو کی جاتی لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا اور بہت سے عوام دشمن عناصر پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے جن کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں پارٹی عوامی امنگوں کی ترجمان بنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نظریاتی سمت اور تربیت سے محروم یہ عوامی پارٹی ’’عوامی ہجوم‘‘ بن کر رہ گئی اور قوم کو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا صدمہ بھی سہنا پڑا۔ تربیت یافتہ نظریاتی کیڈر نہ ہونے کی وجہ سے جب 2008ء میں پارٹی کو اقتدار ملا تو کوئی بھی محترمہ کی لیڈر شپ کے خلا کو پُر نہ کر سکا۔ جس کے نتیجے میں اپنا پانچ سالہ دورِ اقتدار پورا کرنے کے باوجود پارٹی عوام کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی۔ چنانچہ 2013ء کے انتخابات میں ایک ملک گیر پارٹی ایک صوبے میں سمٹ کر رہ گئی۔ پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری کو جو پارٹی ملی ہے وہ مایوسی ، بددلی اور بے سمتی کا شکار ہے۔ اس کے جانثار کارکنوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں لیکن چونکہ پیپلز پارٹی عوام کی روایتی پارٹی ہے اور روایتی پارٹیاں گِر کر سنبھلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں بشرطیکہ انہیں ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ یہ نوجوان لیڈر کی صلاحیتوں کا امتحان بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ اگر بلاول بھٹو فرسودہ معاشرے سے باغی ہیں تو اس معاشرے میں انقلاب لانے کے لئے انہیں پیپلزپارٹی کو اس کے سابقہ انقلابی منشور کے مطابق منظم کرنا ہوگا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں قوم کو ایک نئے توانا اور ترقی پسند لیڈر اور پارٹی کی ضرورت درپیش ہوگی۔ کیا بلاول بھٹو اور پیپلزپارٹی اس ضرورت کو پورا کرسکے گی؟ اس کے لئےبلاول بھٹو کو پارٹی کی تنظیمِ نو کے لئے سخت محنت کرنا ہوگی۔
تازہ ترین