• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے بھیجے کی کیمسٹری میں گڑبڑ ہے۔ یہ خبر نہیں بلکہ مصدقہ حقیقت ہے۔ کچھ باتیں کچھ چیزیں مجھے پٹڑی سے اتار دیتی ہیں۔ تب میری کھوپڑی میں شہد کی لاکھوں مکھیاں بھنبھنانے لگتی ہیں۔ ڈستے ڈستے میرے بھیجے کی کیمسٹری کو بائیو کیمسٹری میں بدل دیتی ہیں۔ سر گھٹنوں میں دے کر میں اپنے بال نوچ لیتا ہوں۔ ایسی چیزوں اور باتوں میں جو مجھے چکرا دیتی ہیں، شامل ہے ایک انگریزی کا لفظ جو او (O) سے شروع ہوتا ہے اور اس لفظ کا اطلاق جس چیز پر ہوتا ہے وہ چیز یا بات میرا سر گھما دیتی ہے۔ مثلاً مجھے فلمیں دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ یہ لت مجھے بچپن سے پڑی ہوئی ہے۔ اچھی فلموں کے ساتھ ساتھ میں بری فلمیں بھی دیکھ لیتا ہوں اور بری فلموں کو بڑے دل، گردے سے برداشت کر لیتا ہوں مگر جس فلم میں اداکار اوور ایکٹنگ کرتے ہیں وہ فلم میں برداشت نہیں کر سکتا۔ اپنے بال نوچ لیتا ہوں۔ کبھی کبھی چیخ اٹھتا ہوں۔ بال نوچ نوچ کر میں نے خود کو گنجا کر دیا ہے۔ گنجا ہو جانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ گنجے کے سر میں جوئیں نہیں پڑتیں۔ چیختے چیختے میری آواز پھٹے ہوئے ڈھول جیسی ہو گئی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں میں کھرج میں بول رہا ہوں۔ او (O) سے شروع ہونے والے انگریزی لفظ پر مبنی ایک حرکت میری جان نکال دیتی ہے۔ Over Speeding تیز رفتاری۔ میں بس اور ویگن میں سفر نہیں کرتا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں خود کو پھنے خان سمجھتا ہوں اس لئے بس اور ویگن میں سفر نہیں کرتا۔ ایسی بات نہیں ہے۔ میں کراچی کا پرانا باسی ہوں۔ میری پرورش ٹرام میں سفر کرتے ہوئے ہوئی ہے۔ اسکول جاتے تو ٹرام میں جاتے، اسکول سے واپس آتے تو ٹرام میں سوار ہو کر آتے۔ جہانگیر پارک صدر میں کرکٹ کھیلنے جاتے تو سعید منزل سے ٹرام میں سوار ہو کر جاتے۔ بولٹن مارکیٹ سے سودا سلف لینے جاتے تو ٹرام میں جاتے۔ گاندھی گارڈن جاتے تو مع ابّو امّی کے ٹرام میں سوار ہو کر جاتے۔ گاندھی گارڈن کو اب ہم کہتے ہیں چڑیا گھر، حالانکہ وہاں طرح طرح کے جانور پنجروں میں بند نظر آتے ہیں۔ وہاں اژدھے ہوتے ہیں، سانپ ہوتے ہیں، آبی پرندوں کے علاوہ شکرے بھی دکھائی دیتے ہیں، طوطے بھی ہوتے ہیں جو فال نہیں نکالتے۔ اگر وہاں نہیں ہے تو چڑیا نہیں ہے۔ ٹرام بیچاری معصوم سی ہوتی تھی۔ ریل گاڑی کے ڈبّے کی طرح ہوتی تھی۔ لوہے کی پٹڑی پر چلتی، شور زیادہ کرتی تھی مگر بہت آہستہ چلتی تھی۔
پتھر ہضم، لکڑ ہضم، سیمنٹ ہضم، بجری ہضم، پلاٹ ہضم، عمارات ہضم اور املاک ہضم کرنے والوں میں لوہا ہضم کرنے والے شامل ہو گئے۔ وہ کراچی میں ایک سو سال پرانا ٹرام وے (Tram way) سسٹم ہضم کر گئے اور ڈکار تک نہیں لی۔ ٹرام کے انتقال کے بعد مجھے مجبوراً گردن توڑ، کمر توڑ اور ریڑھ کی ہڈی توڑ تیز رفتار ویگنوں اور بسوں میں سفر کرنا پڑا۔ کئی مرتبہ Over speeding کے باعث بس الٹی، ویگن الٹی اور میں دو چار ہڈیاں تڑوانے کے بعد معجزانہ طور پر بچ گیا۔ معجزات میں میرا یقین پختہ ہو گیا لیکن میں نے بس اور ویگن میں سفر کرنا چھوڑ دیا کیونکہ اپنی باقی کی ہڈیاں تڑوا کر میں انگریزی Suffer کرنا نہیں چاہتا تھا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ مجھے Over speeding سے ڈر لگتا ہے۔ اسی طرح Over eating کی وجہ سے میں کئی مرتبہ مرتے مرتے بچا ہوں۔ آپ نے انگریزی کا او (O) سے شروع ہونے والا ایک لفظ سنا ہو گا اوور رائٹنگ (Over writing) ۔ آپ جو لکھتے ہیں اس میں ترمیم یا تبدیلی کرنے کیلئے آپ اسی تحریر پر لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی تحریر نہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے اور نہ پڑھنے والے کی سمجھ میں آتی ہے۔ آپ اگر بھاری بھرکم ہیں یعنی(اوورویٹ) Over weight ہیں تو بعید نہیں کہ آپ دل کے عارضے میں مبتلا ہو جائیں اور بائی پاس آپریشن کے دوران آپ کے دل میں چھپے ہوئے راز دنیا پر آشکار ہو جائیں۔ آپ جب بھی اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں، اپنی بات کو، اپنے مؤقف کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تب آپ اوور (Over) ہو جاتے ہیں اور کئی بنیادی سوالات کو جنم دیتے ہیں اور چور کی داڑھی میں تنکے والی کہاوت کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
چوہدری اسلم پاکستان کا پہلا اور آخری پولیس افسر نہیں تھا جو دہشت گردوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ حال ہی میں پشاور کے جواں سال ڈی آئی جی کو دہشت گردوں نے قتل کر دیا تھا۔ تب ہم میڈیا والوں نے صف ماتم نہیں بچھائی تھی۔ میر اور انیس کے اشعار دردناک لہجے اور بہتی ہوئی ناک سے پبلک کو نہیں سنائے تھے۔ چھوٹے بڑے حاکموں اور سیاستدانوں نے ہمدردی کے بیانات جاری نہیں کئے تھے۔ اخبارات نے اعلیٰ تعلیم یافتہ، سپیریئر سروسز کے امتحانات میں اعزا زپانے والے جوان سال ڈی آئی جی کو ایک آدھ کالم کی کوریج دی۔ اس سے چند ماہ پہلے نارتھ وزیرستان کے پہاڑی راستے پر دہشت گردوں نے میجر جنرل اور بریگیڈیئر اور کیپٹن کی رینک کے پانچ، چھ افسران کو قتل کر دیا تھا، تب بھی ہم میڈیا والوں نے صف ماتم نہیں بچھائی تھی۔ حاکموں اور سیاستدانوں نے بیانات جاری نہیں کئے تھے۔ دہشت گردوں کے حصار میں گھس کر کارروائی کرنے والوں کو معمولی قتل کی واردات کی طرح کوریج دی گئی تھی۔ چوہدری اسلم کو Over coverage دینے کی بنا پر انٹرنیٹ پر طرح طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مثلاً بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اس قدر کوریج حاصل کرنے والے چوہدری اسلم کے چیدہ چیدہ کارناموں کی فہرست کیوں جاری نہیں کی گئی؟ کیا اسے امریکی سیکریٹ فنڈ سے ڈالر ملتے تھے؟ ساتویں گریڈ میں بھرتی ہونے والا اے ایس آئی جب رینگتے رینگتے 17؍ویں گریڈ تک پہنچا تو اس کے پاس بے تحاشا املاک کہاں سے اور کیسے آ گئی؟ کیا پاکستان کے علاوہ بیرون ملک چوہدری اسلم کی کوٹھیاں اور املاک ہیں؟ اے ایس آئی سے 20-25 برسوں میں ایس پی بننے والے چوہدری اسلم کو بااثر بیوروکریٹ،سیاستدان اور حکمران کیوں ذاتی طور پر جانتے تھے؟ پچھلے سات، آٹھ برسوں میں رحمان ڈکیت اور شہنشاہ جیسے کئی ایسے لوگ مارے گئے جن کے سینے میں سیاستدانوں اور حاکموں کے راز پوشیدہ تھے۔ بااثر سیاستدانوں اور حاکموں کے راز پوشیدہ تھے۔ بااثر سیاستدانوں اور حاکموں سے چوہدری اسلم کے قریبی مراسم کے پیچھے ایک سبب ایسے لوگوں کا صفایا تو نہیں تھا؟ اپنے قریبی رازداروں کا صفایا کرانے والے آخرکار رازداروں کا صفایا کرنے والے کا بھی صفایا کروا دیتے ہیں۔ کسی کو اتنی تشہیر مت دیا کرو بالم کہ وہ بے چارہ آتشی شیشے کے نیچے آ جائے اور اس کا پور پور عیاں ہو جائے۔
تیس، چالیس برس پرانی بات ہے۔ سیاستدانوں اور حاکموں کے منظور نظر ایک اے ایس آئی نے ہاتھ پیر بندھے ہوئے پیر پگارا کے سات حر مریدوں کو سر اور منہ میں اپنے ہاتھ سے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اِن کائونٹر اسپیشلسٹ اے ایس آئی سے ایس پی اور ڈی آئی جی کے عہدے تک جا پہنچا اور سندھ کا آئی جی ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ راز اگل دے کہ کس کے کہنے پر اس نے مصنوعی پولیس مقابلے کا ڈرامہ رچا کر سات حروں کو قتل کیا تھا، بھانپنے والوں نے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کروا دیا۔
تازہ ترین