• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ برس میں نے کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی جن میں دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی دیرپا لیکن غیر یقینی تبدیلی (جو کہ کئی ممکنات پر مبنی چیلنجوں پر مشتمل ہے) کے کئی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ گفت و شنید کے ان فورموں کے موضوعات میں عالمی ایجنڈے کے کئی ترجیحی مسائل شامل تھے، جن میں عالمی مالیاتی استحکام، امریکہ کیلئے ایشیاء کی محوری حیثیت، چین کا معاشی اعتبار سے عالمی غلبہ (اس ملک نے حال ہی میں عالمی تجارت کے میدان میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے) حکمرانی کو درپیش چیلنج، وسائل کی کمی، دہشت گردی کے طرز اور مقام تبدیلی،آبادیاتی دباؤ، بڑے پیمانے پر نوجوانوں کی بیروزگاری، مشرق وسطیٰ میں انقلاب برپا ہونا، سائبر سیکورٹی اور نئی ٹیکنالوجی سے پروان چڑھنے والی کمزوریاں شامل ہیں۔ تقریباً ہر فورم پر اس بابت اتفاق کیا گیا کہ سیاسی و جغرافیائی خطرات کے بڑھنے کی رفتار بین الاقوامی برادری کی ان سے مناسب طریقے سے نبردآزما ہونے کی اہلیت سے زیادہ ہے۔ ریاستوں کے درمیان طاقت کی تقسیم و مغائرت اور مختلف اقسام کی طاقتوں کے معرض وجود میں آنے سے نئی طرز کی بے یقینیوں نے جنم لیا جس سے قومی اور بین الاقوامی خطرات میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر پانچ اقسام کے مسائل عالمی سطح پر ہونے والے غور و فکر پر غلبہ حاصل کرتے نظر آئے۔ 1) ’جی زیرو‘ کی انتظام کاری یعنی ایسے بین الاقوامی سیاسی ماحول کی انتظام کاری جہاں کسی بھی ملک کو واحد عالمی طاقت نہیں گردانا جاسکے یا دیگر ممالک پر مشتمل طاقت کی ایسی تقسیم جہاں ایک سے زائد ممالک اس زمرے میں آ سکتے ہیں،2) مغرب کی جانب سے حد سے زیادہ عسکری مداخلت کے دور کا اختتام،3) عوام کا حکومتوں، بینکوں اور کارپوریشنوں پر سے اٹھتا ہوا اعتماد اور ریاست کا اتھارٹی میں کمزور ہونا، 4) معروضی چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کیلئے عالمی سطح کے اداروں کی نامناسب استعداد شامل ہیں۔
مستقبل قریب میں عالمی طاقت کے توازن اور استحکام کیلئے پہلا جغرافیائی و سیاسی رجحان سب سے زیادہ نتیجہ خیز ہے۔ اگر امریکی مصنف این بریمر کی جانب سے پیش کردہ جی زیرو کی اصطلاح کو تسلیم کرلیا جائے تو زیادہ تر لوگ اس بات پر متفق ہوجائیں گے کہ آج کی دنیا میں بلاشرکت غیرے کوئی حکمرانی نہیں کر رہا اور واضح طور پر ایسا کوئی رہنما نہیں ہے جس کی مرضی عالمی معاشی اور سیاسی افق کے قواعد پر چلتی ہو۔ امریکہ غالب طاقت رہا لیکن اب یہ بھی اپنی مرضی کے نتائج کے حصول میں خود انحصارنہیں رہاہے۔ بین الاقوامی ماحول بڑی حد تک عدم مرکزیت سے ہمکنار ہوچکا ہے، جہاں طاقت ریاستوں میں تو منقسم ہو ہی رہی ہے لیکن اس کا انتقال غیرریاستی عناصر کو بھی ہورہا ہے۔ یہ عدم مرکزیت دنیا کو کافی حد تک استحکام بخش سکتی ہے لیکن فی الحال عالمی سطح پر قواعد کی عدم موجودگی کی صورت میں یہ خطرات میں اضافے کا موجب بن رہی ہے۔
آئندہ سالوں میں عالمی استحکام کا انحصار امریکہ کی جانب سے ایشیاء بحرالکاہل میں دوبارہ توازن سے نبردآزما ہونے کے طریقے پر ہے اور اس بات پر بھی کہ دیگر ممالک کس طرح چین کے غلبے کو دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے خطے میں طاقت کا توازن عالمی توازن میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے جو پیچیدہ سوالات جنم لیتے ہیں ان میں سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ چین جو کہ پہلے ہی داخلی سطح پر بڑھتے ہوئے چیلنجوں میں گھرا ہوا ہے وہ شرح ترقی کی سست روی کی روک تھام کر کے امریکہ سے کس طرح کے تعلقات استوار کرے اور دنیا کے ساتھ خود کو کیسے مربوط بنائے گا۔ ان کانفرنسوں میں یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ مستقبل میں استحکام کا انحصار اس بات پر ہے کہ کس طرح ایک تاریخی تبدیلی کے موقع پر ابھرتی ہوئی طاقتوں کی مزاحمت کرنے یا دبانے کے بجائے ان کے لئے گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔ ایک اور اہم سوال یہ بھی امریکہ اور چین کے مابین ناگزیر معاشی انحصار اور تذویراتی مسابقت کے محرکات کے پیش نظر کس قسم کا توازن وضع ہوگا۔ چین اور امریکہ کے تعلقات کی کروٹ دنیا کے اہم ترین سیاسی و خغرافیائی چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ ایک اور سیاسی و جغرافیائی موضوع جو عالمی سطح پر ہونے والی ان گفت و شنید پر غالب رہا وہ مغربی اقوام کا ان کی حکومتوں کی جانب سے بیرونی ممالک میں عسکری مداخلت اور جنگ سے بیزاری سے متعلق تھا۔ مغربی اقوام عراق، افغانستان، لیبیا میں محدود عسکری مداخلت، مغرب کی وسیع فوجی مداخلت کی رغبت سے تھک چکی ہیں اور صورتحال میں بہتری کی متقاضی ہیں۔
یہ صورت حال ڈرامائی طور پر شام کے معاملے میں آشکار ہوئی جبکہ ایران کے جوہری تنازعے کے حل کیلئے بھی مذاکرات کے سفارتی راستے کی بھی واپسی عمل میں آئی۔ ایران کا معاملہ معاشی مفاہمت کا شاخسانہ ہے جس کے دوررس جغرافیائی و تذویراتی اثرات مرتب ہوں گے لیکن عسکری حل کو مسترد کرنا مغربی اقوام کی عملی مخالفت سے کچھ زیادہ کا متقاضی ہے۔
امریکی قیادت میں مغرب کی جانب سے حد سے زیادہ مداخلت کی دہائی نے معاملے کا وزن ترازو کے دوسرے پلڑے میں ڈال دیا ہے کیونکہ عسکری مداخلت مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کی اہلیت سے عاری ثابت ہوئی ہے۔ مزید براں، جس طرح متعدد کانفرنسوں میں تسلیم کیا گیا ہے کہ کئی مغربی ممالک میں عسکری مداخلت کی مخالفت کا رجحان جاری ہے، جس میں ان پر اپنے ممالک کے اقتصادی مسائل حل کرنے پر زور دیا جارہا ہے، ساتھ ہی یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ پر کئی طاقتور ممالک کی جانب سے دیگر ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنے اور ان کی قومی خودمختاری کا احترام کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ اپنے ملک تک محدود رہنا ایک تبدیلی کا یا دیرپا رجحان ہوگا اس پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ دومتعلقہ موضوع جنہیں زیادہ توجہ نصیب ہوئی وہ ایک ایسے وقت میں حکمرانی کرنا جب ریاست کو طاقتور ہوتے نئے کرداروں سے نبردآزما ہونا اور ایسے حالات کو سنبھالنا ہوتا ہے جن میں 24 گھنٹے خبریں گردش کر رہی ہوں۔ موجودہ حالات میں طاقت میں کمی اور معلوماتی انقلاب نے حکمرانی کے چیلنج کو بہت بڑھا دیا ہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں حکومتیں سست روی سے کارکردگی پیش کرتی نظر آرہی ہیں۔
اس حکایت کی بازگشت کئی فورموں پر سنی گئی کہ عوام، حکمران اور معاشرے کے مختلف اسٹیک ہولڈروں میں اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی 2014ء کی رپورٹ میں بھی اسی موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے اور معاشی پالیسیوں پر عوام کے اعتماد کی تنزلی کو ایک عالمی رجحان کے سروے میں دکھایا گیا ہے کہ حکومتوں اور عوام کی جانب سے بھروسے کئے جانے والے اداروں(جیسے بینک اور عوام جو کہ وہاں رقوم جمع کراتے ہیں) میں اعتماد کا فقدان جنم لے رہا ہے۔ اعتماد کا مسئلہ ایک وسیع تر رجحان کے شاخسانے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس سے متعلقہ مظہر ریاست کی کمزور ہوتی ہوئی عملداری ہے، جس کا دارومدار کئی بنیادی عوامل پر ہے، مربوط دنیا میں تبدیلی برق رفتاری سے ہورہی ہے، جس سے ان لوگوں میں اب تک نہ پوری ہونے والی توقعات جنم لے رہی ہیں جن میں صبر کم ہے۔ فوری معلومات کا غیر معمولی بہاؤ بھی بےچینی اور ناراضی کے ماحول کی حوصلہ افرائی کررہا تھا۔ خاص طور پر جوان طبقے میں یہ حکمرانی کے رویوں کو تبدیل کررہا تھا جس سے روایتی حکمرانوں کو عوامی اعتماد کی پہلے جیسی سطح دستیاب نہیں ہے۔ یہ صورتحال حکومتوں کیلئے کارکردگی پیش کرنے کو مشکل بنارہی ہے۔ سرکاری اشیاء فراہم کرنے کی ریاست کی استعداد بھی تنزلی کا شکار ہے۔ قوانین پر غیرموثر عملدرآمد کے پیش نظر یہ حالات معاشرے میں تفریق بڑھانے کی وجہ اور نتیجہ دونوں ہیں۔
عالمی سطح پر حکومتوں کی کارکردگی سے اس خلا میں اضافہ ہوا ہے۔ دورحاضر کے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کیلئے عالمی اداروں کی بڑھتی ہوئی نامعقولیت کی گونج بھی بڑی حد تک بین الاقوامی مباحثوں میں سنائی دی۔ عالمی حکمرانی کیلئے ایک نئے ڈھانچے کی ضرورت تھی لیکن اس کے بجائے بڑے طاقتور ممالک نے کثیرالقومی طریق کار کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے رضامند ممالک کے اتحاد بنانے کا آغاز کیا یا مخصوص ممالک کے تعاون سے عارضی حل پیش کرنا شروع کردیئے۔کیا یہ قلیل مدتی اقدامات ہمارے دور کے کڑے مسائل کا حل پیش کرسکیں گے، جس کیلئے عالمی حل کی ضرورت ہے؟ سب ہی متفق ہیں کہ عارضی اقدامات اس کا حل نہیں۔
اس کے بجائے کثیرالقومی اداروں کو مستحکم کرنے اور ان میں اصلاحات کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ غیر مستحکم حالات کے اس موڑ پر بے قطبی دنیا میں یہ سب ضروری ہے کیونکہ عالمی سطح پر مسائل کے حل کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہےدنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جو تن تنہا مطلوبہ انہیں پورا کرسکے ۔ یہ بات کئی فورموں پر بڑی حد تک تسلیم کی جاچکی ہے کہ عالمی اداروں کو مستحکم کرنے کی خواہش بڑے طاقتور ممالک میں سب سے کم ہے یا ان ممالک میں جو کسی وقت میں بڑی طاقت ہونے کا دعویٰ کیا کرتے تھے حالانکہ ان بڑے طاقتور ممالک کے اثرورسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن یہ ان اداروں کو اپنی طاقت سے سرفراز کرنے کیلئے رضامند نہیں ہیں، یہی محرک ان اداروں کے استحکام حاصل کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ عالمی اداروں میں اپنے غلبے کو برقرار رکھنے کیلئے ان ممالک نے نہ صرف ان اداروں کو نمائندگی سے عاری رکھا بلکہ انہیں غیر موثر بھی بنادیا۔ دنیا ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے لیکن اس کا طریق انتظام کاری نہیں۔ شاید یہ ان کانفرنسوں کا سب سے قابل اخذ نتیجہ تھا لیکن اس بابت کم ہی اتفاق ہو سکا کہ اس پہلی کو سلجھانے کیلئے عملی اقدامات کیا ہونے چاہئیں۔
تازہ ترین