• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاجدارِ حرم ہو نگاہِ کرم
ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے
اپنے داتا سے نذرِ کرم کی بھیک مانگنے والے درویش گائیک کا انجام یہ ہونا تھا جو کراچی میں ہوا، تو پھر سب کچھ متوقع ہے کہ جس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ تاجدارِ حرم کی نگاہِ کرم کا طلبگار اور ہم غریبوں کے دن بھی سنور جانے کی تسلی دینے والے مغنی امجد صابری کا بہیمانہ قتل دراصل برصغیر میں امیر خسرو اور حضرت غریب نواز نظام الدین اولیا کی درویشانہ صوفی روایت کا قتل ہے۔ دین حق کی انسانی صدا اور عشق و محبت کی وارفتگی مذہبی دہشت گردوں کو کیوں بھائے گی۔ رحمت للعالمینؐ کے پیغامِ امن کو خوں میں نہلانے والوں اور فساد فی الارض کو پروان چڑھانے والوں کی رسی اور کتنی دراز ہوگی۔ جب ملک کے طول و عرض میں خانقاہوں کو بموں سے اُڑایا جا رہا تھا تو ہمارے دیگر مکاتب فکر کے دوستوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہاں تک کہ عید میلاد النبی بھی خون خواری کی نذر ہونے لگی اور مسجدوں، امام بارگاہوں اور خانقاہوں کو ہمارے اپنے مسلمانوں سے بچانے کے لئے پہرے دار بٹھانے پڑے۔ جب خدا کا گھر ہی محفوظ نہ رہے تو اللہ کی بندگی کا واسطہ کسے دیا جائے۔ یہ کافر، وہ کافر کرتے کرتے سب کافر قرار دے دیئے گئے اور غریب مسلمان کہیں دب کے رہ گیا، بول سکتا ہے نہ روک سکتا ہے۔
یہ خونیں کھیل گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی سے جاری ہے، جس میں کرائے کے قاتلوں کے خونیں پیشے کو جہاد کا مقدس نام دے دیا گیا۔ تب سے یہ قتالِ عام جاری ہے اور اہلِ منبر یا تو کہیں دبکے بیٹھے ہیں یا پھر مالِ غنیمہ سے فیض یاب ہوئے جاتے ہیں۔ ہر فتنے سے، پہلے سے بڑا فتنہ برآمد ہو رہا ہے اور مسلم دُنیا اپنے ہی خوں میں نہلائی جا رہی ہے۔ جب اپنے ہی اپنے قاتل ٹھہرے تو اغیار سے گلہ کیسا؟ پاکستان کی آمرانہ انتظامیہ نے اِسی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور اسے باقاعدہ ریاستی کاروبار اور تزویراتی حکمتِ عملیوں کا معجزاتی ہتھیار بنا لیا۔ جب 9/11 کی دہشت گردی سے دُنیا بدلی تو چارہ نہ رہا اور ڈائن اپنے ہی بچے کھانے پہ مجبور ہوئی۔ لیکن کچھ بچے زیادہ ہی پیارے تھے، انھیں اگلے وقتوں کے لئے سنبھال رکھا گیا۔ مولانا رومی سے کہاوت ہے کہ وہ سفر میں تھے تو اُن کے ہمسفر کو خوف نے آن گھیرا تو مولانا نے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے جو تمھیں خوف گھیرے ہے۔ وہ بولا اشرفیاں ہیں۔ آپ نے کہا وہ پھینک دو تو خوف بھی جاتا رہے گا۔ اُس نے کچھ اشرفیاں پھینک دیں۔ لیکن خوف نے اُسے پھر آن گھیرا۔ تو مولانا نے پھر پوچھا اب خوف کاہے کا ہے تو وہ بولا ابھی بھی چند اشرفیاں اگلے وقتوں کے لئے بچا رکھی ہیں، تو مولانا نے کہا کہ جب تم ہی نہ رہے تو اشرفیاں کس کام کی۔ اور جب ہمسفر نے بچی کھچی اشرفیاں بھی پھینک دیں تو اُسے خوف رہا نہ رہزن کا ڈر۔ ہماری انتظامیہ کی حالت بھی آج کل کچھ ایسی ہی ہے۔ ابھی بھی جہاد کے زمانے کی اشرفیاں ہماری بکل میں ہیں اور ہم سے اُنھیں پھینکنے کا تقاضا (Do More) کیا جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ احسان فراموش اور خود غرض مغرب اور امریکہ کو اپنی قربانیوں کی داستان سناتے سناتے دلی طور پر اتنے پسیجے جا رہے ہیں کہ بھول رہے ہیں کہ ابھی بھی اشرفیاں ہماری جیبوں سے اُچھل اُچھل کر خوفناک کھنکھار پیدا کر رہی ہیں۔ ایسے میں آج کے بڑے رہزن نے ڈرونز تو چلانے ہی ہیں جب تک کہ یہ ختم نہیں ہو جاتے۔ عالمی تنہائی کا واویلا مچانے کی بجائے مرزا غالب کے ساتھ شاملِ دُعا ہونے میں ہی عافیت ہے:
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو
ہمارے بزرگ مشیرِ خارجہ اس زعم میں ہیں کہ پاکستان قطعی طور پر کسی علاقائی اور عالمی تنہائی کا شکار نہیں اور نہ ہی اُنھیں ہمسایوں سے نامہ و پیام کی کوئی جلدی ہے۔ پیشے سے وہ اوّل درجے کے زرعی معیشت دان ہیں۔ چونکہ اب یہ محکمہ وفاق کے پاس نہ رہا اور اُن کی صدارتی محل میں براجمان ہونے کی خواہش پوری نہ ہو سکی تو اُن کی دلجوئی کے لئے اُنھیں بیک وقت دو قلمدان سونپ دیئے گئے۔ سلامتی کے حوالے سے اُن کا ورکنگ پیپر کہیں دھول چاٹ رہا ہے اور وزارتِ خارجہ کا قلم ہنوز وزیراعظم ہی کے پاس اور اُن کے پاس صرف دان ہے۔ جب طور خم پہ محمود،غوری اور احمد شاہ ابدالی کے افغانستان نے آنکھیں دکھائیں تو وہ آدھی کابینہ لے کرجی ایچ کیو جا پہنچے کہ سلامتی کی ہدایت وہیں سے ملتی ہے۔ سارے ہمسایوں سے بگاڑ کے اور امریکہ کی چاکری کے باوجود 100 پیاز اور 100 جوتے کھانے کے بعد بھی سرکار مصر ہے کہ ہم تنہا نہیں ہوئے اور خارجہ پالیسی ہے کہ چوکڑیاں بھرتے آگے جارہی ہے۔ لیکن ہماری فوج کے صاف گو ڈائریکٹر جنرل جناب جنرل باجوہ صاحب نے حکومت کے ساتھ ایک ہی صفحہ پر ہونے کے باوجود ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کی قلعی کھول دی ہے۔ اُنھوں نے جرمنی میں ایک انٹرویو میں تمام دُنیا کو کہہ دیا ہے کہ ظالمو! تم نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے اور ہم تنِ تنہا دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اُن کا فرمانا بجا، آج ہمارا پُرسانِ  حال کوئی نہیں کہ ہم ملا منصور کی صفِ ماتم بچھائے بیٹھے ہیں۔ یہی وہ اشرفیاں ہیں جو ہمارے ہاں سے برآمد ہوتی رہتی ہیں، جبکہ دعویٰ ہمارا یہ ہے کہ ہم نے کبھی کی اُٹھا پھینکی ہیں۔ اب ہم مولانا روم کو کہاں سے لائیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ جو اشرفیاں باقی ہیں، اُن سے خلاصی میں ہی ہماری مُکتی ہے۔
تنہائی کا رونا رونے کی بجائے، ضروری ہے کہ ہم ایسی خارجہ و سلامتی کی پالیسیوں سے جان چھڑائیں جو ہمارے تمام کئے دھرے اور بے شمار قربانیوں کو خاک میں ملانے کا باعث ہیں۔ جنرل کیانی نے ٹھیک کہا تھا کہ اصل خطرہ اندرونی اور دہشت گردوں سے ہے۔ جبکہ جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان و دیگر سرحدی علاقوں میں بھرپور کارروائیاں کر کے دہشت گردوں کے بڑے مراکز تباہ کر دیئے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اور پوری قوم نیشنل ایکشن پلان پر متحد ہو کر کھڑی ہوگئی۔ قوم کی متفقہ رائے تھی کہ ہر طرح کی دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا جائے اور وطنِ عزیز کے کسی علاقے کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہم کافی حد تک اس میں آگے بڑھے بھی، لیکن ہمارے نظری و تزویراتی نقطہ نظر میں کوئی صفتی تبدیلی واقع نہ ہوئی جسے کامیاب ضربِ عضب کا منطقی نتیجہ ہونا چاہئے تھا۔ پچھلے دنوں امجد صابری کی شہادت سے پہلے پنجاب کے صوبائی انٹیلی جنس سینٹر کی جانب سے ایک یاددہانی (Alert) نمبر 249جاری کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور تحریکِ طالبان افغانستان کے درمیان کچھ معاملات طے ہوئے ہیں۔
تحریکِ طالبان افغانستان کا خیال ہے کہ ملا منصور کے قتل میں پاکستان بھی شامل ہے، لہٰذا اُس نے پاکستانی اور امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان نے اپنے افغانی طالبان رفقا کو تعاون کا یقین دلاتے ہوئے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں  کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خفیہ یاددہانی میں تمام اداروں کو چوکنا کیا گیا تھاکہ وہ 17۔ رمضان کو دہشت گردی کر کے یومِ بدر منائیں گے۔ جنگِ بدر تو کفار سے لڑی گئی تھی اور تاجدارِ مدینہ سے نذرِ کرم کی بھیک مانگنے والے کو شہید کر کے جانے کس کی رضا حاصل کی گئی ہے۔ اگر ہم اپنے ہی قومی ایکشن پلان کی روح اور الفاظ پر عمل کریں تو ہم دُنیا میں تنہا ہوں گے نہ رسوا۔ اور نہ اسلام کا پیغامِ محبت اور امن و ایثار دینے والے ان کی گولیوں کا شکار ہوں گے جن کی تاک میں تمام دُنیا بیٹھی ہے۔ بہتر ہے کہ ہم دُنیا کو ساتھ لے کر چلیں اور دُنیا ہمارے ساتھ چلے گی کہ وہ بھی ان قاتلوں سے ہماری اور دُنیا کی جان خلاصی چاہتی ہے۔ اس نیک کام میں کون ہے جو ہم سے آگے ہو، پھر دیکھئے کہ تنہائی کیسے ختم ہوتی ہے کی بھیک ملے، داتا بھیک ملے۔
تازہ ترین