• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاید ہی دنیا میں کو ئی ایسا ملک ہو جس کی آدھی زندگی جمہوریت کے نام پر آمریت میں گذری اور باقی ماندہ جمہوری بادشاہت کے سائے میں بسرہوئی ہو۔ میں جب پیدا ہوا توملک اُس وقت صرف دو سال کا تھا اور اِس وقت میں 65سال کا ہو چکا ہوں مگر میرا ملک ابھی تک ’’پنگھوڑے‘‘ میں ہی جُھول رہا ہے۔ انسان کی عمر تو یقینا اللہ کی مرضی سے کیلنڈر کے ساتھ ہی چلتی ہے مگر ملک کی عمر ، ترقی و خوشحالی سے ہی جانچی جاتی ہے۔ الحمدُاللہ ہم اپنی67 سالہ تاریخ میں امریکہ کے علاوہ مفاد پرستی ، ذاتی حرص،نفرتوں اور ضرورتوں کی گود میں کھیلتے رہے نتیجتاًماں کی گود سے محروم رہے۔دس سالہ ایوبی دور آیا ، ترقی تو ضرور لایا مگر مادرِ ملت کو ہرا کر چلا گیا۔یحییٰ خان انتخابی اصلاحات لائے مگر ملک کو دولخت کر کے چلے گئے۔ ذولفقار علی بھٹو آئے ملک میں سیاسی سونامی لائے جس کے نتیجے میں خود تختہ دار پر جا لٹکے۔ پھر ضیاء الحق نے مملکت خدا داد پاکستان کو نو مسلم کیا اور خود فضا میں شہادت پائی۔ (شہید سہروردی کو اگر شامل کر یں تو یہ موصوف ہمارے حکمرانوں میں چو تھے شہید ہیں)بدقسمتی سے ہمارے ہاں اتنی جنگی اور سیاسی شہادتیں ہوئی ہیں کہ اب شہادت کی تعریف پر بھی یہ قوم ایک دوسرے کو شہید کرنے کے درپے ہے۔ضیا ء الحق دور کے بعد بینظیر اور نواز شریف کا آنا جانا لگا رہا تا وقتیکہ جناب مشرف نے فٗضا سے زمین پر اترنے کے بعد نوازشریف کو حج اور عمرے کی سعادت کے لیئے زمین سے ہوا میں جدہ روانہ کیا اور خود سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ اس ملکیت کے آخری ایام میں NRO کے معاہدے کو بروکار لا کر جناب آصف علی کو عہدہ صدارت کا موقع دیا اور خود ہوا ہوئے۔ اس طرح زرداری نواز باری کی ابتداء ہوئی۔ زرداری گئے اور نواز شریف تخت پر براجمان ہوئے۔ دریںاثناء جناب مشرف کو یہ گمان ہوا کہ وہ تو ایک عوامی قائد ہیں اور اس وہم کی بنا پر دوستوں اور خیر خواہوں کے منع کرنے کے باوجود واپس تشریف لائے اور عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے آجکل AFIC میں صاحب فراش ہیں۔ ان کا طبی ضمیمہ پڑھ کر البتہ اپنی صحت مندی پر خاصا رشک ہوا۔ آیندہ کے حالات و واقعات کے بارے میں ابھی حتمی طور پر تو کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر توقع ہے کہ وہ بھی ہوائی سفر ہی اختیار کریں گے کیونکہ یہ رسم دنیا نہ سہی، رسم پاکستان ضرور ہے۔ میرا ملک مجھے اپنی جان سے بھی پیارا ہے جس کی تضحیک قطعاً مقصود نہیں مگر یہ پوچھنے پر مجبور ہوں کہ مجھے کوئی کاش یہ بتائے کہ دنیا میں ہمارے علاوہ کونسا ایسا ملک ہے جہاں جلسے جلوسوں کے علاوہ کچھ اور نہ ہوتا ہو۔ جہاںویڈیو کانفرنس کے ذریعے روز مرہ کے کاروبار کی بجائے فقط خطاب سُنے جائیں ،جہاں سیاسی قائدین کے مزار اور مقبرے تعمیر کیے جائیں ، جہاں ہر سال جوش و خروش سے برسیاں منائی جائیں اور ان برسیوں کی تقریبات میں ایک دوسرے پربرچھیاں بر سائی جائیں۔قارئین کرام! دیکھنا یہ ہے کہ ہم اِس نہج پر پہنچے کیسے؟ اہلِ دانش بہت سے محرکات گنوائیں گے مگر میرے نزدیک سب سے بڑی وجہ ہمارے حکمرانوںکی سیاسی ناپختگی اور ذاتی مفاد پرستی ہے۔ عمل کے علاوہ ان کے بیانات ایسے بچگانہ اور مضحکہ خیز ہوتے ہیں کہ مہذب معاشرے میں بسنے والے کو رونا آ ئے لیکن ہم اِن کے بیانات پر پرُجوش تالیاں بجاتے نہیں تھکتے۔ شیر اور چوہے جیسے القاب کے بعد اِس مرتبہ ہمارے سابقہ صدرمحترم نے بِلّے کے دودھ پی جانے کا تذکرہ کیا اور خاصی داد وصول کی۔ اِس موضوع پر لکھنے کو جی چاہا کیونکہ جسِ بلّے کا وہ ذکر کر رہے تھے اُس بِلّے کے ساتھ مجھے بھی کچھ سال گزارنے کا اِتفاق ہوا۔ ذاتی مشاہدے کے مطابق میں نے بہت سے سیاستدانوں کو اِس ’’گھمنڈی ‘‘بِلّے کے آگے بھیگی بِلّی بنے دیکھا، کچھ نے بِلّے کے ساتھ مِل کر دودھ جلیبی بھی کھائی اور کئی نامی گرامی قائدین نے اِسے سو سال وردی میں دیکھنے کی تمنا کی۔ ہماری مُلکی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے معزز سیاستدانوںکے ساتھ ساتھ عوام کی خاصی تعداد ایسے بِلّوں کی منت سماجت کر کے اُنھیں دودھ پینے کی دعوت دیتی ہے اور حاجت پوری ہونے پر بِلّے کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جاتی ہے۔ میرے خیال میں بِّلا اُسی دودھ کو منہ مار کر جُھوٹھا کرتا ہے جسے مظبوطی سے ڈھکا نہ گیا ہو۔ اگر ہماری قومی سیاست دودھ کی مانند مقدس، صاف اور قومی صحت کی ضامن ہوتی تو ہمارے محترم سیاستدان دودھ کے کاروبار کو کوئلے کے کاروبار سے تشبیہ نہ دیتے ۔میں اِس بات پر قائم ہوں کہ ہمیں بِلّوں کا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے مگر خدا را سیاست کو صاف و شفاف رکھیے اور ذاتی مفاد پرستی سے بالا تر ہو کر مُلک سے مخلص رہیے۔اللہ آپکا حامی و ناصر ہو۔قارئین کرام! میں نے 9 جنوری کی رات آدھا کالم مکمل کیا اور اِس کا اِختتام اگلے روز پر چھوڑ دیا۔ اگلے دن علی الصبح مجھے اِطلاع ملی کہ میرا 32 سالہ پیارا بیٹا سید علی احتشام اللہ کو پیارا ہو گیا ہے۔اِنِّا لِلہِ وَ انّا َاِ لَیہِ رَاجِعونَ ۔زندگی میں مجھے اُس پر ہمیشہ فخر رہا اور الحمدللہ اُسے ربیع الاول کے مہینے میں جمعہ کے روز وفات اور 12 ربیع الاول کو تدفین نصیب ہوئی جس سے مجھے روحانی سکون حاصل ہوا ۔ ربّ العزت کی بار گاہ سے قوی اُمیدہے کہ وہ اِسکے ساتھ رحم کا معاملہ فرمائے گا۔ اب سوچا زندگی کا خلا تو نہ جانے کب بھرے مگر کالم کو کسی نہ کسی طرح مکمل کر لوں۔ اگر آپ کو اِس کالم میں گستاخی یا کوئی جھول محسوس ہو تو اِسے میرے سانحے کی نذر کر دیں۔ میں اِس تحریر کے ذریعے اپنے لا تعداد احباب کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہوں گا جن کی ڈھارس نے زندہ رہنے کا حوصلہ دیا۔حسبِ معمول سید ضمیر جعفری کا شعر پیش خدمت ہے۔
؎جانے کیا پیڑ پر گزرتی ہے
جب پرندہ کوئی جدا ہو جائے
تازہ ترین