• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روبرو سجن دے ہو کے کر لیے دو باتاں
میرا دوست مصدق سانول مرگیا۔ میں بلہے شاہ کو سمجھ گیا’’بلہیا اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور‘‘۔ مصدق کبھی گور نہیں پڑسکتا لیکن جدائی مقدر ہے۔ صوفی اسے پیالہ کرجانا کہتے ہیں۔ اس گردش رنگ چمن سے پنچھی اڑ جاتا ہے، مصدق بھی اڑ گیا۔ مجھے یقین ہے سانول کو ایک دن مہاریں موڑ کر لوٹ آنا ہے۔ وہ آئے گا بقول حبیب جالب ایک عہد حسیں کی صورت۔ یہ اور بات ہے کہ بقول فیض:
بلا سے ہم نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن صورت ہزار کا موسم
مصدق سانول بھی اس قنوطیت کے زمانے میں ایسے امید پرستوں جیسا تھا بلکہ وہ نفرتوں کے سرطان میں گھرے ملک میں ایک انتہائی صحت مند ذہن تھا جس کا دل عشق موج دریا تھا، خود وہ سراپا مستی تھا۔ ہر حال میں مست و قانع ہرفن مولا مصدق۔ شاعر، موسیقار مصور۔ کن فیکون لفظ کے ساتھ پیدا ہوئے تھے۔ روزی روٹی کیلئے اس نے ادارت اور صحافت بھی اختیار کی تھی۔ یہاں بھی وہ شاعر موسیقار مصور اور انسان زیادہ تھا۔ میں سوچتا ہوں وہ اس شہر سے آیا تھا جو اپنی گرد اور لاکھوں اولیائے کرام کی وجہ سے مشہور ہے۔ ملتان جہاں قحط الرجال کے زمانوں میں تو صرف سجادہ نشین سیاستدان اور پیسہ پرست پیر پیدا ہوتے ہیں۔ وہاں مصدق سانول پیدا ہوا تھا۔ کارٹونسٹ فیکا۔مظہرعارف،کرامت علی، صداقت علی، حسن گردیزی، سید قصور گردیزی، میرے دوست چوہدری نذیر،جیسے بھلے لوگ بھی تو ملتان کی مٹی کی پیداوار ہیں۔
پاکستان میں اپنی نسل کی طرح مصدق نے بھی جو بات ہوش سنبھالتے ہی دیکھی اور سنی تھی وہ ذوالفقارعلی بھٹو اور پھر اس کا پھانسی پر چڑھایا جانا تھا۔ انیس سو ستّر کے دنوں میں اسکول اور گھر آتے جاتے اس نے ذوالفقار علی بھٹو زندہ باد اور جئے بھٹو کے نعرے سنے تھے۔ پھر ایک دن گرمی، گرد سے اٹے ملتان کی گلیاں سونی ہو گئيں اور جب اس نے اپنے چاچے سے گھر پر سنا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ صحافی کالونی ملتان۔’’میں گھر کے باہر اس حبس والی بہار کی رات تھڑے پر بیٹھے لوگوں کو سرگوشیوں میں باتیں کرتا سنتا رہا۔ میں نے ایسا محسوس کیا جیسے سب لوگوں کی زبانیں کاٹ دی گئی ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی سب سے پہلے اس صبح یہ خبر مارک ٹیلی نے بی بی سی پر بتائی تھی‘‘۔ مصدق سانول مجھے بتایا کرتا تھا۔ مصدق نے وہ دن دل پر لے لیا تھا۔ میں نے جب مصدق کے جانے کی خبر سنی تو ایسا لگا جیسے کسی نے آنسوگیس کا گولہ فائر کر دیا ہو۔ جو میری آنکھوں اور ناک کے درمیآن پھٹا ہو۔
مصدق اپنی طبعیت اور فقیری کے حساب سے لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس چلا آیا۔ وہ ملتان کی انجمن قاتلان شب سے اٹھ کر تو آگيا لیکن اپنی ذات میں انجمن قاتلان شب اپنے ساتھ لے آیا۔ جو ہم چھوٹے شہروں والے لوگوں کے حساب سے ایلیٹ کے بچوں بچيوں اور ٹیگور کی شانتی نکیتن کے بیچ والی جگہ تھی۔ یہ وہ دن تھے جب پنجاب یونیورسٹی اور دیگر اداروں پر ایک اسلامی طلبہ تنظیم کی فسطائیت پستولوں اور ہاکیوں کی زبان بولتی تھی۔ لڑکے اور لڑکیوں کا ایک جگہ بیٹھنا تو کجا ان کا بمشکل آپس میں بات کرنا بھی پٹائی اور تشدد کو دعوت دینا تھا۔ ان دنوں مرد مومن لاہور کے ایک قدیمی کالج کا دورہ کرنے آئے تھے تو اس کی لائـبریری میں کوئی دو ہزار کتابیں اور کتابی نسخے ہندی اور گورمکھی میں دیکھ کر ان کتابوں کو تلف کرنے کا حکم دیا تھا جس پر وہ کتابیں کالج کے قریبی گندے نالے میں پھینک دی گئیں۔ ان کتابوں میں گورمکھی میں پنجابی زبان کی نادر کتابیں شامل تھیں۔
تو ایسے میں مصدق جیسے جگر لوگوں کا مسکن اور آخری پناہ گاہ نیشنل کالج آف آرٹس ہی بچتا تھا۔ جہاں ابھی گھٹا ٹوپ بے انت راتوں کے سائے پہنچا ہی چاہتے تھے لیکن پہنچے نہیں تھے۔ یہاں کی جگر پارٹی میں تقی نایاب جیسے بھی بے جگرے لوگ رہے تھے۔ ایک پراسرار و درویش انقلابی کردار جو آج تک گمشدہ ہے۔ تقی علی نایاب جن کو اسٹڈی سرکلز سے لیکر قریبی موچی کے کھوکھے پر اس سے مجالس کرتے دیکھا جاتا پھر ایک دن تقی علی نایاب غائب ہو گیا اور شاید آج تک غائب ہے۔ کسی نے کہا اسے کالج کی معروف لیکن طاقتور میڈم سے عشق میں ناکامی ہو گئی تو کسی نے کہا تقی علی نایاب بلوچستان یا بلوچوں کے ساتھ افغانستان لڑنے چلا گیا، جتنے منہ اتنی باتیں۔
لیکن نیشنل کالج آف آرٹس سمیت لاہور پاکستان میں فوجی آمر اور اس کی آمریت کے خلاف اگلا مورچہ رہا۔ لاہور کے شاہی قلعے کے جو عقوبت خانے جن خواتین اور مردوں سے آباد رہے ان میں بھی ایک بڑی اکثریت لاہوریوں کی تھی۔ پھانسیاں پانے والےاور کوڑے کھانے والے بھی کئی لاہوری تھے۔ یہاں ویمن ایکشن فورم کی خواتین بھی سرگرم تھیں۔ یہاں اجوکا اور پنجاب لوک رہس بھی تھا اور لخت پاشی کا تھیٹر بھی تھا ۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بھی یہیں سے بنا تھا لیکن پاکستان کے لوگوں پر نہ صرف اطلاعاتی سینسر شپ تھی بالکل بائیولوجیکل سنسرشپ بنتی تھی۔ ضیاءآمریت نے نفسیاتی جنگ کے ذریعے پیغام یہ بھیجا کہ پنجاب کا مطلب مارشل لا ہے جس کو تمام پنجابیوں کی حمایت حاصل ہے۔ ضیاء شاید آرائيوں کی بھی حمایت حاصل نہیں کرسکا تھا۔ ضیاءالحق کا پھیلایا ایساسینسری جھوٹ تب جھوٹ ثابت ہوا جب جلاوطنی سے واپسی پر لاکھوں لوگوں نے بےنظیر بھٹو کا لاہور میں ہی استقبال کیا۔
لاہور صرف اچھرہ نہیں تھا۔ ضیاء الحق پر جو کارٹون اور باقی آرٹ این سی اے کے جگر لوگوں نے تخلیق کیا وہ آمروں کی سات پشتیں یاد رکھیں گی۔
ہتھکڑی اوہتھکڑی کڑی کب تک گھسیٹی جائے گی اس بے حیا کی کھوپڑی، جھوٹے خدا کی کھوپڑی۔ میرے دوست جاوید جیدی کی اس زمانے کے لاہور میں لکھی اور گائی جانے والی نظم تھی۔ ان دنوں میں لخت پاشی کا تھیٹرگروپ بھی آمریت اور اس کے حبس کے خلاف کئی طریقوں سے ڈرامے اور گیت تخلیق کر رہا تھا۔ مصدق نے برش اور قلم کے ساتھ طبلے اور ہارمونیم کے ذریعے انقلاب لانے کی ٹھانی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پنجاب سے دوسروں صوبوں کو اسمگلنگ ہونے والی بھنگ کا نام ہی مارشل لا بھنگ رکھا گیا تھا لیکن یہاں ظفریاب جیسی عظیم باغی روحیں بھی تھیں جو ہر رات خواب میں آمر اور اس کے دور کا خاتمہ خواب میں دیکھتے اور صبح اٹھ کر دھاڑیں مار کر روتے جب دیکھتے ابھی آمر اور اس کی آمریت حیات ہیں۔ یہ وہ دن تھے جب آج کی طرح کل کے عظیم انقلابیوں نے بقول ظفریاب این جی اوز کے بڑے بڑے کوٹھے نہیں پائے تھے۔
رنگ مچ گئے ساڈے مچ گئے بھئی رنگ مچ گئے یا پھر ’’ساڈے ویہڑے فوجان لتھیاں‘‘ جیسے جدید انقلابی شاعری گانے کے ساتھ ساتھ مصدق نے کلاسیکی اور پنجابی صوفی شاعری بھی ایک نئے اور کلاسیکی انداز سے گانا شروع کی تھی۔این سی اے میں فوجی آمر کے آنے کی این سی اے کے جگروں نے سخت مزاحمت کی تھی۔مصدق پر ایک تنظیم کے لوگوں نے ایک حملے میں تشدد کر کے اس کی ایک آنکھ کی نظرضائع کردی تھی۔ کیا اس کالج کا نام مصدق سانول کالج آف آرٹس نہیں رکھا جاتا۔ شاید اس ملک میں کوئی اصلی جمہوری حکومت ایسا آکر کرے لیکن جو بھگت سنگھ کے نام پر ایک سڑک منسوب نہیں کرسکتی وہ این سی کو مصدق سانول کیسے کر سکتی ہے۔
مصدق سانول وہ نیل کنٹھ تھا جو سارا زہر پی کر اپنے گلے میں ہزاروں گیت لے کر کراچی آ گیا جہاں اس نے ایک جریدہ جوائن کرلیا جہاں اس کی ملاقات ہمارے دوست محمد حنیف کے ساتھ ہوئی۔ وہ دن اور آج کا دن ۔مجھے لگتا ہے ابھی ابھی سامنے ہارمونیم کے آگے مصدق بیٹھاہے اور ہم سب یعنی محمد حنیف، نمرہ بچا، شہلا نقوی، نعمان نقوی ،نوفل نقوی ،اسد علی،ارم کھانڈوالا، مظہر زیدی، فرجاد نبی، مینو گوڑ، حسن زیدی، طلعت اسلم، خالد احمد، اویس توحید، جاوید سومرو، نفیسہ شاہ، نازش بروہی، مولا یعنی علی زیدی، محسن چوہدری، حسن درس، مسرور سومرو، رضوان علی ،مینا نقوی، انورمولانا، احتشام شانی، انور مولانی راشد فاروقی، ارشد، وجیہہ وارثی، خرم عباس، ظفر راجپوت، قادر گنڈاپور، جاوید قاضی (جس نے مجھے آج سے کوئی بیس برس قبل مصدق سے ملوایا تھا)، شرجیل بلوچ اور غلام مصطفی اور نیوز لائن کی تمام ٹیم کے سامنے اک ہوک بھری آوز سے مصدق گا رہا ہے۔
جے میں طالب نوشہ پیر دا
مری کٹے یا دستگیر
نی میں جدوں دی گھوڑی پھڑ لئی
میرا کنبیا نلہیں دا سریر
میرے ہتھ کمان ہنیر دی
وچ نال سنہری تیر
جنہوں پڑھ بسم اللہ ماردا
دے کر ٹوٹے کردیا چير
میرے دل وچ اڈیک تروکڑدی
نی میں ویکھاں تیرے ویر
مینوں تانگھاں تیرے دم دیاں
بس یہ ٹوٹوں کا بادشاہ ہم سب کو ٹوٹے کر گیا۔مصدق نے کراچی میں اردو تھیٹر اور صحافت کی تاریخ بدل دی۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ڈان، بانگ تھیٹر اور پائلر۔ بقول میرے دوست رزاق سربازی کے اس بڑے انسان نے صحافی ہوکر بھی اپنے اندر کے فرد کو جانے نہ دیا۔ کراچی نے مصدق کو بڑے زخم بھی لگائے تو ان پر مرہم بھی۔ یہاں اس کو شہلا نقوی جیسی شریک حیات ملی تو دارا اور صورت جیسے خوبصوت بچے بھی (بیٹا اور بیٹی)۔ یہ بادہ نوش ولی ملتان کی مٹی کو واپس چلا گیا،یار زندہ صحبت باقی مصدق!
زندگی موت کے گرداب میں پر جوش رہے (مصدق سانول)
تازہ ترین