• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان کی بنیادی ضروریات میں پانچ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں۔ روٹی کپڑا مکان، صحت اور تعلیم لیکن اولین تین چیزوں کو ترجیح حاصل ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے پہلے انتخابی معرکے میں اسی نعرے کی بنیاد پر الیکشن لڑا اور بڑے بڑے بتوں کو گراکر کامیابی حاصل کی اور اسی نعرے کو حرز جان بنائے رکھا۔ میں اس وقت ’’مکان‘‘ ہی پر اظہار خیال کر رہا ہوں۔ چند سال پہلے گورنمنٹ کے سالانہ اکنامک سروے کے مطابق ملک میں 60 لاکھ رہائشی یونٹوں کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ ملک کی عام آبادی میں اضافہ اور شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی صورت جو کم و بیش دیہی آبادی کے مساوی ہو گئی ہے اور نئے نئے گھرانوں کی تعداد میں اضافہ (کہ ہر شادی شدہ نیا جوڑا الگ رہائش اختیار کرنا چاہتا ہے) ملک میں رہائشی یونٹوں کی طلب بڑھ گئی۔ملک میں تعمیراتی شعبہ بڑا فعال ہے،گو وہ جائز ٹیکسوں سے گریز کرتا ہے مگر 3.5 فی صد سالانہownership dwelling grouth فراہم کر رہا ہے۔ 1998ء کی مردم شماری میں ملک ایک کروڑ 92لاکھ رہائشی یونٹس تھے ان میں ایک کروڑ 60لاکھ ذاتی 16 لاکھ کرائے والے اور ساڑھے 19لاکھ بلا کرائے کے یونٹس تھے۔ شہروں میں 60 لاکھ میں سے 41ہزار سے زائد اور 13لاکھ سے زائد کرائے کے اور 5لاکھ بلا کرائے یونٹس تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تناسب اب بھی قائم ہو۔ رئیل اسٹیٹ کی جانب سے ہر ہفتے ایک انگریزی اخبار کے ساتھ ضمیمہ شائع ہوتا ہے جس میں بڑے شہروں کے مختلف علاقوں میں جائیداد کی قیمت اور ماہانہ کرائے بھی شائع ہوتے ہیں اس میں چھوٹے سے چھوٹے رہائشی یونٹ کی قیمت 25/20 لاکھ اور کرایہ 12 سے 15 ہزار سے کم نہیں ہوتا۔ جنگ میں ایک کالم نگار نے درجہ چہارم کے ایک ملازم کی کہانی لکھی ہے کہ اس کی آمدنی 12ہزار ہے۔ وہ ایک انتہائی پسماندہ بستی میں کرائے کے مکان میں رہتا ہے جس کا کرایہ چھ ہزار ہے۔ بجلی گیس اور پانی کے بل 3ہزار کے ہوتے ہیں چنانچہ اسے دوسری ملازمت کرنا پڑی مگر بڑھتے ہوئے اخراجات نے اسے شہری ملازمت پر مجبور کیا اور سخت محنت کی وجہ سے وہ بیمار ہوگیا اور اس کی بیوی گھروں میں کام کے لئے نکلی تو جس گھر میں گئی وہاں بیگم صاحبہ نے گارنٹی کے طور پر بیس ہزار روپے مانگے۔ غریب عورت نے کہا کہ باجی اگر ہمارے پاس 20 ہزار ہوتے تو میں کام کے لئے گھر سے کیوں نکلتی۔ کم تنخواہ والے سرکاری اور نجی ملازم اکثر شام کو دوسری ملازمت کرتے ہیں۔
ملک میں سب سے زیادہ فعال ادارہ تعمیراتی شعبہ ہے جو اب بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے شہروں میں بھی تعمیراتی کاموں کا آغاز کررہا ہے اپنی تشہیر کے لئے نئے نئے حربے استعمال کرتا ہے مثلاً 3 یا 4 کمروں کے فلیٹس یا اپارٹمنٹ کی کل قیمت یا ماہانہ قسط تو بڑے جلی اعداد میں شائع کراتا ہے مثلاً کل قیمت 40لاکھ اور باریک اعداد میں لکھا ہوتا ہے ’’علاوہ قرضہ‘‘ اب شہروں کے وسط میں تو زمین موجود نہیں لہٰذا آباد یا تجارتی علاقوں سے دور جانا پڑتا ہے وہاں زائد فاصلے کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایئرپورٹ سے دس منٹ کی ڈرائیو جبکہ خود ایئرپورٹ کا فاصلہ کئی میل کا ہوتا ہے۔ اب فلک بوس عمارتوں کا رواج بڑھ رہا ہے، جہاں نیچے دکانیں اور اوپر رہائشی یا کاروباری دفاتر کی گنجائش ہونے لگی ہے۔ بلڈروں کے لئے یہ زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں کیونکہ یہاں بجلی، گیس اور پانی کی لائنوں کی یکجائی کی وجہ سے اخراجات کم ہوجاتے ہیں۔ ہائوسنگ اسکیموں کی طرف سے کچھ عرصہ پہلے فلمی فن کاروں اور کھلاڑیوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ اب تازہ تیکنیک میں اتوار کے روز گھرانوں کو موقع (سائٹ) پر آنے کی دعوت دی جاتی ہے جہاں بچوں کے جھولے وغیرہ، خواتین کے لئے مفت مہندی لگانے کا انتظام، کھانے پینے کے اسٹال ہوتے ہیں بلکہ بعض جگہ تو ہائی ٹی بھی فراہم کی جاتی ہے۔
آج کل اسلام آباد کی ایک ہائوسنگ اسکیم کا بڑا چرچا ہے۔ اس اسکیم کو پاکستان کے معروف ڈویلپرز ٹائون پلانرز، ماہر تعمیرات نے بہترین اسکیم قرار دیا ہے۔ یہاں پلاٹس کی قیمتیں مناسب ہیں یعنی ایک کنال کی قیمت میں چار کنال کا پلاٹ مل رہا ہے۔ یہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لئے نالج ویلیج ، کھیل و تفریح کے اسپورٹس ویلیج، 12 کنال کا جدید اسپتال، سڑکوں کی روشنی کے شمسی توانائی کا استعمال ، ٹرانسپورٹ کے لئے ڈبل ڈیکر بسیں، سیکورٹی کا معقول انتظام ہوگا۔ یہاں 4کنال، 5کنال اور 10 کنال کے الٹرا لگژری پلاٹ فروخت ہوں گے۔ اس اخبار میں پلاٹوں کی قیمتیں نہیں دی گئیں، ان پر بین الاقوامی معیار کی عمارتیں تیار کی جائیں گی۔ یہ کروڑ اور ارب پتیوں کا کھیل ہے جو دبئی ، لندن اور پیرس وغیرہ میں جائیداد خرید سکتے ہیں یہاں لکھ پتیوں کا بھی دخل نہیں کیونکہ آج کل ایک معمولی دکان کا مالک یا دوکمروں کا گھر والا بھی لکھ پتی ہوسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ امراء کی اس دنیا میں غریبوں کا خیال کرنے والا بھی کوئی ہے؟اس طبقے میں کم آمدنی والے شہری سرکاری اور نجی ملازم اور پنشن خوار شامل ہیں۔ اللہ بھلا کرے کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کا جنہوں نے محکمہ پبلک ہائوسنگ کو ہدایت کی کہ شہر میں کم قیمت ہائوسنگ اسکیمیں شروع کی جائیں تاکہ جو لوگ مہنگے کمرشیل منصوبوں میں ذاتی مکان لینے کے متحمل نہیں ہوسکتے ان کو بھی اپنے گھر والوں کو سر چھپانے کے لئے جگہ میسر آسکے۔ ایڈمنسٹریٹر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ 1998ء کے بعد سے کراچی میں کم آمدنی والے افراد کے لئے کوئی منصوبہ سرکاری سطح پر نہیں بنا جبکہ کالعدم کے ڈی اے کے پاس تجربہ کار اور ماہر افسران کی کمی نہیں۔ اس سلسلے میں جلد از جلد اس جگہ کا انتخاب کیا جائے، جہاں کراچی کے مختلف علاقوں کے رہنے والوں کو رہائش اختیار کرنا مشکل نہ ہو۔ واضح رہنا چاہئے کہ پچھلے عشروں میں بعض علاقوں میں پلاٹ اور مکانات سستے داموں اقساط پر دیئے گئے مگر کچھ عرصے بعد اقساط کی عدم ادائیگی اور بقایا جات کی عدم وصولی کی بنا پر یہ جائیدادیں نیلام کی گئیں اور الاٹیوں کو رقم اور جائیداد دونوں سے ہاتھ دھونا پڑا اس لئے قیمتیں ایسی ہوں کہ ان کو آسانی سے برداشت کیا جاسکے اور دہرے نقصان سے بچا جاسکے۔
تازہ ترین