• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا قلم یہ جملہ لکھتے ہوئے کانپ رہا ہے کہ پاکستان ایک سخت ترین آزمائش سے گزر رہا ہے۔ آج کے حالات 1947ء کے خون رنگ واقعات سے مختلف ہونے کے باوجود رگِ جاں میں خنجر کی طرح اُترتے جا رہے ہیں۔ پاکستان بنا ، تو لٹے پٹے مسلمان بھارت سے خون اور آگ کے دریا عبور کر کے اپنے نوزائیدہ وطن کی طرف ہجرت کر کے آئے تھے جبکہ آج فوج پر ،قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ،عبادت گاہوں اور مزارات پر ، گنجان بازاروں اور چھاؤنیوں پر اندر ہی سے حملے ہو رہے ہیں اور ستم رسیدہ لوگ پاکستان کے اندر ایک مقام سے دوسرے مقام تک نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ کراچی میں خون بہہ رہا ہے اور بنوں ،پشاور ، راولپنڈی ، فاٹا اور بلوچستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ اِس ہفتے ایک سو سے زائد اہلِ وطن لقمۂ اجل بن گئے اور حساس علاقوں میں طالبان مسلسل اپنی بے رحم طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اُن کی پناہ گاہیں جو زیادہ تر شمالی وزیرستان میں ہیں ،اُن پر چند روز پیشتر فوج نے ٹارگٹڈ آپریشن کیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خونیں معرکہ شروع ہو چکا ہے ، صورتِ حال بہت گمبھیر ہوتی جا رہی ہے اور شاید فیصلہ کن لمحہ قریب آن پہنچا ہے۔ خوش قسمتی سے حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر سیاسی اور دینی جماعتیں اِس امر پر متفق نظر آتی ہیں کہ پاکستان کو خلفشار اور خانہ جنگی سے بچانے کے لیے قومی سلامتی کی جامع حکمتِ عملی وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے اور حکومت کو بلاتاخیر جرأت مندانہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ پنجاب کے فعال اور برق رفتار وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے دو روز پہلے پنجاب میں چھ ہزار میگا واٹ کول پاور منصوبے کا اعلان کرتے وقت ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پانی سر سے گزرتا جا رہا ہے ،اِس لیے قوم کو متحد ہونا ہو گا۔
اِس جواب پر میں سوچتا رہا کہ جب حکومت کے اکابرین ہی بٹے ہوئے اور بدترین ابہام کا شکار ہوں ،تو قوم ازخود عسکریت پسندوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کیونکر بن سکے گی۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کی یہ بات درست ہے کہ دہشت گردی کا سلسلہ گزشتہ ایک عشرے سے جاری تھا ،مگر ماضی کی حکومتوں نے داخلی سلامتی کی ایک واضح پالیسی ترتیب دی نہ سریع الحرکت فورس بنائی اور یوں معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا گیا۔ اُن کا تبصرہ اپنی جگہ درست ،لیکن اُنہیں اِس تلخ سوال کا جواب دینا ہو گا کہ اُن کی جماعت نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کیا ہوم ورک کیا تھا اور حکومت میں آنے کے بعد اُن کی کارکردگی اِس قدر غیر تسلی بخش کیوں ہے۔ وہ طالبان سے مذاکرات کی رَٹ تو لگاتے رہے ، مگر اُن کے مضمرات کی گہرائی میں جانے سے کسی حد تک قاصر رہے۔ بات چیت کی راہ اختیار کرتے وقت چند بنیادی سوالات کا جواب تلاش کرنا ازبس ضروری تھا۔ پہلا یہ کہ طالبان کون ہیں اور اُن کا عامۃ المسلمین سے مختلف نظریہ کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ اُن کے اصل مطالبات کیا ہیں۔ تیسرا یہ کہ معاشرے میں اُنہیں کس قدر حمایت حاصل ہے۔ یہ کام دانش ور ، علماء اور میڈیا کے صاحبِ نظر افراد سرانجام دے سکتے تھے ، مگر اُن کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے سطحی نوعیت کے بیانات دیے جاتے رہے جنہوں نے آگ پر تیل کا کام کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک نیوکلیس تیار کیا جاتا جو علمی اور فکری بنیاد پر ایک متبادل نقطۂ نظر ترتیب دیتا اور طالبان کی قیادت سے مکالمے کا اہتمام کرتا جو خارج ازامکان ہرگز نہیں تھا۔ اخبارات کے ذریعے اُن کے جو مطالبات سامنے آتے رہے ، اُن میں شریعت کا نفاذ اور امریکہ سے تعلقات کا خاتمہ سب سے نمایاں ہیں۔ اِن دونوں مطالبات پر اُن کے ساتھ گفت و شنید ہو سکتی تھی اور حکمت کے ساتھ شاید آج بھی ممکن ہو۔
طالبان کے کچھ قائدین برملا کہتے ہیں کہ ہم آئین اور جمہوریت کو نہیں مانتے کیونکہ وہ اسلام سے متصادم ہیں۔ اُن کے سامنے یہ مضبوط دلیل رکھی جا سکتی ہے کہ پاکستان کا آئین اسلام کے نقطۂ نگاہ سے نہایت جدید اور ایک بہترین دستاویز ہے۔ اِس دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی اور اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت ِاعلیٰ تسلیم کی گئی ہے اور اِس کے اندر ایک اسلامی معاشرے کی تعمیر کے لیے راہنما اصول موجود ہیں۔ اِس میں درج ہے کہ ایک فرد کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق بسر کرنے کے لیے ریاست ایک سازگار فضا فراہم کرے گی۔اِس اعتبار سے پاکستان کی جمہوریت مغربی جمہوریت سے یکسر مختلف ہے۔ اِسی طرح امریکہ سے تعلقات منقطع کرنے کے حوالے سے عملی مسائل زیرِ بحث لا کر اُن پر یہ حقیقت واضح کی جا سکتی ہے کہ حالات کے مطابق بتدریج ہدف کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ خود ہادیٔ برحق حضرت محمد ﷺ نے میثاقِ مدینہ اور صلح حدیبیہ کے مراحل طے کیے اور طاقت کا ایک توازن قائم رکھا۔ آپؐ نے ایک ایسی حکمت ِعملی وضع کی جو فتح مکہ پر منتج ہوئی۔
دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے عوام کی جسمانی، فکری اور ذہنی تربیت کو اوّلین ترجیح دینا ہو گی۔ اُن پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ واضح کرنا ہو گا کہ طالبان کی تعبیرِ دین سارے مکاتبِ فکر کے علماء کی نظر میں درست نہیں اور اُن کا عمل اسلام کے بنیادی اصولوں سے کھلا انحراف اور کھلی بغاوت ہے۔ عوام کے اندر اِس خیال کو ذہن نشین کرنے کے لیے تمام علماء اور اسلامی سکالرز کو یک زباں ہو کر دہشت گردی کے خلاف مسجدوں، مذہبی محفلوں، مذاکروں اور یونیورسٹیوں میں آواز بلند کرنا ہو گی۔ اِسی طرح ٹی وی چینلز پر بھی فکر انگیز مباحث کا اہتمام ضروری ہے۔وکلاء ، اساتذہ اور عمرانیات کے ماہرین کو پوری استقامت سے یہ تاثر پھیلانا ہو گا کہ ہمارے سماج میں خون کے پیاسوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہنگو کے جواں ہمت طالب علم اعتزاز حسن نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر یہ روایت قائم کر دی ہے کہ عام شہری دہشت گردوں سے دو دو ہاتھ کرنے اور معاشرے کو انتہا پسندی کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کے لیے ایثار کے عظیم جذبے سے سرشار ہے۔ اُس کا یہ ناقابلِ فراموش کارنامہ عزیمت کے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
بلاشبہ ہم اِس وقت حالت ِجنگ میں ہیں جس میں کامیابی کے لیے عوام کو ایک صبر آزما تحریکِ مزاحمت کے لیے تیار اور ہماری اشرافیہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ہو گا۔ اِس وقت سب سے بڑی ضرورت خطرات سے گھبرانے کے بجائے مردانگی سے اُن کے آگے ڈٹ جانے اور دہشت گردوں کو یہ احساس دلانے کی ہے کہ معاشرہ اُن کے خلاف صف آرا ہو چکا ہے۔ اِس تاثر کو گہرا کرنے کے لیے سول سوسائٹی کو فوج ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت اور شہید ہونے والے ہم وطنوں کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے رہنا چاہیے۔ اِس کے علاوہ حکومت کی طرف سے یہ پیغام جانا چاہیے کہ وہ دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ دینے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہے۔ اِس ضمن میں الیکٹرانک میڈیا کا رول غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اُسے دہشت گردی کے مناظر دکھانے اور اعصاب شکن تجزیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ وفاقی وزارتِ داخلہ نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ سیکورٹی اداروں کے ترجمان پیشگی کلیئرنس کے بغیر میڈیا کو اطلاعات فراہم نہیں کر سکیں گے۔ یہ فیصلہ قابلِ تحسین ہے کہ اِس کے ذریعے کنفیوژن اور منڈلاتے خطرات پر قابو پانے میں بڑی مدد ملے گی۔
تازہ ترین