• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سردار جی معاشی حالات سے تنگ آ کر خودکشی کا ارادہ لے کر گھر سے نکلے اور ریل کی پٹڑی پر جا کر لیٹ گئے۔ ان کے ہاتھ میں ٹفن کیریئر دیکھ کر ایک راہ گیر نے کہا ’’سردار جی مرنا ہی ہے تو ساتھ روٹی باندھ کے لانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ تو سردار نے جواب دیا ’’تمہارا خیال ہے گاڑی لیٹ ہو جائے تو میں بھوکا مر جائوں‘‘۔
یہ سچ ہے کہ بھوک کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ جمعیت علمائے اسلام والے سات آٹھ ماہ تک دانتوں میں زبان دبائے بہت مشکل میں خیبر پختونخوا میں گلومی گلومی پھرتے رہے۔ آخرکار وفاقی کابینہ میں اپنی ڈیڑھ وزارت کی مسجد بنا کر مخملی چٹائیوں تک پہنچ ہی گئے۔ ہمارا سبزی فروش دوست کچھ کچھ سیاسی ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ روز قبل کہہ رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن دھیرے دھیرے ساتھ آٹھ ماہ میں کسی طرح حکومت کے خیمے میں داخل ہو گئے۔ ہم نے کہا ابھی کچھ اصول پرست اور بھی ہیں جو اقتدار کے خیمے میں جھانک رہے ہیں۔ ہم جوانی میں اس طرح فلم کے ٹکٹ نکالا کرتے تھے۔ سنیما پر قطار میں لگ کر ٹھہر ٹھہر کے دھکم پیل کرتے ہوئے ٹکٹ کھلنے تک کھڑکی کے سامنے پہنچ جایا کرتے اور لوگوں پر ہماری معصومیت کا راز اس وقت کھلتا جب ہم گجرات والے بینکار مولانا مظفر میر کی طرح ٹکٹ لے کر ’’ہا‘‘ کر کے پیچھے ہٹا کرتے تھے۔ مولانا مظفر میر کا وہ دور زمانہ طالب علمی کا تھا۔ ہم نے وضاحت اس لئے کر دی ہے کہ جنگ کے قارئین اپنے کالم نگاروں پر بڑی کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ طرح طرح کے سوالات کرتے ہیں۔ آسٹریلیا سے جناب محمد رضوان نے پوچھا کہ آپ کے کالموں میں ماضی کا کوئی واقعہ ضرور ہوتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہم نے کہا تاریخ کا طالب علم ہوں، ماضی سے جڑا رہنا چاہتا ہوں۔ معروف شاعر اور نقاد پروفیسر ڈاکٹر نثار ترابی گویا ہوئے کہ ایک عرصے سے آپ کو پڑھ رہا ہوں، آپ کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوتے، اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟ ہم نے جواب دیا۔ ناراض وہ ہوا کرتے ہیں جنہیں کوئی راضی کرنے والا ہو، ہم کس بل بوتے پر ناراض ہوویں۔
کراچی سے حمیرا ثروت نے پوچھا کہ جنرل پرویز مشرف یہ سارا کچھ کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے کہا وہ اپنی مٹی خود ہی پلید کر رہے ہیں! ثروت بولی کیا مطلب ہے۔ ہم نے کہا مٹی کا معاملہ ہے۔ چوہدری شجاعت بہتر وضاحت کر سکتے ہیں۔
آصفہ بھٹو زرداری سیاست میں بچی ہے مگر سیاستدانوں کے ’’کملے‘‘ بھی سیانوں جیسی باتیں کر جاتے ہیں۔ آصفہ نے کہا ہے کہ اگر پرویز مشرف عدالت نہیں آتے تو عدالت کو چاہئے کہ وہ اسپتال چلی جائے‘‘۔ ہم اس میں تھوڑا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ خصوصی بنچ کو تین حصوں میں تقسیم کر دینا چاہئے۔ ایک جج وہیں بیٹھے رہیں، دوسرے فارم ہائوس چلے جائیں اور سربراہ اسپتال پہنچ جائیں۔ اس تجربے سے شاید کچھ نتائج برآمد ہو سکیں۔ تجربات کرتے رہنا چاہئیں۔ سوال و جواب بھی علم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ہم نوجوانی میں مباحثے کیا کرتے تھے۔ مقابلے ہوتے تھے۔ زندگی میں گرمی رہتی تھی۔ اب ہر کسی نے اپنا اپنا لیپ ٹاپ رکھا ہوا ہے۔ اپنا اپنا راگ اپنی اپنی ڈفلی، البتہ جیو پر جناب آفتاب اقبال اپنے مقبول عام پروگرام خبرناک میں کبھی کبھی مختلف موضوعات پر بحث کراکے ناظرین پر کرم فرماتے رہتے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو بحث کا موضوع تھا ’’بچہ معصوم ہوتا ہے‘‘۔ آفتاب خود بھی اس بات پر متفق تھے البتہ ان کے پروگرام کے ایک ساتھی کو اس ٹاپک سے اختلاف تھا۔ ان کا ’’فرمانا‘‘ تھا کہ بچہ معصوم بالکل بھی نہیں ہوتا اور جھوٹ بھی بولتا ہے۔
بزرگوں سے تو یہ بچے بھلے ہیں
کہ جو بے ساختہ سچ بولتے ہیں
ہمارا بھی اس بات پر سو فیصد اتفاق ہے کہ بچے نہ صرف سچ بولتے ہیں بلکہ فرشتوں کی طرح پاک اور انبیاء علیہ السلام کی طرح معصوم بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے، جس سے اندازہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ بچے معصوم ہوتے ہیں کہ نہیں۔
ہمارے والد صاحب نے دوسری جنگ عظیم میں کوئی کارنامہ کیا تھا جس کے بدلے انہیں ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں انگریز سرکار نے اچھی خاصی زمین انعام میں دی تھی۔ بعض سندھی قبائل اور کچھ سرائیکی اور ریاستی لوگوں میں ڈاکہ، ہنگامہ اور چوری چکاری بہادری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ واری کا پانی کاٹنا اور کپاس چن کے لے جانا تو کھیل کود کا حصہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے والد رات چھت پر ڈبل بیرل بندوق لے کر سویا کرتے تھے۔ نوکروں چاکروں کے پاس بھی نیزے بھالے اور برچھی وغیرہ ہوتی تھی۔ ایک صبح والد صاحب بندوق چھت سے اتارنا بھول گئے۔ ہماری عمر اس وقت کوئی سات سال تھی۔ بہن دو سال بڑی تھیں۔ ہم دونوں نے مل کے وہ بندوق اٹھائی۔ نیچے مویشیوں والے کمرے میں آئے۔ بہن سے کہا تم فائر کرو، میں نالی (بیرل) سے آنکھ لگا کر گولی کو نکلتا ہوا دیکھتا ہوں۔ جب ہم دونوں اپنی اپنی پوزیشن پر آ گئے اور آنکھ بیرل پر فٹ کر لی تو کہا گھوڑا (ٹریگر) دبائو۔ اس لمحے اس سے بندوق چھوٹ گئی۔ پھر اس نے کہا اچھا اب نہیں گرنے دوں گی۔ پھر بولی گولی بعد میں دیکھ لیں گے۔ تم دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جائو۔ میں تمہارے کندھے پر رکھ کر چلاتی ہوں۔ اس طرح کھڑا ہوا تو بیرل کے آگے ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے کہا یہ کیا کر رہے ہو۔ ہم نے کہا تاکہ گولی نکل کر دور نہ چلی جائے۔ وہ بولی میرا نشانہ خراب نہ کرو۔ ہٹائو ہاتھ۔ مجھے اس طرح دکھائی نہیں دیتا۔ میں نے ہاتھ نیچے کیا۔ اس نے گھوڑا دبایا، ٹھاہ ہوئی اور ہم بندوق پھینک کے روتے ہوئے نہر کی طرف بھاگ گئے۔ حویلی کے مختلف حصوں میں موجود خدمت گار بھی ہمارے تعاقب میں نہر پر پہنچ گئے۔ اتنے میں دور سے ہمارا وہ تانگہ آتا دکھائی دیا جس پر شام کو ہم سیر کیا کرتے تھے۔ ملازم احتراماً پائیدان پر بیٹھا تھا۔ والد صاحب اگلی اور والدہ پچھلی سیٹ پر تھیں۔ وہ صبح صبح بازار خریداری کے لئے گئے تھے۔ ہم نے اپنی امی کو روتے ہوئے جو سب سے پہلا جملہ کہا تھا، وہ شکایت کی صورت میں تھا کہ ’’امی باجی نے مجھے بندوق سے نکلتی ہوئی گولی نہیں دیکھنے دی‘‘۔
تازہ ترین