• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ ن کو اقتدار سنبھالے ہوئے 6ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔اگر آج مسلم لیگ (ن) وفاق اور دو صوبوں میں براجمان ہے تو اس کا بلاشبہ کریڈٹ میاں شہباز شریف کی انتھک پانچ سالہ کارکردگی کو جاتا ہے۔پنجاب میں صحت ،تعلیم ،عوامی فلاح وبہبودکے بیشتر بڑے منصوبے شروع کئے گئے،جن میں سے میٹرو بس،آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اورصرف لاہور میں سڑکوں کے جال سے عوام مستفید ہورہے ہیں، مگر کچھ ایسے کام بھی کئے گئے جن میں اربوں روپے جھونکے گئے ۔مگر عوام کو اس کا بلاواسطہ یا بالواسطہ کوئی فائد ہ نہیں ہوا،حال ہی میں سندھ سے واپسی پر راجن پور میں اربوں روپے کی لاگت سے بنا ہوا ویران دانش اسکول دیکھا جو اس کی ایک مثال تھا،ویسے تو ڈیرہ غازی خان کا دانش اسکول بھی علم و دانش کے پھول بکھیرنے میں بری طرح سے ناکام رہا ہے،لیپ ٹاپ اسکیم کا بھی پنجاب حکومت کو وہ فائدہ نہیں ہوا جس کی وہ توقع لگائے بیٹھے تھے،شائد اس کی بڑی وجہ میرٹ سے ہٹ کر لیپ ٹاپ کی بندر بانٹ تھی،حالانکہ میاں شہباز شریف تو خود میرٹ اور صرف میرٹ کے بلند و بانگ نعرے کے خالق ہیں۔مسلم لیگ( ن) کے ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ جو کام میاں شہباز شریف نے ذاتی وژن اور سیاسی قیادت کے مشوروں سے شروع کئے تھے ان کا انہیں فائدہ بھی ہوا ہے ۔مگر جن میں چند بیوروکریٹ کی چکنی چپڑی باتوں پر مشتمل مشورے شامل تھے اس کے حکومت کو لینے کے دینے پڑگئے،بلکہ میں اپنی خود ہی تصحیح کرتا چلوں کہ وہ مشورے چند نہیں بلکہ بقول شہباز شریف ان کے ایک ہی وفادار بیوروکریٹ نے دئیے تھے۔جس کا نتیجہ بھی سامنے آیا کہ جس یوتھ کے لئے لیپ ٹاپ اور دانش اسکول جیسے منصوبے شروع کئے توانہوں نے اس کے برعکس عمران خان کو ووٹ دے کر فتح سے ہمکنا ر کیا۔ وفاداری سے مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک مرتبہ میاں شہباز شریف ڈیرہ غازی خان سے روجھان جارہے تھے میاں شہباز شریف کے قریبی دوست گاڑی ڈرائیو کررہے تھے ،جبکہ دو عددراوی گاڑی کی پچھلی نشست پر براجمان تھے۔وزیر اعلی پنجاب کے دوست نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ ماضی سے کیوں سبق نہیں سیکھتے؟عوامی خدمت کا جذبہ بھی رکھتے ہیں مگر ایک بیوروکریٹ سے پورا صوبہ چلارہے ہیں،جو نہ صرف آپ کی بد نامی کا باعث بن رہا ہے ،بلکہ مسلم لیگ( ن) کی ساکھ کوبھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ان دوست نے شہباز شریف کو کہا کہ ڈاکٹر توقیر شاہ صاحب ایک ایسے آدمی ہیں جو سیاستدانوں اور پارٹی رہنمائؤں کی تو بے توقیری کرتے ہی ہیں بلکہ اپنے طبقے یعنی ساتھی بیوروکریٹس کی بھی تذلیل کرتے ہیں ۔طویل لیکچر سننے کے بعد میاں شہباز شریف نے انکساری سے جواب دیا کہ مجھے ہر بات کا علم ہے اور آپ کی تمام باتیں درست ہیں مگر ڈاکٹر توقیر مجھ سے تو وفادار ہیں۔بالا حقائق سے قطع نظر رتی برابر بھی شک نہیں کیا جاسکتا کہ میاں شہباز شریف ذاتی حیثیت میں ایک انتہائی ایماندار شخص ہیں،جس کا تذکرہ ان کے ساتھ کام کرنے والے بیوروکریٹ اور سیاستدان بھی کرتے ہیں،۔گزشتہ رات یورپی یونین کے دیرینہ پاکستانی دوست پرویز کوثر کے اعزاز میں میاں ناصر صاحب کے کھانے پر مخصوص سیاستدانوں اور بیوروکریٹ مدعو تھے،گریڈ 21کے ایک سینئر بیوروکریٹ نے بتایا کہ انہوں نے بطور ڈی سی او لاہور میاں شہباز شریف کے ساتھ دو سال سے زائد عرصے تک کام کیا ہے ،مگر اس عرصے میں میاں شہباز شریف نے ان سے کبھی کوئی غیر قانونی حکم کی بجاآوری کے لئے نہیں کہا،مگر یہ با ت غورطلب ہے اس بیوروکریٹ نے کہا کہ وہ اگر آج پنجاب کو چھوڑ کر وفاق میں ملازمت کرنے پر مجبور ہیں تو اس کی وجہ ڈاکٹر توقیر شاہ کی بے لگامیاں ہیں۔ایک بات تو طے ہے کہ اگر میاں شہباز شریف کا کوئی قریبی عزیزیا چہیتا بیوروکریٹ جو کچھ کررہے ہیں ۔اس پر ان کی خاموشی انہیں بھی شریک جرم ٹھہراتی ہے۔انہیں اس پر سخت موقف اپنانا چائیے۔ پنجاب میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ اصل وزیر اعلی پنجاب تو ڈاکٹر توقیر ہیں،جونہ صرف ارکان اسمبلی کی بے توقیری کرتے ہیں ،بلکہ میاں شہباز شریف بھی انہی کے ذریعے سیاستدانوں کو کنٹرول کرنے کا کام لیتے ہیں،حتی کہ جب صوبائی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہو یا کسی قرار داد کی منظوری کے لئے وافر تعداد میں ارکان درکار ہوں تو اس اہم کام کے لئے بھی ڈاکٹر توقیر شاہ کی خدمات لی جاتی ہیں ،جو ارکان اسمبلی کی فائلوں پر اس شرط پر دستخط کرتے ہیں کہ وہ پوری کارروائی تک اجلاس میں شریک رہیں گے،ویسے ساستدانوں کو بھی اسمبلی اجلاسوں سے عدم حاضری زیب نہیں دیتی اور شاید ان کی انہی غیر ذمہ داریوں کی وجہ سے پورے صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک گریڈ 20کا ایک افسر بنا ہوا ہے،جسے افسران و سیاستدان باقاعدہ وزیر اعلی کہہ کر پکارتے ہیں۔سول افسران قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہی افسران نظام و انصرام میں استحکام کے لئے تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں،مگر اختیارات کی اس طریقے سے بندر بانٹ کسی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی،موصوف بیوروکریٹ صرف سیاستدانوں یا صوبے نہیں بلکہ اپنے طبقے کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہیں،چیف سکریٹری پنجاب جناب نوید اکرم چیمہ صاحب کو عہدے کا چارج سنبھالے تقریبا دو ماہ ہوچکے ہیں مگر وہ کوشش کے باوجود اپنی ٹیم لانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور اس کی وجہ وہی ڈاکٹر توقیر ہیں وزیراعلیٰ ان کی مٹھی میں ہیں۔اور چیف سیکریٹری کوصرف یہ پیغام دے دیا جاتا ہے کہ پورے صوبے میں مسلم لیگ( ن )کے افسران کی ہی ٹیم ہے ،اس لئے مزید بہتری کی گنجائش نہیں ہے،اپنے طبقے سے مخالفت کا یہ عالم ہے کہ حال ہی میں پولیس سے جو تین اہم محکمے لئے جارہے تھے ان میں ایک اسپیشل برانچ بھی تھا،پنجاب پولیس کے ایک انتہائی سینئر افسر کے مطابق اس میں ڈاکٹر توقیر شاہ کی ہی منشا تھی۔کیونکہ موصوف بیوروکریٹ اسپیشل برانچ کی ہی رپورٹوں پر صوبے کے ماتحت افسران اور سینئر سیاستدانوں کے نٹ بولٹ ڈھیلے اور ٹائیٹ کرتے ہیں۔واقعات کی فہرست بہت طویل ہے،ڈاکٹر کے روئیے سے دلبرداشتہ ہوکر پولیس سروس پاکستا ن اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے انتہائی سینئر افسران رو پڑتے ہیں،مگر ان کی بے بسی دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ جو شخص اپنے طبقے سے مخلص نہیں ہے و ہ پنجاب کے عوام کے ساتھ کیا مخلص کیا ہوگا؟
گزشتہ دنوں پولیس سروس ڈی آئی جی رینک کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ انہیں پنجاب حکومت نے انٹرویو کے لئے بلایا مگر جی و آر ون پہنچنے پراپنے جونئیر ڈاکٹر توقیر سے سامنا ہوا،دوران انٹرویو ان پر ملک کی ایک سیاسی جماعت سے وابستگی کا الزام تو لگایا ہی مگر بطور جونئیر کامنر ان کا ایک سینئر کامنر سے رویہ بھی ناقابل برداشت تھا۔وہ انٹر ویو دے کر باہر آئے تو مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کا ایک جم غفیر تھا ،جو ڈاکٹر کی ایک دید کو ترس رہا تھا کہ شاید شاہ صاحب کی شکل دیکھ کر ان کا کام ہوجائے،مگر موصوف بیوروکریٹ تمام ارکان اسمبلی کی قطاروں کو حقارت سے چیرتے ہوئے اپنی گاڑی میں بیٹھے اور چل دئیے۔ تاریخ کا طالبعلم ہونے کے نا تے اکثر اپنی تحریروں میں لکھ چکا ہو ں کہ تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی تاریخ سے نہیں سیکھتا اور یہی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔1976میں اسی قسم کے چند بیوروکریٹس پنجاب کے کمشنروں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک سال قبل ہی انتخابات کا مشورہ دیا اور پھر سب نے نتیجہ دیکھا،بیوروکریسی اسی قسم کے مشورے دے کر سیاستدانوں کو آزمائش میں ڈالنے کی ماہر ہے،مگر میاں شہباز شریف شاید نہ ہی اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی تاریخ سے،آج بلجئیم سے آئے ہوئے یورپی یونین کے دیرینہ پاکستانی دوست پرویز لوہثرپوچھتے ہیں کہ پنجا ب کا وزیر اعلی کون ہے تو مجھ سے پہلے ہی مسلم لیگ ن کے گریڈ 22کے چہیتے بیوروکریٹ بول پڑتے ہیں کہ ڈاکٹر ....
تازہ ترین