وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت اگلے روز ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں سیکورٹی فورسز کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دہشت گردی کرنے والوں سے ان کی زبان میں بات کریں۔ اجلاس میں دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی پر اتفاق کیا گیا اور طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی تبدیل کرنے پر بھی غور کیا گیا ۔ مذکورہ اجلاس کے حوالے سے اخبارات میں جو رپورٹیں شائع ہوئی ہیں ، ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر دہشت گرد کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ریاست کی طرف سے پہلے کی طرح خاموشی اختیار نہیں کی جائے گی ۔ یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن بھی شروع کر دیا گیا ہے ۔ لگتا ہے کہ طالبان یا دیگر انتہا پسند گروپوں سے مذاکرات کے امکانات وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ حکومت اور سیکورٹی ادارے جس طرف جا رہے ہیں اس طرف انہیں حالات نے دھکیلا ہے اور اس میں بعض عناصر کی کوششیں بھی شامل ہو سکتی ہیں لیکن اس راستے میں بہت سے پیچیدہ مسائل بھی سامنے آ سکتے ہیں ۔آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تمام سیاسی قوتوں نے دہشت گردی ختم کرنے کیلئے حکومت کو مذاکرات سمیت دیگر آپشنز کا بھی مینڈیٹ دیا تھا۔ اس کے باوجود حکومت کو چاہئے کہ وہ نئی صورتحال میں ملک کی سیاسی قوتوں کو ایک بار پھر اعتماد میں لے اور سیاسی قوتوں کے ساتھ وقتاً فوقتاً مشاورت کا ایک طریقہ کار وضع کرے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں کئی مراحل ایسے آئیں گے، جب قومی اتفاق رائے کے اظہار کی ضرورت پڑے گی ۔
دہشت گردی اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقہ کار پر پاکستان کی مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن ساری سیاسی قوتیں یہی چاہتی ہیں کہ ملک میں امن قائم ہو۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بدامنی اور دہشت گردی سے کچھ عناصر کا مخصوص اور سیاسی مفاد جڑا ہوا ہے۔ اگر پوری قوم متحد ہو جائے تو یہ عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے مگر دہشت گردی کو آسان مسئلہ بھی تصور نہیں کرنا چاہئے ۔ اس مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں اور دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے لمحہ لمحہ اجتماعی قومی دانش سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ حکومت دہشت گردوں کو جواب نہ دے اور ان کے خلاف کارروائیاں نہ کرے۔ اجتماعی قومی دانش سے رہنمائی لینے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سیکورٹی فورسز عوام کی حمایت کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ایک سیاسی حکومت ہونے کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ وہ پیچیدہ ایشوز پر قومی اتفاق رائے پیدا کرتی ہے ، جو غیر جمہوری یا غیر منتخب حکومت نہیں کر سکتی ۔
آل پارٹیزکانفرنس میں جب پوری قوم کے نمائندوں نے سیکورٹی فورسز کے ساتھ حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا تو اس فیصلے کے پیچھے یہ دانش تھی کہ خونریزی کے بغیر مسئلے کو حل کرلیا جائے لیکن یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ قوم کے اس پیغام کو انتہا پسندوں نے نہیں سمجھا اور اسے پاکستان کی حکومت، ریاست اور سول سوسائٹی کی کمزوری تصور کیا۔ اگرچہ اب بھی پوری قوم کی یہ خواہش ہے کہ لڑائی اور تصادم کے بغیر مسئلہ حل ہو جائے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ احساس پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ قوم کی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی۔ حکومت کی طرف سے طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کے بعد حالات مزید خراب ہوتے گئے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ عام شہریوں پر بھی حملے ہوئے۔ملک کے چاروں صوبوں میں وقفے وقفے سے دہشت گردی کی خوفناک کارروائیاں ہوئیں اور طالبان نے ان کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ طالبان کے بارے میں کسی حد تک نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو مجبوراً سیکورٹی فورسز کو یہ ہدایت دینا پڑی کہ دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف ان کی زبان میں بات کی جائے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انتہا پسند گروپ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کامثبت جواب نہیں دے سکے تو مذاکرات کا اس سے بہتر ماحول پھر کبھی نہیں پیدا ہو سکے گا اور یہ بات انتہائی افسوسناک ہے ۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان میں کچھ طاقتور حلقے ایسے ہیں جو یہ چاہتے تھے کہ مذاکرات نہ ہوں لیکن ان لوگوں کی دلیل زیادہ مضبوط نہیں ہے کیونکہ یہ طاقتور حلقے بیک وقت حکومت اور طالبان کی حکمت عملیوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
اس بحث میں پڑنے کا اب وقت نہیں ہے کہ یہ حالات کس نے پیدا کئے اور ان حالات سے کس کو فائدہ ہو سکتا ہے، دہشت گردی کے تدارک کے لئے فوری فیصلے کرکے ان پر عمل درآمد کرنا ہو گا اور ان فیصلوں پر پوری قوم کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سب سے بڑے حامی ہیں اور وہ طالبان کے مؤقف کو اس بنیاد پر درست قرار دیتے ہیں کہ وہ امریکی مداخلت کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں ۔ عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف بھی بہت احتجاج کیا ہے لیکن اب حالات اس طرف چلے گئے ہیں کہ انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر پاکستانی لڑاکا طیاروں کی بمباری کی اطلاع بھی مل رہی ہیں۔ اس پر عمران خان کا کوئی واضح مؤقف نہیں آیا ہے۔ عمران خان اپنی اس خاموشی کا کیا جواز پیش کریں گے ۔ عمران خان اور ان کے ہم خیال لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس اہم مسئلے پر حکومت اور دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ دوبارہ ڈائیلاگ کریں اور حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ عمران خان اور ان کے ہم خیال سیاست دانوں کے تحفظات کو بھی دور کرے۔ تاریخ کے اس نازک مرحلے پر قومی اتفاق رائے کی جتنی آج ضرورت ہے، پہلے نہیں تھی۔ دہشت گردی کے مسئلے پر سیاست اور اختلاف رائے کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی کے خلاف حکومت اور سیکورٹی اداروں کی حکمت عملی کو ہر حال میں کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہئے، ناکامی کے اثرات بہت خطرناک ہوں گے۔ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اس معاملے پر تدبر اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے اور مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے کے باوجود کوئی ایسی مہم جوئی نہیں کی، جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ یہ جماعتیں حکومت کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومت کو بھی اس خیر سگالی کا مثبت جواب دینا چاہئے اور تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا چاہئے۔ ڈرنا چاہئے اس وقت سے، جب خدانخواستہ قومی اتفاق رائے پارہ پارہ ہو جائے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے مقصد میں کامیابی نہ ہو۔ ایسا تصور بھی انتہائی خوفناک ہے۔