• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج قومی منظر نامے پر ابھرنے والا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تحریک ِ طالبان پاکستان کے خلاف ایکشن لیا جائے یا نہ لیا جائے؟ پی ایم ایل(ن) پر یہ حقیقت آخر کار منکشف ہوچکی ہے ہاتھ پر ہاتھ دھرے،کچھ نہ کرنے کی وجہ سے ریاست اور معاشرے کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ وزیر ِ دفاع خواجہ آصف مانتے ہیں کہ پوری قوت سے فیصلہ کن کارروائی کرنے کا وقت قریب آتاجارہا ہے تاہم وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان جو انسداد ِ دہشت گردی کی حکمت ِ عملی کی نگرانی کررہے ہیں، کا کردار بہت اہم ہے۔ پچھلے ماہ چوہدری صاحب غصے سے آگ بگولہ ہورہے تھے کہ امریکیوں نے ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کو ہلاک کرکے طالبان کے ساتھ نہایت ’’عمدگی کے ساتھ شروع کئے جانے والے پُرامن مذاکرات‘‘ کو سبوتاژ کردیا۔
اب دہشت گردوں کے بے رحمانہ حملوں کے بعد وزیر ِ داخلہ تسلیم کرتے ہیں کہ جو طالبان امن کی پیشکش کے جواب میں ہتھیار اٹھائیں گے، ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ حکومت کے اپنے اعتراف کے مطابق طالبان کے ساٹھ سے زائد گروہوں میں صرف چھ یا سات گروہ بات چیت کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی تمام تر مخلصانہ کوششوں کے باوجود طالبان کے ساتھ بات چیت کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ فوج اور پولیو رضاکاروں پر خونی حملوں کے بعد طالبان کے خلاف ایکشن کی راہ میں روڑے اٹکانے والے عمران خاں بھی اپنے موقف میں قدرے لچک پیدا کرتے دکھائی دے رہے ہیں تاہم ان کی کنفیوژن ہنوز دور نہیں ہوئی۔ اب وہ ’’اچھے طالبان ‘‘ اور ’’برے طالبان‘‘ میں فرق ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک اچھے طالبان وہ ہیں جو بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں جبکہ برے طالبان وہ ہیں جو حملے کررہے ہیں۔ اگرچہ عمران خان کو پی ایم ایل (ن) سے سخت عداوت ہے لیکن حکمران جماعت کی طرف سے کسی فیصلے پر نہ پہنچنے کے باوجود پی ٹی آئی کے قائد کے لئے بھی اپنے سابقہ موقف پر قائم رہنا دشوار ہورہا ہے کہ فوج، پولیس، پولیو رضاکاروں، میڈیا کے افراد اور عام شہریوں پر حملے کرنے والے طالبان دراصل’’بھٹکے ہوئے افراد‘‘ ہیں اور اُنہیں پیار سے پچکارتے ہوئے اپنے سینے سے لگایا جاسکتا ہے۔
میڈیا کا موڈ بھی تبدیل ہوچکاہے۔ طالبان نے انتیس صفحات پر مشتمل ایک فتویٰ جاری کرتے ہوئے میڈیا ہائوسز، ان کے مالکان اور کچھ صحافیوں کو ہدف ِ تنقید بنایا، اس کے علاوہ کچھ کی ہٹ لسٹ بھی جاری کی۔ گزشتہ دوحملوں میں کئی ایک صحافی بھی ہلاک ہوئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جی ایچ کیو بھی غصے سے دانت پیس رہا ہے۔ گزشتہ حملے ، جس میں فوج کو بھاری جانی نقصان برداشت کرنا پڑا، کے جواب میں فوج نے میر علی پر جارحانہ طریقے سے کارروائی کی اور عام شہری جانوں کی پروا کئے بغیر بمباری کی، تو کیا اس سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ طالبان کے خلاف بھرپور اپرپشن ہونے جارہا ہے؟کیا آنے والے دنوں میں ہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وزیر ِ اعظم قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسے اعتماد میں لیں گے کہ حکومت کو پُرامن مذاکرات کے بجائے اس کارروائی پر کیوں مجبور ہونا پڑا اور امن کا جھنڈا لہراتے ہوئے ہاتھوں کو ہتھیار تھام کر میدان میں کیوں آنا پڑا؟
اس وقت فضا میں کشیدگی کے بادل دکھائی دے رہے ہیں۔ فوج کا بہت دیر سے مطالبہ رہا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے مناسب قانون سازی کی جانی چاہئے تاکہ کمزور قوانین، بے جان استغاثہ اور عدالتوں کی وجہ سے انسداد ِ دہشت گردی کی کارروائی، جس میں سیکڑوں افراد ’’غائب‘‘ بھی ہوسکتے ہیں،گلے نہ پڑجائے۔ چنانچہ حکومت نے ’’تحفظ ِ پاکستان‘‘ کا قانون نافذ کردیا۔ اس قانون کے تحت سیکورٹی اداروں کو افراد کو گرفتار کرنے، حراست میں رکھنے اور سزا دلانے کا بہت زیادہ اختیار ہوگا۔ وہ ممالک جو دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں، جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور بھارت، اُنھوں نے بھی ایسے قوانین بنائے ہیں تاکہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جا سکے۔ ایسے قوانین کی موجودگی فوج کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے کیونکہ انتہا پسندوں کے خلاف کئے جانے والے آپریشنز میں جب فوجی جوان جان پر کھیل کر ہزاروں دہشت گردوں کو گرفتار کرتے ہیں تو پھر ان کو سزا ملنا ضروری ہے، ورنہ تمام کارروائی بے نتیجہ ثابت ہوگی۔
دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے ہمارے ارادوں اور حوصلوں کو پست کردینے والا ایک اور معاملہ بھی نہایت سنگین ہے۔ اس کا تعلق سپریم کورٹ میں سیکورٹی اداروں کے خلاف فاٹا اور بلوچستان کے ’’غائب شدہ‘‘ افراد کی بازیابی کے لئے چلائے جانے والے مقدمے اور اس ضمن میں عدالت کے رویّے سے ہے۔ چونکہ سپریم کورٹ فوج پر دبائو بڑھاتے ہوئے تواتر سے ڈیڈ لائن دے رہی تھی کہ گمشدہ افراد کو بازیاب کیا جائے، اس لئے ’’تحفظ ِ پاکستان بل‘‘ کی منظوری پر عدلیہ کا ردعمل سامنے آیا کیونکہ یہ بل سیکورٹی اداروں کو تحفظ دیتا ہے۔ ’’غائب شدہ افراد‘‘ کے کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ جسٹس خالد خواجہ نے اس مذکورہ قانون پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس کا کڑی نظروں سے جائزہ لے کر دیکھے گی کہ کیا یہ آئین کے مطابق ہے یا نہیں۔ غالباً بنچ یہ سمجھ رہا ہے کہ اس قانون کے ذریعے حکومت نے عدالت کی ان افراد کو بازیاب کرانے کی تین سالہ کوشش پر پانی پھیر دیا۔ یہ کشمکش ریاست اور سیکورٹی کی صورت ِ حال پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ اگر طالبان کے خلاف فوجی آپریشن اس نئے قانون کے تحت ہونا ہے اور اس نئے قانون کو عدالت، جو اسے ختم بھی کرسکتی ہے، کی کڑی پرکھ سے بھی گزرنا ہے تو پھر ریاست کے اسٹیک ہولڈرز (جس میں ایک طرف عدالت ہوگی تو دوسری طرف حکومت اور دفاعی ادارے) کے درمیان سنگین نوعیت کی کشمکش سر اٹھا سکتی ہے۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ بری طرح متاثر ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ کسی فیصلہ کن مرحلے پر فوج جارحانہ اقدام اٹھاتے ہوئے یکطرفہ کارروائی، جس کا مقصد دشمن کو قید کرنے کے بجائے ختم کرنا ہوتا ہے، پر مجبور ہوجائے۔ اس لئے پی ایم ایل (ن) کی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ فوج، میڈیا اور عدلیہ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرے تاکہ کسی ناروا صورت ِ حال کے بغیر ملک سے اس دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ کیا جاسکے۔
تازہ ترین