• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک یمن وزارتی کمیشن کا ساتواں اجلاس 7 اور 8 جنوری کو اسلام آباد میں منعقد ہوا جس کی صدارت وفاقی وزیر صنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی اور یمن کے وزیر صنعت و تجارت سعدالدین علی سالم طالب نے کی۔ اجلاس میں، میں نے سندھ میں یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے دونوں ممالک کے مابین صنعتی و تجارتی تعلقات کے فروغ اور اس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے یمن سے آئے ہوئے 11 رکنی وفد کے ہمراہ شرکت کی، وفد میں میرے علاوہ یمن کے نائب وزیر صنعت و تجارت سلیم محمد السلمان، پاکستان میں یمن کے سفیر عبدالعلی الرحمٰن، عدن کے نائب گورنر احمد الدولائی اور یمن کی مختلف وزارتوں کے اعلیٰ عہدیدار شامل تھے۔ تجارت و سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے کسی بھی دو ممالک کے مابین وزارتی کمیشن کا اجلاس نہایت اہمیت رکھتا ہے جس میں سائن کئے گئے معاہدوں پر عملدرآمد کرکے ان ممالک کے تعلقات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ 3 سال قبل پاک یمن وزارتی کمیشن کا چھٹا اجلاس یمن کے دارالحکومت صنعا میں ہوا تھا جس میں، میں نے اس وقت کے وزیر صنعت و پیداوار میر ہزار خان بجارانی کے ہمراہ شرکت کی تھی۔ حالیہ ساتویں اجلاس کے دوران میں نے یمن کے وزیر اور نائب وزیر صنعت و تجارت اور یمنی سفیر کے ساتھ وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی اور وزیر مملکت برائے تجارت و ٹیکسٹائل خرم دستگیر سے پاکستان اور یمن کے مابین تیل، گیس، ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں میں تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے کے لئے اہم میٹنگز کیں۔ یاد رہے پاکستان پیٹرولیم اور او جی ڈی سی نے پہلے ہی یمن میں تیل کی تلاش کے لئے 2 بلاک خرید رکھے ہیں جبکہ پاکستانی کمپنی JJVL یمن میں تیل کے کنوئوں سے نکلنے والی قدرتی گیس جسے جلاکر ضائع کیا جارہا ہے، سے ایل پی جی گیس کے حصول کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔
جمہوریہ یمن شمالی و جنوبی یمن کے انضمام کے بعد 22 مئی 1990ء کو وجود میں آیا تھا جس کے بعد یمن کی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس طرح یمن کی منڈیاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے کھول دی گئیں جنھوں نے تیل، گیس، پورٹ اینڈ شپنگ، بینکنگ، ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے یمن کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ یمن جس کی سرحدیں شمال میں سعودی عرب اور مشرق میں عمان سے ملتی ہیں، کی آبادی 25 ملین ہے۔ جمہوریہ یمن کو 301 ارکان پر مشتمل اسمبلی اور 111 ارکان کی شوریٰ کونسل، صدر کے ساتھ مل کر چلاتی ہے اور آئین کے تحت یمن کا عدالتی نظام اسلامی قوانین کا پابند ہے۔ 1994ء سے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے عبدو الرباح منصور الہادی جنہیں حکمراں اور اپوزیشن دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، یمن کے صدر عبداللہ صالح کے مستعفی ہونے کے بعد 21 فروری 2012ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں یمن کے صدر منتخب ہوئے جبکہ 2001ء سے یمن کے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز رہنے والے ابوبکر عبداللہ القربی بھی ان انتخابات میں دوسری مرتبہ وزیر خارجہ مقرر کئے گئے۔ یمن کا دارالحکومت صنعا ایک تاریخی شہر ہے جہاں چند سال قبل ایک عظیم الشان مسجد ’’جامع الصالح‘‘ تعمیر کی گئی تھی جس میں بیک وقت ایک لاکھ سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہے۔ یمن کی معاشی ترقی کا زیادہ تر دارومدار تیل اور گیس کے ذخائر پر ہے جنھیں ایکسپورٹ کرکے ملک کا تقریباً 90% ریونیو حاصل کیا جاتا ہے۔ یمن میں دائودی بوہری برادری کی اہم زیارتیں ہیں۔ برادری کے روحانی پیشوا سیدنا طاہر برہان الدین جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، کی 98 ویں سالگرہ بھی یمن میں منائی گئی تھی جس میں پاکستان سے بوہری برادری سے تعلق رکھنے والے تقریباً 10 ہزارافراد نے شرکت کی تھی۔ یمن کے شہر حضرموت کے تقریباً 10 ہزار سے زائد باشندے کراچی میں مقیم ہیں جو قیام پاکستان کے بعد کراچی کی ایک بستی عرب محلے میں منتقل ہوگئے تھے اور یہ باشندے ہر سال یمن کے قومی دن کے موقع پر منعقدہ تقریب میں وزیراعلیٰ سندھ کے سابق مشیر صدیق ابوبھائی اور یمنی برادری کے صدر عزیز الخطیری کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں قائم بوہری برادری کی جامعہ سیفیہ میں کئی یمنی اسکالر تعلیم دے رہے ہیں جبکہ یمن کے 150 سے زائد طلباء پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں جن میں 40 طلباء حکومت پاکستان کی اسکالر شپ پروگرام کے تحت میڈیکل، انجینئرنگ اور بی فارمیسی کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ پاکستان میں یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میری تعیناتی کے بعد پاکستان اور یمن کے مابین تجارت میں دگنا اضافہ ہوا ہے اور میری کوشش ہے کہ پاکستان اور یمن کے مابین میڈیکل اور ٹورازم کو فروغ دوں کیونکہ پاکستان یمنی باشندوں کو اسلامی روایات کے ساتھ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے مقابلے میں سستی اور معیاری میڈیکل سہولتیں فراہم کرسکتا ہے۔
ساتویں وزارتی کمیشن کے معاہدوں کے تحت کراچی اور عدن کو جڑواں شہر قرار دیئے جانے کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کئے گئے۔ اس سلسلے میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکت کے لئے عدن کے نائب گورنر احمد الدولائی اسلام آباد سے خصوصی طور پر کراچی تشریف لائے۔ اسلام آباد میں دھند کے باعث احمد الدولائی کی فلائٹ صبح 10 بجے کے بجائے ڈھائی بجے کراچی پہنچی جس کے باعث احمد الدولائی میرے ہمراہ ایئر پورٹ سے سیدھا تقریب میں پہنچے۔ میں کمشنر کراچی شعیب صدیقی اور ایڈمنسٹریٹر کراچی رئوف فاروقی کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے میری درخواست پر صرف ایک دن کے نوٹس پر نہایت پروقار تقریب کا انعقاد کیا۔ بارہ دری میں منعقدہ اس تقریب میں میرے بھائی مراکش کے اعزازی قونصل جنرل اشتیاق بیگ کے علاوہ مختلف ممالک کے سفارتکاروں، اعلیٰ کاروباری شخصیات، معززین شہر، پاکستانی یمنی برادری کے صدر عزیز الخطیری، کراچی میں مقیم یمنی طلباء اور میڈیا کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے بتایا کہ کراچی کو عدن سمیت دنیا کے 16 بڑے شہروں پورٹ لوئس ماریطانیہ، شنگھائی، ہانگ کانگ، جدہ، تاشقند، استنبول، بیروت، ڈھاکہ، ازمیر، ہیوسٹن، مناما، مشہد، پرسٹینا کوسوو، دبئی اور کوالالمپور کے ساتھ جڑواں شہر قرار دیا جاچکا ہے، ان شہروں میں سے زیادہ تر شہر اسلامی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور ساحل سمندر پر واقع ہیں۔ 2 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والا 135 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی پر پھیلا ہوا دنیا کا ساتواں بڑا شہر کراچی، پاکستان کا تجارتی و فنانشل حب ہے جسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی کی 2 بندرگاہوں سے پاکستان اور افغانستان کی سالانہ 60 بلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ یہ شہر قومی خزانے کو تقریباً 62% ریونیو اور مینوفیکچرنگ سیکٹر میں تقریباً 40% ملازمتیں فراہم کرتا ہے جبکہ اس کی گروس میٹروپولیٹن پروڈکٹ (GMP) 265 ملین ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی 21,917 ڈالر ہے۔ حال ہی میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کو 25000 انڈیکس کی حد عبور کرنے پر سرمایہ کاری کے لئے نہایت پرکشش مارکیٹ قرار دیا گیا ہے۔ جڑواں شہر عدن، یمن کے دارالحکومت صنعا کے بعد ملک کا دوسرا بڑا ساحلی شہر ہے جس کی آبادی تقریباً 10 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ عدن کے جدید کنٹینر ٹرمینل پورٹ کو محل وقوع کے اعتبار سے خطے میں نہایت اہمیت حاصل ہے۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی قیادت میں جب پاکستانی وفد نے یمن کا دورہ کیا تھا تو ہمیں خصوصی طیارے سے عدن کے اس جدید پورٹ کا دورہ کرایا گیا تھا۔ یمن کا تاریخی شہر عدن ماضی میں کافی کی تجارت کا مرکز بھی رہ چکا ہے۔ کراچی اور عدن بحری تجارت کے بڑے مراکز ہیں جن کے مابین تعلیم، صحت، سماجی ترقی، شہری منصوبہ بندی، ہائوسنگ، آرکیٹکچر، پورٹس اور میونسپل کارپوریشن کے شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ دونوں شہروں کو جڑواں قرار دینے سے نہ صرف پاکستان اور یمن کے مابین تجارت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو بھی فروغ ملے گا۔
تازہ ترین