• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے چند روز قبل ملک میں توانائی کے بحران کے حل کے لیے متبادل ذرائع سے بجلی حاصل کرنےاور کوئلہ سے بجلی بنانے کے مختلف منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران سے نجات حاصل کی جائے۔ تاکہ ایک طرف تو معیشت کسی طرح مشکل حالات سے نکل سکے اور دوسری طرف اس سے عوام مطمئن ہوسکیں کیونکہ عوام کی اکثریت کو اس وقت سب سے زیادہ بجلی، گیس اور پانی کی قلت نے نہ صرف پریشان کر رکھا ہے بلکہ اس صورتحال سے صنعتی و تجارتی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے خود مسلم لیگ (ن) کے کئی وزراء اور سینئر کارکن نجی محفلوں میں یہ بات تسلیم کررہے ہیں کہ ان مسائل کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔
اس کے باوجود کہ وزیراعظم نوازشریف ہوں یا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف دونوں اپنی اپنی جگہ وفاق اور صوبے میں سرمایہ کاروں کے ماحول میں بہتری اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لئے سرگرم ہیں۔ اس حوالے سے عوام کو تو عملی نتائج سے غرض ہے۔ وہ روز روز MOU یا مختلف معاہدوں سے اس وقت مطمئن ہوسکتے ہیں جب عملی طور پر عوام کو کم از کم بجلی اور گیس اور پانی وغیرہ کی فراہمی صحیح طریقے سے ہوسکے۔ اقتصادی نقطہ نظر سے یوٹیلٹی سروسز کے ٹیرف میں اضافہ اور ان کی قلت سے ایک طرف غربت بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف ڈیپریشن اور پھر اس کے باعث قوم میں برداشت کا عنصر کم ہورہا ہے۔ اس وقت وفاق سمیت تمام صوبوں میں یہ مسائل یکساں نوعیت کے ہیں۔ مگر 18 ویں ترمیم کے بعد سے پنجاب عملی طور گیس کی سب سے زیادہ قلت کا شکار ہے۔ پہلے تین چار سالوں میں پنجاب کو ملنے والی گیس کا کوٹہ کئی گنا کم ہوا ہے۔
یہی صورتحال بجلی کی ہے اس سلسلہ میں ہر سطح پر بجلی اور گیس چوری روکنے کے لیے رول آف لاء اور سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف ان اقدامات سے بجلی اور گیس کی قلت کے بحران میں نہ صرف کمی آسکتی ہے بلکہ حکومتی اداروں کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے لیے یہ اچھا موقعہ ہے کہ وہ بزنس کمیونٹی (چیمبروں اور تاجر تنظیموں) کو اعتماد میں لینے کے لیے ایک نئی حکمت عملی بنائیں، اس لیے کہ بجلی اور گیس کے ادارے یہ رائے اکثر دیتے رہتے ہیں کہ سب سے زیادہ چوری انہی شعبوں میں ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک نئی فورس بنا کر ایسا کرنے والوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ پنجاب میں سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیے جو بھی MOU کیے جارہے ہیں وہ خواہ پاور سیکٹر کے یوں یا دوسرے شعبوں کے؟ ان میں سے 40 فیصد سے 50 فیصد کو یقینی طور پر عملی جامہ پہنایا جائے۔ ورنہ ایک دو سال کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اس حوالے سے ان کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہہے۔
بجلی چوروں کے خلاف ایکشن حالیہ نگران حکومت کے دور سے پہلے جاری تھی اور اس عرصہ میں NAB کے متعلقہ حکام کے بقول صرف پنجاب سے (5) ارب روپے کی ریکوری بھی کی گئی تھی۔ اس دور میں NAB کو وزارت پانی و بجلی کے حکام کی طرف سے روک دیا گیا تھا۔ ہم نے یہ بات یکم جنوری کو وزیراعظم نوازشریف کی وفاقی کابینہ کی موجودگی میں میڈیا بریفنگ میں بھی کہی تھی۔ پنجاب کی طرف سے اس سلسلہ میں وزارت پانی و بجلی پر دبائو ڈالا جانا چاہئے کہ وہ سابق نگران حکومت کے اس حکم نامہ کو منسوخ کرے۔
اس سے حکومت اور عوام دونوں کے کئی مسائل حل کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ رواں سال میں پنجاب کو نئے قومی مالیاتی کمیشن کے قیام اور اس کے ایوارڈ کیلئے ’’سیاسی مالی حکمت عملی‘‘ اپنانا ہوگی۔ اسی لئے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے 2014ء کا یہ سب سے بڑا چیلنج ہوگا کہ تمام صوبے اس نئے ایوارڈ پر مطمئن ہوسکیں۔
میاں شہباز شریف اس حوالے سے ایک ٹیم کا انتخاب کرے جس کو صرف سیاسی نہیں معاشی طور پر وفاق اور صوبوں کے مسائل اور مشکلات کا بھی عبور حاصل ہو۔ اس طرح وہ موسم گرما کے آغاز سے قبل ابھی سے بجلی اور گیس کی مشکلات دور کرنے کے لیے ہفتے میں ایک دو دن مختص کریں تو اس سے اس بات کے امکانات بڑھ سکتے ہیں کہ آنے والے دو تین سال میں انرجی کے بحران کے حل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اس وقت ان مسائل کی وجہ سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور پریشانی موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھ سکتی ہے جبکہ دوسری طرف غربت اور بے روزگاری میں اضافہ سے کئی نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے تو یہ بحران حل ہوگا تو اس سے معاشی ترقی کے دروازے کھلیں گے اور اس سے عوام کے چہرے مطمئن ہوں گے اور سیاسی و مجبوری طور پر حکومت کی پوزیشن بہتر رہے گی ورنہ آنے جانے کی آوازیں لگتی رہیں گی۔
تازہ ترین