• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہو چکیں، غالب! بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
یہ ہفتہ تو اس قدر خونی گزرا ہے کہ اب یقین ہو گیا ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور جنگ بھی ہم پر یکطرفہ مسلط ہے۔ فوجی جوانوں سے لے کر معصوم نہتے شہریوں تک کوئی شخص بھی ان دہشت ناک درندوں سے محفوظ نہیں۔ یہ لوگ شدت سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ہماری حکومت کافی عرصے سے مذاکرات کا راگ الاپ رہی ہے اور وہ بھی بے دلی سے۔ جن لوگوں کو یہ کام سونپا گیا تھا اب انہوں نے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور اس طرح صورت حال مزید گمبھیر ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نے جمعرات کو اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں عسکری قیادت کو بھی دعوت دی گئی تھی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے مؤثر کارروائی کرنے پر اتفاق ہوا اور یہ طے پایا کہ دہشت گردوں سے انہی کی زبان میں بات کی جائے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کیوں کہ حکومت کی طرف سے مسلسل مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں دہشت گردوں کے حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ ایسی صورت میں حکومت کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ کوئی واضح حکمت عملی اختیار کرے جو کہ اب شاید انہوں نے تیار کر لی ہے، اس کے ساتھ ہی پارلیمانی کمیٹی نے تحفظ پاکستان آرڈیننس منظور کر لیا ہے۔ اس کی کچھ شقوں پر اپوزیشن پارٹیوں کو تحفظات ہیں۔ خاص طور پر 90 دن تک کے ریمانڈ سے یہ لوگ خائف ہیں اور انہیں شبہ ہے کہ یہ آرڈیننس ان کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ ایسے قوانین پہلے بھی پاس ہوتے رہے ہیں۔ نیب آرڈیننس میں بھی 90 روزہ ریمانڈ کی شق موجود ہے اور اس قانون میں نیب کی عدالت کو ضمانت دینے کا اختیار بھی نہیں ہے۔ اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور پھر ضمانت کا اختیار ہائیکورٹ کی رٹ جیوری ڈکشن میں چل گیا۔ اسی طرح اب موجودہ آرڈیننس بھی 90 دن تک بلا روک ٹوک گرفتاری/نظربندی کی اجازت دیتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بنیادی انسانی حقوق جن کی گارنٹی آئین میں دی گئی ہے اس سے متصادم ہے مگر اس وقت ہم حالت جنگ میں ہیں اور جنگی صورت حال عام حالات سے مختلف ہوتی ہے۔ اس وقت ایک غیر اعلانیہ جنگ جاری ہے جس میں اصل جنگ کے برابر ہی جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔ ایسی صورت میں دشمن کو پکڑنے کے لئے خصوصی قوانین کی ضرورت ہے۔ ہماری جوانی کے دنوں میں بھی ایسے قوانین ہوتے تھے۔ ایک تو ڈیفنس آف پاکستان رولز (DPR)کہلاتا ہے۔ اس کے تحت ہر سیاسی مخالف کو ملک دشمن قرار دے کر بند کر دیا جاتا ہے۔ مرحوم الطاف گوہر کو بھی بھٹو صاحب نے (DPR) ڈی پی آر میں بند کیا تھا۔ جب انہوں نے اپنا مشہور اداریہ ’’پہاڑ کبھی نہیں روتے‘‘ Mountains Never Weep لکھا تھا، اس اداریئے کی اشاعت پر وہ گرفتار ہو کر جیل چلے گئے تھے۔ ایک دوسرا قانون ’’سندھ کرائمز کنٹرول ایکٹ‘‘ تھا۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت 1990ء میں ختم ہوئی تو جام صاحب کے دنوں میں پیر مظہرالحق کو سندھ کرائمز کنٹرول ایکٹ میں پکڑ کر لے آئے۔ مرحوم جسٹس اللہ ڈینو میمن صاحب کے پاس کیس لگا تو انہوں نے کہا کہ خدا کا خوف کرو، ابھی دو دن پہلے یہ آپ کا وزیر تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتیں اس طرح کے قوانین اپنے مخالفین کو سیدھا کرنے کے لئے بناتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو حکومت یہ قوانین بناتی ہے وہ بہت جلد چلی جاتی ہے اور پھر ان حکمرانوں کے خلاف آنے والی حکومت یہی قانون استعمال کرتی ہے۔ اے ٹی سی (ATC) کا قانون نواز شریف کے دور میں بنا اور پھر اسی قانون کے تحت ان کو گرفتار کر کے طیارہ سازش کیس میں اے ٹی سی (ATC) کورٹ سے سزا دلوائی گئی جسے اس وقت کی ہائیکورٹ نے برقرار رکھا اور اب چوہدری افتخار صاحب کی قیادت میں سپریم کورٹ کے بنچ نے چھوڑا۔ اپوزیشن کی جماعتوں کے ’’تحفظ پاکستان آرڈیننس‘‘ پر تحفظات بجا ہیں لیکن میں پھر یہ کہوں گا کہ تلوار غلط نہیں ہے، اس کا استعمال غلط ہو سکتا ہے۔ اگر تلوار ہلاکو اور چنگیزخان کے ہاتھ میں ہو تو بربریت پھیلاتی ہے، ظلم کے لئے اٹھتی ہے مگر وہی تلوار اگر مولا علیؑ کے ہاتھ میں ہو تو حق کے لئے بلند ہوتی ہے، اللہ کی رضا کے لئے بلند ہوتی ہے، غریب اور مظلوم کی مدد کے لئے اٹھتی ہے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس جاری ہو چکا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ آرڈیننس پاکستان کے دشمنوں کے خلاف استعمال ہونا چاہئے۔ کچھ پولیس افسران جو عوام پر مظالم ڈھانے میں مہارت رکھتے ہیں، اس قانون سے بہت خوش ہیں اور اب اس کی آڑ میں ان کی دکانداری بہت چمک اٹھے گی۔ ہر گرفتار شخص سے پوچھیں گے کہ بتائو تمہیں تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت بند کروں یا پاکستانی قانون کے تحت بند کروں۔ دونوں کا ریٹ الگ، الگ ہو گا اور غریب شہری تحفظ پاکستان آرڈیننس سے بچنے کیلئے منہ مانگے دام دے گا۔ جب ضیاء الحق نے حدود آرڈیننس جاری کئے تھے تو اس وقت پولیس پوچھتی تھی کہ حدود آرڈیننس کے تحت بند ہونا ہے یا ملکی قانون کے تحت۔ حدود آرڈیننس کے تحت بند ہونے والوں کی ضمانت دیر سے ہوتی تھی جبکہ عام قانون والے دوسرے دن نکل آتے تھے۔
آج ملک بھر سے دھرنا ختم ہو گیا ہے جبکہ سنّی تحریک نے بھی تین بجے ہڑتال ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ہر طرف خوف کا سماں ہے، کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہ تو امن و امان کی صورتحال تھی۔ اب گیس کی صورتحال یہ ہے کہ بچّے بغیر ناشتے کے اسکول جا رہے ہیں کیونکہ گیس چولہوں میں نہیں ہے۔ ایسے حالات میں عبدالحمید عدم کا شعر یاد آتا ہے:
اڑ چلیں آئو اس گلستاں سے
یہ چمن مسند بہار نہیں
تازہ ترین