• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوال یہ تھا کہ جمہوری ثقافت کو فروغ دینے میں ذرائع ابلاغ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایم اے کی ذہین طالبہ اپنا فائنل ٹرم پیپر پیش کر چکی تھی اور اب زبانی امتحان کے لئے آئی تھی۔ امتحانی تنائو کی فضا ختم کرنے کے لئے بظاہر ایک سادہ سوال کیا گیا کہ کیا جمہوریت ایک مفید چیز ہے۔ ترنت جواب آیا’’جمہوریت اچھی چیز ہے مگر پاکستان میں آمریت چاہئے۔ آمریت میں ترقی ہوتی ہے، جمہوریت نے ہمیں کیا دیا ہے۔ چند گھرانوں کی اجارہ داری اور پھر ان کے بچوں کی غلامی۔ یہ کونسی جمہوریت ہے جس میں اقتدار وراثت میں ملتا ہے‘‘۔سوال کرنے والا استاد سہم کے رہ گیا۔ بیس بائیس برس کا تعلیم یافتہ ذہن، اچھا سماجی پس منظر اور یہ خوفناک جواب۔ اگر طالب علم بچی نے ملک کے اچھے اداروں میں تعلیم پا کر یہی سیکھا ہے تو طالبہ فیل نہیں ہوئی، استاد ناکامی سے دوچار ہو گیا۔ بچی کو گزشتہ آمریتوں کے کچھ نتائج یاد دلائے گئے۔ کچھ ملکی اور غیر ملکی اعداد وشمار بتائے۔کچھ واقعات کا پیش و پس بیان کیا گیا مگر استاد خود کو ایسا وکیل محسوس کر رہا تھا جو کمرۂ عدالت میں داخل ہوتے ہی مقدمہ ہار چکا تھا۔ اس کے دلائل کی کمانیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ ہمارا کام بچے کو مسائل کا منطقی اور درست تجزیہ کرنا سکھانا تھا۔ ہم یہ قرینہ منتقل کرنے میں ناکام ہو گئے۔ تحریری جواب میں بہت سی اچھی اچھی باتیں لکھی تھیں۔ وہ حروف مگر اب مردہ مکھیوں کی طرح کاغذ پر بے جان نشان لگ رہے تھے۔ امریکہ کے اٹھائیسویں صدر اور پیشے کے اعتبار سے سیاسیات کے استاد ووڈرو ولسن نے کہا تھا کہ یونیورسٹی کا بنیادی کام طالب علموں کو ان کے والدین سے ممکنہ حد تک مختلف کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں بچوں کے ذہن پر معاشرے کے بنائے نقش و نگار کھرچ کر آنے والے زمانوں کا نقشہ مرتسم کرنا تھا۔ زبانی امتحان کی مشق شعوری تفہیم کی جانچ ہی کے لئے کی جاتی ہے۔ ہم تو بچے کو اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں سکھا سکے کہ تحریری امتحان میں ادھر ادھر سے اٹھائے ہوئے اقوال کی جگالی کرنے کے بجائے اپنی حقیقی رائے ہی پیش کر دے۔ جمہوری ثقافت کی پہلو داریاں اور ان کے فروغ کی حکمت عملی کہیں پیچھے رہ گئی۔ یہاں تو ہتھے ہی پر اس بری طرح ٹوک دیا کہ کم از کم میرے تو وضو ٹھنڈے ہو گئے۔
ہمارے ملک میں سیاست دانوں کو برا بھلا کہنے کی رسم 1958ء کے موسم خزاں میں شروع ہوئی تھی۔ جنرل ایوب خان کی نازل کردہ خزاں آج تک صحن گلشن میں ٹھہری ہوئی ہے۔ مارشل لا لگاتو ایسا ایسا عبقری آمریت کے قصیدے لکھنے اور ترانے گانے میدان میں آیا کہ ہمیں پہلی بار پتہ چلا کہ لیاقت علی خان اور عبدالرّب نشتر سے لے کر سہروردی اور فضل الحق تک قائداعظم کے سب ساتھی نااہل محض تھے۔ ان قصیدہ نگاروں کے نام آج بھی ہماری ادبی اور علمی تاریخ کا حصہ ہیں۔ نمونہ مشت از خروارے ملاحظہ ہو۔ مولوی عبدالحق، ممتاز مفتی، شوکت تھانوی، ابن انشا، شاہد احمد دہلوی وغیرہ۔ حرف مزاحمت لکھنے والے بھی موجود تھے۔ ہم نے انہیں غدار قرار دے دیا۔ آج زندہ ہوتے تو ان کی مسخ شدہ یا بوری بند لاشیں برآمد ہوتیں۔ جمہوریت کی مذمت میں دلائل ہٹلر کے جرمنی اور اسٹالن کے سوویت یونین سے برآمد کئے گئے۔یحییٰ خان کے ہوا خواہوں نے جمہوریت پسندوں کی زبانیں گدی سے کھینچ لینے کا اعلان کیا۔ ضیاالحق کے ہوا خواہ تو بنفس نفیس چونا منڈی کے عقوبت خانوں میں جمہوریت پسندوں پر ستم ڈھانے کے کارخیر میں شریک ہوتے تھے۔ وقت گزرتا رہا۔ ایک محب وطن جنرل صاحب تشریف لائے جو ازراہ نفاست فوجی یونیفارم نہیں پہنتے تھے۔ وطن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ 2007ء میں ریٹائرمنٹ کا امکان پیدا ہوا تو اقوام متحدہ میں ملازمت کے لئے سلسلہ جنبانی کیا۔ ٹکے رہنے کا موقع ملا تو اسے دانتوں سے پکڑ لیا۔ بالآخر 2011ء میں ریٹائرہوئے تو خلیج کے ایک ملک میں جا بیٹھے۔ چار برس کے اس وقفہ گل میں موصوف نے جمہوریت کی جڑیں کھودنے کے لئے ایک نیا استدلال ایجاد کیا ۔ وہ بلاول زرداری، حمزہ شہباز اور مونس الٰہی کا نام لے لے کر بتاتے تھے کہ یہ جمہوریت نہیں، موروثی چیستان ہے۔ پچاس برس تک جمہوریت کو لتاڑنے میں ہم نے ایسی مشق بہم پہنچائی ہے کہ اپنا کان چھو کر دیکھنے کے بجائے کتے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ کسی نے یہ سوال نہ پوچھا کہ بلاول، حمزہ اور مونس بندوق کے بل پر تو اقتدار میں نہیں آتے۔ انتخابی عمل کا جو بھی سانچہ میسر ہو، اس میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ موروثی سیاست دان بہرصورت اپنی حکومت کا جواز لوگوں کے ووٹ سے لیتے ہیں۔ عدلیہ کا بازو مروڑ کر عبوری آئینی حکم مسلط نہیں کرتے۔
جمہوریت نام ہی ہر شہری کے اس حق کا ہے کہ وہ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ملکی بندوبست اور اجتماعی فیصلہ سازی میں شرکت کا استحقاق رکھتا ہے۔ حسب نسب سے قطع نظر کسی شہری کو سیاسی عمل میں شرکت سے روکا نہیں جا سکتا۔ خاکسار نے موروثی سیاست کا طعنہ دینے والے ایک سیانے سے عرض کیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور بے نظیر بھٹو کو گولی ماری گئی۔ آصف زرداری نے گیارہ برس قید بھگتی۔ باچا خان پاکستان میں اٹھارہ سال پابند سلاسل رہے اور ولی خان گیارہ برس قید رہے۔ جمہوریت میں وراثت کا یہی تصور ہے، جس میں ہمت ہو، میدان میں آئے۔والدین کا پیشہ اختیار کرنا معاشرت کے قدیمی نمونے کا حصہ ہے۔ جدید معاشروں میں بچوں سے عام طور پر پیشے کے انتخاب میں خاندانی روایت اپنانے کی توقع نہیں کی جاتی لیکن کینیڈی خاندان ،بش خاندان اور کلنٹن خاندان کی مثالیں تو سامنے کی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاست دان باپ دادا کے نقش قدم پر چل کر حریم اقتدار کے مزے لوٹنے سیاست میں آیا ہے یا کسی نصب العین اور ایقان کی حرارت اسے اس دشت میں لائی ہے۔ کسی بھی پیشے کی افادیت اس کے بہترین نمونوں سے پرکھی جاتی ہے۔ نامناسب مثالیں تو ہر پیشے میں ہوتی ہیں۔ فوج میں بھی جنرل یعقوب علی خان ہوتا ہے تو کوئی امیر عبداللہ خان نیازی۔
پاکستان میں جمہوریت کا المیہ موروثی سیاست نہیں۔ یہاں اصل مسئلہ سیاسی حرکیات کی نوعیت ہے۔ جمہوری روایات اور تمدنی مکالمے کی پسماندگی کے باعث یہاں سیاست کا عمومی تصور کسی نظرئیے اور نصب العین کی پاسداری نہیں، استحصالی اور ناجائز معاشی مفادات کی پرداخت ہے۔ چند اعلیٰ نمونوں کے استثنیٰ کے ساتھ پاکستان میں سیاست اپنے خاندانی اور طبقاتی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ سے تعلیم پانے والا صدر مملکت کے عہدے کو پہنچ جاتا ہے لیکن چوٹی زیریں میں پرائمری اساتذہ اور تھانے داروں کے تبادلوں سے آگے اس کی بصیرت کام نہیں کرتی۔ ملک کا وزیر داخلہ اپنے انتخابی حلقے میں پٹواریوں کی فہرست اٹھائے پھرتا ہے۔ غیر جماعتی انتخابات اور آمرانہ سیاست کے مرحلوں نے اس قبیح رجحان کو مضبوط کیا ہے۔ فروری 2000ء میں ان گناہ گار آنکھوں نے ڈیرہ غازی خان کے جس سردار کو شاہراہ آئین پر پیادہ اہلکاروں کے ہاتھوں دھکے کھاتے دیکھا، اب اسے اصرار ہے کہ پریس کانفرنس میں اسے پانچ الفاظ پر محیط دقیانوسی نام سے پکارا جائے۔ امریکہ سے تعلیم پاکر آنے والا وزیر آبائی شہر میں داخل ہوتا ہے تو گوندلانوالہ اور محلہ نور باوا کے کن ٹٹے ہوائی فائرنگ سے گوجرانوالہ کو وزیرستان بنا دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کوٹے میں مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی کی رکن بننے والی لاہور کی ایک خاتون مرنجاں مرنج ریڈیو پروڈیوسر کو سڑک پر زدوکوب بھی کرتی ہے، حج کے مبارک فریضے میں شریک سفر ڈائریکٹر جنرل ریڈیو سے مل کر اکمل شہزاد کو معطل بھی کراتی ہے اور پھر قانونی جواب دہی سے بچنے کے لئے قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں تحریف بھی کرتی ہے۔ جمہوریت کا المیہ موروثی سیاست نہیں، مقامی چوہدراہٹ کے یہ بدنما نمونے ہیں جن کے لئے سیاست اعلیٰ ترین قومی خدمت کا ذریعہ نہیں، محض حسب نسب کے پاسپورٹ پر مفادات کا ویزا ہے۔
تازہ ترین