• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ افریقہ کے کسی پسماندہ ملک کا واقعہ نہیں بلکہ پاکستان کے ترقی یافتہ شہر لاہور کا ہے کہ ایک مریض ہارٹ اٹیک سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں آیا اور ڈاکٹروں نے اسے زمین پر لٹا کر الیکٹرک شاک لگائے، وہ تو رب العزت نے اس کی زندگی لکھی تھی، وہ بچ گیا، مگر ہمارے پی آئی سی کی ایمرجنسی کی سہولیات اس قابل بالکل نہیں کہ یہاں پر مریض بچ کر چلا جائے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف صاحب! آپ ذرا کسی وقت اچانک پی آئی سی کی ایمرجنسی میں بغیر اطلاع اور پروٹوکول اور بھیس بدل کر جا کر تو دیکھیں کہ وہاں ہو کیا رہا ہے؟ یہ واقعہ ہمارے سامنے پیش آیا اور ہم حیران رہ گئے، پچاس بیڈ کی ایمرجنسی، جس میں 18 ویل چیئرز اور 24 ٹرالیاں لگا کر دل کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے، اگر حکومت مشرف کا ٹرائل کر سکتی ہے تو پی آئی سی کے ذمہ داروں کے خلاف بھی سخت ترین کارروائی کرے جنہوں نے آج پی آئی سی کو اس تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ ہسپتال کے بورڈ کے چیئرمین ایک ایسے شخص کو رکھا ہوا ہے جو خود ایک پرائیویٹ ہسپتال میں کام کر رہا ہے۔ یہ ہسپتال دل کے مریضوں کے علاج کے لئے بنایا گیا تھا، مگر افسوس اس کے ذمہ داروں نے صرف اپنی جیبیں بھریں، ایک سابق سربراہ جو اس ہسپتال کے قریب پرائیویٹ پریکٹس کرتا ہے، وہ اپنے کارندوں کے ذریعے مریضوں کو اپنے کلینک پر لے جاتا ہے جبکہ اس کے دور میں غلط ادویات کے استعمال کے نتیجے میں بیسیوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور تاحال مرنے والوں کے لواحقین کو معاوضہ اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، وہ اکثر ہسپتال سے رخصت لے کر صبح کے وقت بھی پرائیویٹ پریکٹس کرتا رہتا ہے، کیا وائی ڈی اے اور دیگر ڈاکٹروں کی تنظیموں نے اس پر آواز بلند کی؟ کیا پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے مریضوں کے مفاد کے لئے پی آئی سی کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن مریضوں کو ریلیف دینے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے اور حکومت اس کے عملے اور عمارات پر جو ماہانہ لاکھوں روپے خرچ کر رہی ہے اس کے مقابلے میں نتائج صفر ہیں۔
ابھی حال ہی میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے بورڈ آف مینجمنٹ کے تین ممبران نے بورڈ کے چیئرمین اور ایک ممبر پروفیسر کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاجاً استعفے دے دیئے ہیں، جس پر حکومت کے کسی فرد نے نہیں پوچھا۔ ہمارے نزدیک کسی بھی سرکاری ہسپتال میں بورڈز بنانے کی ضرورت نہیں، اگر ایم ایس / پرنسپل ہسپتال کا نظام نہیں چلا سکتے تو پھر یہ عہدے بھی ختم کر دیں اور ایک باڈی بنا دیں، کس قدر عجیب بات ہے کہ ایم ایس / پرنسپل کے ہوتے ہوئے بورڈز بنائے جائیں اور پی آئی سی کے بورڈ نے پی آئی سی کو کیا دیا، ذرا اس کا بھی جائزہ لیا جائے۔
پی آئی سی کے معاملات ایک مدت سے بگڑ چکے ہیں، مریض بے حال اور رشتہ دار ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں۔ مگر حکومت پتہ نہیں کیوں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے؟ ویل چیئر پر بٹھا کر ہارٹ اٹیک کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ واپڈا کے مریضوں کو یہاں سے باقاعدہ ایک سازش کے ذریعے پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھیجا جا رہا ہے، جس کے لئے ہسپتال کے نچلے عملے کو ایک پروفیسر جو کبھی یہاں سربراہ تھے اور اپنی حرکات کی وجہ سے یہاں سے ٹرانسفر کئے گئے تھے، تاحال مریضوں کو اپنے ان کارندوں کے ذریعے پرائیویٹ ہسپتال میں لے جاتے ہیں، اس سے واپڈا کو بھی ماہانہ لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے کیونکہ پی آئی سی واپڈا کے مریضوں کا علاج سبسڈی پر کرتا ہے جبکہ پرائیویٹ ہسپتال کوئی سبسڈی نہیں دیتے، غریب مریض یہاں پر انتہائی بدحالی کا شکار ہیں جبکہ پرائیویٹ مریضوں کو علاج، آپریشن کی سہولت فوراً فراہم کر دی جاتی ہے۔
مریضوں کی بہبود فلاح اور ہسپتال کے معاملات کو درست انداز میں چلانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا بورڈ توڑ دیا جائے۔ اس ملک میں برسہا برس تک تمام سرکاری ہسپتال بغیر بورڈ آف مینجمنٹ کے بڑے احسن انداز میں چلتے رہے، بورڈز بنانے سے کسی بھی سرکاری ہسپتال کے معاملات بہتر نہیں ہوتے بلکہ بورڈ کے ممبران تو اپنے مریضوں کے علاج کے لئے ڈاکٹروں پر دبائو ڈالتے رہتے ہیں۔ آج ہر سرکاری ہسپتال کا ایم ایس اور اس کا عملہ صرف پروٹوکول مریضوں کے لئے ہی کام کرتا ہے، ایک سرکاری ہسپتال کے ایم ایس کا عملہ تو باقاعدہ مریضوں کو کہتا ہے کہ کس کی سفارش ہے؟ اگر سفارش ہو تو ایم ایس سے ملایا جاتا ہے ۔ کوئی سرکاری ہسپتال کا ایم ایس غریب مریض کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے نظام کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ سرکاری ہسپتالوں سے بددل ہو کر پرائیویٹ ہسپتالوں میں مجبوراً جائیں، حکومت سے درخواست ہے کہ دل کی واحد علاج گاہ پی آئی سی کے معاملات کو سنجیدگی سے لے کیونکہ دل کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری طرف یہ بات اس قدر تکلیف دہ ہے کہ اپٹما کے سینئر ممبران نے پی آئی سی کے بورڈ کو یہ پیشکش کی ہے کہ وہ 30 کروڑ روپے دے کر اپنی جیب سے 100 بستروں کی ایمرجنسی بنا کر دینا چاہتے ہیں مگر بورڈ کے چیئرمین نے ان کی یہ پیشکش ٹھکرا دی ہے۔ ایک طرف مریض ایمرجنسی میں جگہ نہ ہونے سے مر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ جو یہ کام حکومت پر بوجھ ڈالے بغیر کرنا چاہتے ہیں ان کے کام میں بھی رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ حکومت اس بات کی بھی انکوائری کرائے کہ اپٹما کی ایمرجنسی بنانے کی پیشکش کو کیوں ٹھکرایا جا رہا ہے۔ان کے کام میں کیوں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ اس کے پیچھےکیا کہانی ہے؟پی آئی سی کو پروفیسر زبیر، کرنل سلیم، پروفیسر شہریار، پروفیسر میاں محمد سرور اور پروفیسر ندیم حیات ملک نے انتھک محنت کرکے ایک اعلیٰ پائے کاادارہ بنایا۔ افسوس اس کے بورڈ آف مینجمنٹ نے آج اس کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ دل کی سرجری کے مریضوں کو دو دو سال کی تاریخیں دی جارہی ہیں۔ بچوں کی ہارٹ سرجری کے شعبے کو قائم نہیں ہونے دیاگیا۔ چھوٹے میاں صاحب آپ پی آئی سی کےمعاملات پر کھلی کچہری لگائیں اور انکوائری کرائیں۔ جن لوگوں نے اسے اس حال تک پہنچایا انہیں قرار واقعی سزا دیں تاکہ آنے والوں کو عبرت ہو۔ صرف ایک پروفیسر آف سرجری ہے وہ بھی بیچارہ بیمارہے۔ کیا یہ ظلم نہیں؟دل کے مریض بچوں کو سرجری کے لئے تین تین سال کی تاریخ دی جارہی ہے۔ کوئی تو بورڈ سے پوچھےاگر ان کے کسی عزیز کے بچے کے ساتھ ایساظلم ہو تو کیا وہ برداشت کریں گے؟ حکومت جب تک ہسپتالوں کے بورڈ میں ایسے افراد کو ممبر اور چیئرمین لگاتی رہے گی جو خود پرائیویٹ ہسپتالوں اور پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں کام کرتے ہوں گےان سے کسی صورت بھی سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کی توقع کرنا بالکل لاحاصل ہے۔ تمام میڈیا ایک مدت سے وزیراعلیٰ پنجاب اور محکمہ صحت کی توجہ پی آئی سی کے معاملات اور بگڑتی صورتحال کی طرف دلارہا ہے مگر کوئی اس طرف توجہ نہیں دے رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ پی آئی سی میں غریب مریض رُل گئے ہیں۔
تازہ ترین