• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں ان دنوں پے درپے دہشت گردی کی بدترین گھنائونی وارداتیں ہوئی ہیں جبکہ دوسری طرف پیہم کئی مہینوں سے مذاکرات کا راگ الاپا جارہا ہے۔ فی زمانہ مذاکرات کی افادیت سے کوئی پڑھا لکھا باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا کیونکہ جنگیں مسائل کا حل نہیں باعث ہوتی ہیں اقوام عالم کی تواریخ گواہ ہیں کہ بیسیوں جنگیں لڑنے کے بعد بھی معاملات ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوئے ہیں۔ کولمبیا اور آئرلینڈ سے لے کر سری لنکا کی دہشت گردی تک چلے آیئے معاملات بالآخر مذاکرات سے ہی حل ہوئے۔ جنوبی افریقہ نے بھی امن و آشتی کی فضا مذاکرات اور معافی تلافی کے ذریعے ہی قائم کی۔ اسرائیل اور عربوں کی لڑائیوں میں بھی ٹھہرائو مذاکرات کے ذریعے نصیب ہوا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پاکستان اور انڈیا میں 65ء کی جنگ کے بعد جہاں معاہدۂ تاشقند کرنا پڑا وہیں 71ء کی جنگ کے بعد کھوئے ہوئے علاقوں کی واپسی اور جنگی قیدیوں کی رہائی جیسے معاملات اور ایک نوع کا دو طرفہ سکون شملہ معاہدے سے ہی نصیب ہوا۔
معاف کیجئے یہ تصویر کا محض ایک رخ ہے دوسرا رخ یہ ہے کہ جرم ضعیفی کی سزا ہمیشہ مرگ مفاجات کی صورت میں برآمد ہوتی ہے جو میدان جنگ میں مار کھاتا ہے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر اپنی جیت کا تمغہ سجا سکے۔ اس کے حصے میں خوبصورت یا بدنما ایک طوق ہی آتا ہے۔ اس حقیقت کو ہمارے طالبان بھائی بھی کسی نہ کسی حد تک سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جونہی مذاکرات کی باتیں بڑھتی ہیں وہ اپنی کارروائیاں مزید بڑھا دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے کمزور دل دشمن کو خوفزدہ کرتے ہوئے اپنے زیادہ سے زیادہ مطالبات منوا سکیں۔ دنیا کے تمامتر تلخ تجربات اور ان سے سیکھے گئے اسباق کے باوجود ہر پیش آمدہ واقعہ کواس کے مخصوص تناظر میں دیکھا اور پرکھا جانا چاہئے کسی ایک حل کو اسی نوع کے دوسرے مسئلے پر تھوپا جاسکتا اور نہ تھوپا جانا چاہئے۔ نیز وطن عزیز میں طالبان کی دہشت گردی متذکرہ بالا تمام مثالوں سے جوہری طور پر مختلف ہے یہ کوئی پاپولر عوامی تحریک نہیں ہے۔ اجمالاً پاکستان میں دہشت گردی کی وجوہ متنوع ہیں اس میں جہاں ہماری عسکری آمریتوں کا رول ہے وہیں ہماری کمزور جمہوری حکومتوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم پوچھتے ہیں اب نہیں تو کب؟ آخر ہم کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟
طالبان جمہوریت کو ما نیں یہ نہ مانیںشریعت کا مخصوص برانڈ نافذکرنا چاہیں ہم محض ایک نقطے پر بات کرتے ہیں وہ یہ کہ کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کی خون ریزی اور قتل و غارت گری کو کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کرسکتی۔ اگر قبول کرتی ہے تو ہم اسے بڑی بے توقیر ریاست کہنے پر مجبور ہوںگے ۔ ایسی ریاست کو ریاست کہلانے اور خود کو اقتدار اعلیٰ کی حامل قرار دلوانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ طالبان جو چاہے کہیں یا کریں لیکن انسانی قتل ناقابل برداشت ہے۔ انڈیا کی مثال دی جاتی ہے کہ وہاں کشمیری تنظیمیں اپنی مخصوص ’’جہادی‘‘ سرگرمیوں میں خونریزی بھی کرتی ہیں لیکن انڈین حکومت اپنی تمامتر جوابی کارروائیوں کے باوجود مذاکرات کا ڈول بھی ڈالتی رہتی ہے۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ انڈیا کے بالمقابل ریاست پاکستان کو آج جس نوع کی شدید دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ہمارے کئی تجزیہ کاروں کی یہ کج یا خوش فہمی ہے جو القاعدہ اور اس کے ہمنوائوں کو مختلف پیمانوں سے ماپتے ہیں یا عراق، افغانستان اور پاکستان کی دہشت گردی کو جائز اور ناجائز خانوں میں بانٹنے کیلئے عرق ریزی کرتے نہیں تھکتے۔ عوام کو الجھانے اور مزید کنفیوز کرنے کیلئے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یہ تو سراسر امریکی جنگ ہے اس پرائی جنگ میں ہمیں تو خواہ مخواہ دھکیلا گیا ہے۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ اس تمامتر طوفان کے سوتے ایک ہی منبع سے پھوٹتے ہیں ۔ اس لیے بشمول پاکستان تمام مہذب دنیا کی سلامتی کیلئے نہ صرف یہ کہ دہشت وو حشت کے اس جاہل منبع کو توڑنا ہوگا بلکہ اس کے مفاسد کی روک تھام بھی پیش بندی وپلاننگ کے ساتھ کرنی ہوگی۔ انڈیا کی مثال دینے والے ذرا خالصتان تحریک کا بھی جائزہ لے لیں کہ ریاست نے اس دہشت گردی کا سر مذاکرات سے نہیں آرمی ایکشن سے اس طرح کچلا کہ ایسٹ پنجاب میں دہشت کی وہ تحریک اپنی موت مر چکی ہے۔ بلاشبہ سری لنکا کی سیاسی و عسکری قیادت نے 26 سالہ دہشت گردی میں بڑا نقصان اٹھایا لیکن سری لنکا کی قیادت نے دہشت کے سامنے جھکنے کی بجائے یکسو ہو کر ملٹری آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ وزیراعظم نوازشریف اگر وطن عزیز میں معاشی انقلاب لانا چاہتے ہیں اور اپنے ملک کو امن کا جزیرہ بنانا چاہتے ہیں تو دہشت کے خلاف کھل کر کھڑے ہو جائیں، عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزائوں پر بھی عمل کریں اور آرمی آپریشن میں بھی ایک لمحے کی تاخیر نہ کریں۔
ہمارے جو لوگ اس دہشت کے سرے ڈرو نز سے ملانے کیلئے کوشاں ہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ دہشت گردی، خونریزی اور خودکش حملے ڈرونز کے بعد شروع ہوئے ہیں؟ نائن الیون سے قبل جو کچھ ہورہا تھا اور مابعد جو کچھ ہوا اسے کس کھاتے میں ڈالیں گے؟ یہ تو مذہب کے متشدد گرویدہ و گمراہ لوگوں کا عالمی ایجنڈا ہے جس کی کڑیاں بہت دور تک جاتی ہیں۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ہمارا اپنا بڑھکایا ہوا وہ آتش کدہ ہے جس میں ہم بشمول امریکہ مہذب اقوام عالم کو بھی کھینچ لائے ہیں۔ اس کے اصل مجرم بن لادن یا امیر المومنین ملا عمر جیسے لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ نام نہاد مفکرین و معتدین ہیں جو برسوں عصری تقاضوں سے نابلد مذہب کی شدت پسندی پر مبنی تشریحات کے ذریعے جذباتی ہیجان پھیلاتے رہے۔
پاکستانی قوم اس بات پر خدا کا شکر کرے کہ فی الوقت اس کی عسکری قیادت انگنت زخم کھانے کے بعد اپنے سابقہ ایجنڈے سے دستبردار ہوتے ہوئے اس ناسور کا خاتمہ چاہتی ہے اور اقرار کرتی ہے کہ ہمارا اصل دشمن بیرون میں نہیں اندرون میں ہے۔ لہٰذا جو ہتھیار پھینک کر امن کی بات کرنا چاہتا ہے دس قدم آگے بڑھ کر اس سے بات کریں لیکن بارود کے مقابلے میں گلاب کے پھول یا مذاکراتی پھلجڑیوں سے باز آجائیں مت بھولیں کہ دہشت گردوں سے بھی زیادہ خطرناک رول ان کے حماتیوں کا ہے ان تمام ڈرامے بازوں کو پہچانیں میڈیا قوم کو مزید کنفیوز کرنے سے گریز کرے۔ہم سب مل بیٹھ کر سوچیں کہ تنقید کے خلاف یا رائے پر موت کی دھمکیاں کیا اس کے بعد قومی بربادی میں کوئی کسر رہ جاتی ہے۔
پلاننگ اس طرح کی جائے کہ جس میں فورسز کا نقصان کم سے کم ہو خطرناک زمینی دشواریوں میں ڈرون ٹیکنالوجی یا فضائی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ اتحادی و افغان انتظامیہ کی سٹرٹیجک سپورٹ اور کوآرڈنیشن پر توجہ دینی چاہئے نیز ردعمل میں ہونے والی کارروائیوں پر پیشگی منصوبہ بندی کر لی جائے۔ ہاتھ پکا ڈالا گیا تو موت کے سوداگر ہتھیار پھینک کر امن عمل کا حصہ بننے پر ضرور سوچیں گے یہ پیش نظر رہے کہ انسانی جان سے مقدس کائنات میں کوئی چیز نہیں روز اول ملائکہ کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ آج بھی عظمت انسانی کے منکروں سے شرف انسانی کو منوانا ہمارا اصل مدعا ہونا چاہئے۔
تازہ ترین