• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم دانشوردوست نے گویادل دہلا دیا کہ’’ طالبان کا عفریت جو قوت پکڑ چکا اس کی بیخ کنی ضروری، ریاست غرق ہوتی ہے تو ہو جائے‘‘۔ میرے ذہنی تنائومیں اضافہ گویاکہ دشمن کے جال میں بالآخر وطن ِ عزیز پھنس چکا ۔ امریکہ بہادرنے 11ستمبر 2001کے واقعہ کے اردگرد جھوٹ اورگمراہ کن معلومات کا حصار کھڑا کرکے ایک نہیں ، دو ملکوں کو فتح کررکھا ہے ۔ 12سال بیت گئے ، افغانستان اور پاکستان دونوں حالت ِ بے یقینی میں، مستقبل کے بارے میں وسوسوں اور خدشات کا شکار۔ کہنے کو ڈرون حملے اور پاکستانی فوج کے آپریشن میں ہزاروں نامی گرامی دہشت گرد لقمہ اجل بنے، مگر زمینی حقائق اپنی جگہ کہ ریاست آج گرینڈآپریشن کرنے پر مجبور۔
پچھلے ہفتہ منگل کو چنگھاڑتے جنگی طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹر دہشت گردوں کی کمین گاہوں میر علی اور دتہ میںموثر کارروائی کرچکے ،یہ فوج کے خلاف دو خودکش حملوں کا منہ توڑ جواب تھا۔مبینہ دہشت گرد عدنان رشیداصل نشانہ ،اطلاعات متضاد کہ عدنان رشید مارا گیا، اگلے دن میر علی کے بازار میں گھومنے پھرنے کادعویٰ بھی ہوا۔پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق بمباری صرف مشکوک ٹھکانوں تک محدود تھی، نشانہ عدنان رشید سمیت دیگر دہشت گردجو درجنوں وارداتوں ، ٹارگٹ کلنگ اور جیل توڑنے میں ملوث تھے ۔ مقامی قبائلی عمائدین اورقومی میڈیا نے ایسی بمباری پر تحفظات کا اظہارکیاکہ عام شہریوں کے مرنے کی تصدیق ہوئی ۔ ماضی میں سوات اور باجوڑ وغیرہ جہاں توپ خانہ ، گن شپ ہیلی کاپٹر کا بے دریغ استعمال رہا، مقامی شہریوں وعمائدین نے کیڑے نکالے ،بے شمار سوالات نتھی کئے ،اہم بات کہ بوجوہ آپریشن مقامی آبادی دیگر شہروں میں منتقل ہو ئی۔ خدشہ کہ نئے آپریشن کے بعد یہاں بھی مقامی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہو جائے گی۔
واشنگٹن پوسٹ کے نمائندہ بل روگی(Bill Roggi) نے 21جنوری کو لکھاکہ ’’مغرب اور امریکہ کامسلسل مطالبہ کہ وزیرستان میں آپریشن کرو،دبائو اپنے اثرات دکھا رہا ہے‘‘ ، بقول روگی ’’پاکستانی فوج ہمیشہ متذبذب اور ٹال مٹول کا شکار رہی ، وجہ صاف ظاہر کہ حافظ گل بہادر اور حقانی نیٹ ورک کا ہدف امریکہ اور بھارت نہ کہ ریاست ِپاکستان ،کہ ایسے طالبان افغانستان میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا توڑ‘‘۔ اس سے قبل جب اسلام آباد میںنصیر الدین حقانی کا قتل ہوا،گو معاملہ دبادیاگیا ،مگرپاکستانی اسٹبلیشمنٹ امریکہ کے درمیان نئے تنائو کا باعث ضروربنا کہ قتل کے ڈانڈے سی آئی اے اور بلیک واٹر سے ملتے تھے۔ Jeremy Scahill کی نیشنل پالیسی کے لیے سیرحاصل تحقیق’’(The Secret US War in Pakistan) آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ،نہ صرف CIA اور بلیک واٹر کے کرتوتوں کو اجاگرکیا بلکہ بتایا کہ CIA اور بلیک واٹر کراچی یا پشاور ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں میںگوڈے گوڈے ملوث ہے۔
چوہدری نثار کا سوموار کو پارلیمینٹ میں بیان کہ’’ پے درپے واقعات نے ثابت کیا کہ ایک تیسرا ہاتھ ہے جو مذاکرات کو ناکام اورہمیں آپریشن پر مجبور کر رہا ہے‘‘۔ آپریشن کے لیے امریکی دبائو کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔3سال بعد واشنگٹن میں تزویراتی مذاکرات کی بحالی نے آپریشن کی کوکھ ہی سے توجنم لیا ہے۔امریکی عجلت اور ضرورت قابلِ فہم۔ افغانستان میں2014 کے بعد کی صورتِ حال ، فوج کی تعداد، اڈوں کی تعداد،نئی منصوبہ بندی ،بے یقینی اور تعطل سے نکلنا امریکہ کی ہنگامی ترجیح ۔ پچھلے دس سال آپریشن اور ڈومور کی دہائی کا مطلب مشرقی سرحدوں کو خالی کرو اور اپنے آپ کو بھارت کے رحم وکرم پرچھوڑو کہ بغل بچہ اور دست ِنگربننا ضروری ۔ اگلے 100 سال خطہ میں امریکی پڑائو طے شدہ اس کے لیے حفاظتی اقدامات اشد ضروری ۔ڈیڑھ لاکھ سے کچھ اوپر فوج 2003 سے براجمان، F-16 اور گن شپ ہیلی کاپٹر ، ہیوی توپ خانہ ، کچھ بھی تو امریکی آسودگی کا باعث نہ بن پایا۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ وطن ِ عزیز میں دہشت گردی ساری حدیں ٹاپ چکی ، جانوروں کی سرکوبی قومی مجبوری،دہشت گردوں سے مجھے صرف اتنی دلچسپی کہ ان کاتیا پانچہ کرنا ضروری۔خونِ ناحق ہاتھوں سے آستینوں تک پہنچ چکا جبکہ پکار ساتویں آسمان کو چیر رہی ہے۔ لیکن اکابرین، قائدین ، ٹھیکدار دانشور کی ایسی ہاں میں ہاں ملانے سے قاصر کہ’’ ریاست ٹوٹتی ہے تو ٹوٹ جائے دہشت گردوں کا قلع قمع ضروری‘‘، انتہائی عامیانہ ،سطحی،غبی یا مکارانہ اپروچ ۔حضور! ’’دہشت گردوں کا قلع قمع ضرورمگرپاک فوج اوروطن کو نقصان پہنچائے بغیر ‘‘۔قبائلیوں پر مشتمل فوج تشکیل پائے گی توسانپ بھی مرے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ حالتِ جنگ میں اس سے پہلے بھی کئی بارقومی ملیشیااور دفاعی رضاکار سکیمیں بنیں،چنانچہ محسود کے لیے محسود ہی ڈھونڈنا ہو گا۔ قبل ازیں وانا اورجنوبی وزیرستان میں وزیریوں نے کامیابی کے ساتھ دہشت گردوں اورغیرملکیوں کوچُن چُن کر نکال باہر پھینکا ۔
ہماری مقدس فوج بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے وجود میں آئی۔ اس کے اجزائے ترکیبی بھارتی جارجیت کے جواب میں ترتیب پائے ۔ ایئر فورس، نیوی، ایٹمی اثاثے، چھوٹے ایٹمی ہتھیار ، ٹینک، توپ خانہ،میزائل سسٹم،بھارت ہی سامنے ۔فوج کو سوات، باجوڑ، میراں شاہ ، میرعلی ، مہمند ایجنسی بھیجنا دشمن کے عزائم کو پروان چڑھانے کے مترادف ۔سندھ کھپے کی کامیاب مہم کے بعد بلاول صاحب کا برطانوی میڈیا کو انٹرویو کس کو خوش کرنے کے لیے ، حضور جو مطالبہ آپ وزیراعظم نواز شریف سے کر رہے ہیں ،پچھلے پانچ سال اپنے والد صاحب سے کیوں نہیں کیا، تب زبان گنگ کیوں تھی؟ہماری خوش قسمتی کہ زرداری صاحب اور جنرل کیانی ’’آپریشن نہ کرنے‘‘ پر ایک صفحہ پر تھے یا’’آپریشن کرنے‘‘ پر ایک صفحہ پر نہ تھے،چنانچہ امریکہ کی مایوسی بھی دیدنی۔
1971 کا بھیانک سال کیا سبق چھوڑ گیا؟ 25/26 مارچ کی درمیانی رات مشرقی پاکستان میں ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ جو 10 اپریل 1971تک جاری رہا،مقصد وطنِِ عزیزکو دہشت گردوں سے بچانا تھا، 11 اپریل کوتوراوی نے چین ہی لکھا۔
16 دسمبر 1971 سقوطِ مشرقی پاکستان کا ایسا گھائو کہ میری نسل آج تک جانبر نہ ہو سکی ،آج بھی ہزیمت ،ذلت اور رسوائی کے زخم چاٹ رہی ہے۔ ذلت آمیز شکست کو مغربی پاکستان میں کوئی بھی قبول کرنے پر تیار نہ تھا کہ ناقابلِ تسخیر فوج پر زُعم۔ آپریشن ’’سرچ لائٹ ‘‘پر ریاست بظاہر مربوط قلعہ نظر آئی لیکن چند ماہ بعد 16 دسمبر کوریت کا گھرثابت ہوئی۔ جنگ دسمبر نے ہمارے تزویراتی اسلوب ( Stretegic Doctrine)کا بھی بھانڈہ پھوڑدیا۔سانحہ مشرقی میں ملوث سارے سیاسی وعسکری کرداروں کو میری نسل آج بھی غدار گردانتی ہے ۔ پاکستان ٹوٹنے کا ’’لائیو شو‘‘ اگر نہ دیکھا ہوتا تو آپریشن کے ہنگام کو عافیت جانتا ۔دہراتا ہوں کہ طالبان سے نبٹنے کے درجنوں طریقے موجود،بذریعہ افواج نبٹنا ناقص ترین اور انتہائی خطرناک۔ امریکہ کی خواہش کہ فوج علاقے میں ملوث رہے تاکہ کئی سال پھنس جائے۔سوچنے کی بات کہ دہشت گردوں کی اکثریت کی لگامیں امریکہ کے ہاتھ میںاور ہمارے پر آپریشن کادبائو ، ایسا کھلا تضاد کیوں؟ہماری قومی قیادت جو دس سال پہلو تہی کرتی رہی آج قلابازی میں عافیت کیوں جان چکی؟ محترم وزیراعظم کا غصے میں چشمہ پٹخنے کی دیرتھی کہ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی سجدہ ریز ہو گئی’’ یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت ِ قیام آیا‘‘۔عمران خان نے بھی ’’اگر مگر‘‘ کے ساتھ ہتھیار ڈال دئیے کہ بھتہ خوری، جرائم ، قتل وغارت اور دہشت گردی میں ملوث گروہ اسمبلی کے فلور پر آپریشن کی دردکا شکار ،آپریشن کرنے میں ان کی اپنی عافیت ،’’ پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانوں سے‘‘۔ لیڈروں کے پاس جلاوطنی کی سہولت کہ جب بھی کڑا وقت آیا ،ملک وقوم اللہ کے سپرد خود بیرون ملک سدھارے، ’’اُڑ جارے پنچھی کہ دیس ہوا بیگانہ‘‘۔18 کروڑ لوگوں جاگتے رہنا ان پہ نہ رہنا۔عوام الناس کی بے حسی اور سیاستدانوں کے ہاتھوںکھلونا بننے کی اہلیت وصلاحیت کی بھی دادکہ موجودہ مشکلات میں ان کا حصہ بھی۔
میری دلی دعا کہ اللہ ہماری افواج کی حفاظت کرے کہ مملکت ِ اسلامیہ کی سلامتی کی آخری گارنٹی۔ اللہ آپریشن کو ضرور کامیاب کرے مگرریاست کو بچانا ہی اولین ترجیح ہو(آمین)۔
تازہ ترین