چھٹی کا دن تھا، غزہ سے اٹھنے والی آہوں پہ آنکھیں نم تھیں اور مسلمان حکمرانوں کے شرمناک رویوں کے سبب دل افسردہ تھا۔ میں نے اپنے شاگرد عزیز، شیراز علی خان کو ساتھ لیا اور وہاں پہنچا جہاں درویش دنیاوی مفادات سے مبرّا ہو کر تشریف فرما تھا۔ اس روز درویش یوں مخاطب ہوا،اے میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اکثر سوچتا ہوں ،آپ نے اپنے آخری خطبے میں یہ فرمایا کہ’’لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ آج کے دن کی، اس شہر اور اس مہینہ کی حرمت ہے۔ دیکھو عنقریب تم نے خدا کے سامنے پیش ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاؤ‘‘۔ اے پیارے رسول ﷺآپ نے غدیر کے مقام پر بھی کچھ اعلانات فرمائے تھے۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فضا میں بلند کر کے یہ فرمایا تھاکہ ’’جس کا میں مولا اس کا علی مولا۔ میرے بعد علی کے پیچھے چلنا، جدھر علی ہوتا ہے ادھر حق ہوتا ہے‘‘۔ اے پیارے رسول ﷺآپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ’’میں تمہارے درمیان کتاب اللہ اور اپنی عترت چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان دونوں سے جڑے رہنا‘‘۔ اے میرے پیارے رسولﷺ میرا کسی فرقے سے کوئی تعلق نہیں۔ میں ایک سادہ سا مسلمان ہوں لیکن اکثر سوچتا ہوں جب آپ نے اپنی امت کو منع فرما دیا تھا تو وہ کیوں ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں؟ جب تفرقہ بازی سے کتاب اللہ میں منع کر دیا گیا تھا تو پھر یہ فرقے کہاں سے پیدا ہو گئے؟ اے پیارے رسول ﷺمیں اکثر سوچتا ہوں کہ آپ کے فرمانے کے باوجود یہ امت مولا علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے کیوں نہ چلی؟
میرا سب کچھ آپ پر قربان،آپ نے فرمایا تھا ایک دوسرے کے گلے نہ کاٹنا مگر آپ کی امت تو آپ کے خاندان پر ہی چڑھ دوڑی‘‘۔ بزرگ نے ٹھنڈی سانس لی اور پھر بولے’’میں اکثر سوچتا تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ لوگ مدینے سے کیوں نہ چل سکے اور جب کربلا میں یہ واقعہ ہو رہا تھا تو اتنی بڑی اسلامی سلطنت میں لوگ چپ کیوں تھے؟ کیا حکمرانوں کا خوف اتنا زیادہ ہوتا ہے؟ کیا حکومتی اداروں میں کام کرنے والے لوگ اتنے بے بس ہوتے ہیں کہ ظلم کرتے وقت ان کے ہاتھ میں لغزش تک نہیں آتی حالانکہ ہر کسی کو انفرادی طور پر اپنے عملوں کا جواب دینا پڑے گا۔‘‘ درویش کچھ دیر کے لئے چپ رہے، ہر طرف سناٹا تھا، سکوت ٹوٹا تو وہ کہنے لگے ’’ یہ احادیث میں نے آپ کو جان بوجھ کر سنائی ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ فرمودات وصال سے چند ماہ پہلے کے ہیں۔ آج آپ غزہ پر رو رہے ہیں، کیا ماضی میں مسلمانوں نے مسلمانوں کے گلے نہیں کاٹے؟ کیا مسلمان تارک قرآں نہیں ہو چکے؟ کیا مسلمانوں نے رسول ﷺکی عترت کا خیال رکھا؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ محض مال کی محبت میں مسلمان ملکوں کے غلام حکمرانوں کے ہونٹ سل چکے ہیں۔ غلامی سے بری زندگی کوئی نہیں ہوتی بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہےکہ’’ ذلیل ترین انسان وہ ہے جسے حق اور سچ کا پتہ ہو اور وہ پھر بھی جھوٹ کے ساتھ کھڑا ہو‘‘۔
اس فرمان کی روشنی میں مسلمان ملکوں کے غلام حکمرانوں کا کون سا مقام ہے؟ کس قدر شرم کا مقام ہے کہ پونے دو ارب مسلمان خاموش کھڑے ہیں اور وہ فلسطینی بچوں کو پانی کی ایک بوتل بھی نہیں دے سکتے حالانکہ رسول پاکﷺ نے فرمایا تھا کہ’’ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جب جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم درد میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘ لیکن آج کے حالات بتاتے ہیں کہ مسلمان ایک جسم کی مانند نظر نہیں آ رہے، وہ مفادات کی چکی میں غلام بن کر پس رہے ہیں۔ شاید اسی لئے غزہ والے کہہ رہے ہیں، تم ہمارے جنازے نہ پڑھنا، ہم تو زندہ ہیں البتہ تم مر چکے ہو۔ درویش نے پہلو بدلا اور کہنے لگے’’غزہ کے شہدا کے جسموں سے عنبر اور مُشک سے کہیں زیادہ تیز خوشبو اس لئے آرہی ہے کہ ان کا مقام صدیوں پہلے رسول پاکﷺ نے بتا دیا تھاکہ’’ میری امت کی ایک جماعت دمشق کے دروازوں کے ارد گرد، بیت المقدس اور اس کے اطراف میں ہمیشہ دشمنوں سے جنگ کرتی رہے گی۔
لوگوں کا انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دینا، انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا،وہ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی‘‘۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو پونے دو ارب چپ چاپ مسلمان ہیں،کیا انہیں خبر نہیں کہ قرآن پاک میں 484 بار جہاد کا حکم آیا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ مسلمان ملکوں کے غلام حکمران اللہ اور پیارے رسولﷺ کے روبرو کیا کہیں گے؟ میں تو روز حشر اللہ اور رسول ﷺکے سامنے یہ عرض کروں گا کہ میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے لئے تڑپتا رہا، مجھے دنیا کے سرحدی نظام نے فلسطین تک نہ پہنچنے دیا۔ میں آواز بھی بلند کیا کرتا کہ میرے مسلمان ملکوں کے غلام حکمران میرے دشمن تھے۔ ان غلام ملکوں کی حکومتی مشینری میں کام کرنے والے افراد، یزیدی فوج جیسے ہی تھے۔ بہت سے لوگوں کے کردار کوفیوں جیسے تھے۔ یہ کردار 28سال پہلے بھی کوفیوں جیسے ہی تھے جب اقوام متحدہ کی چھتری تلے بوسنیا کے ایک میدان میں 50 ہزار مسلمانوں کو لمحوں میں شہید کر دیا گیا تھا، ایسی صورتحال میں مجھے انور مسعود کا شعر یاد آتا ہے کہ
اتنے بھی سفاک منافق کب دنیا نے دیکھے تھے
کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)