• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاسوسی ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ اپنے پیاروں کی تلاش اور ان کی رہائی کیلئے دنیا کی تاریخ میں ایک بڑا لانگ مارچ کوئٹہ سے اسلام آباد دو ہزار میل مسافت پا پیادہ طے کرنے والے ماما قدیر اور ان کے ساتھی مرد و خواتین کے منہ پر موجودہ نواز شریف حکومت کی طرف سے متعارف کردہ پی پی او یعنی پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس (ترمیم شدہ) ایک طمانچہ ہے۔ اس آرڈیننس یا انتہائی ظالمانہ قانون میں لاپتہ لوگوں کی غیر قانونی و غیر آئینی نظربندی کو قانونی و آئینی بنانے اور اب تک ہونے والی ماورائے آئین و قانون بلکہ ماورائے عالمی قوانین و خلاف انسانیت جرم کے زمرے میں آنے والی گمشدگيوں اور ان کے ذمہ دار اداروں، اہلکاروں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ماورائے پاکستانی آئین و قوانین خواہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں اور خلاف انسانیت جرائم کے زمرے میں آنے والا یہ نام نہاد تحفظ پاکستان آرڈیننس ان گمشدہ پاکستانی شہریوں اور ان کی گمشدگی پر ان کی مائوں بہنوں کے آنسوئوں، مردہ جسموں اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں واپس ہونے والے بلوچوں و دیگر لاپتہ لوگوں پر ریاست کی سفاکی کا فسطائی قہقہہ ہے۔
ایک آمر کے پروردہ حکمرانوں سے آپ کیا توقع کرسکتے ہیں پاکستان کے لوگو! کیا آپ واقعی سنجیدگی اور یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ ظالمانہ قانون واقعی پاکستان کا تحفظ کر سکے گا یا اس کے شکار لوگوں کو پاکستان سے اور زیادہ بیزار و دور کردے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریٹائرڈ ہونے کی دیر تھی اور خود کو اسپتال میں دل کے درد میں داخل کرانے والا ایف سی کا ڈی جی بھی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اٹھ آیا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل آئین و قانون کی حدود میں نہیں ماورائے ائین و قانون ریاستی رٹ میں ہے۔ایف سی کے سربراہ کے ایسے بیان کے چوبیس گھنٹوں بعد ایوان صدر سے ریاستی و سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں لوگوں کی گمشدگيوں کے تحفظ کا آرڈیننس نافذ کردیا گیا۔ پاکستان کے شہریوں کو قانون و ریاست کے رکھوالوں کے ہاتھوں ڈاکوئوں کی طرح اغوا اور اغواکاروں کے تحفظ کو بدقسمتی سے پاکستان کے تحفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ملک کے بانی کے اصولوں اور افکار سے بھی مذاق ہے جنہوں نے کہا تھا ’’پاکستان کے اندر کسی بھی شخص کو عدالت قانون سے رجوع کئے بغیر ایک سیکنڈ کیلئے بھی نظربند یا قید نہیں رکھا جا سکتا‘‘۔
نیز یہاں تحفظ پاکستان کے نام پر کسی بھی شخص کو ریاستی و سیکورٹی ادارے تین ماہ تک کسی بھی عدالت سے رجوع کئے بغیر قید رکھ سکتے ہیں اور اٹھائے جانے والے شخص کی قید کی جگہ خفیہ ہو گی۔ جیسے اب تک ہزاروں گمشدہ لوگوں کی برسوں سے گمشدگیوں کے مقامات اور گم کردہ ادارے معلوم ہوتے ہوئے بھی نامعلوم بتائےجاتے ہیں۔راتوں کو ان کی چیخیں کہیں چڑیا گھروں کے جانور بھی سنتے ہیں۔تحفظ پاکستان آرڈیننس ایسے بدنام زمانہ قوانین کا تسلسل ہے جب پاکستان ڈیفنس رولز یا ڈی پی ار ذوالفقار علی بھٹو سمیت پاکستان میں اس کے پیشروئوں اور اس سے قبل غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی استعماری حکومت نے نافذ کئے تھے جن کے تحت خان عبدالغفار اور جی ایم سید سمیت وقت کی حکومتوں کے ہزاروں سیاسی مخالفین قید کئے جاتے رہے تھے۔
حبیب جالب کی نظمیں شوق کے ساتھ لیکن غلط انداز میں پڑھنے والے حکمران کبھی حبیب جالب کی ان سطروں کو بھی اپنے ضمیر کے ترازو میں تول لیتے :
تم سے پہلے جو یہاں ایک شخص تخت نشیں تھا
اس کو بھی خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
اس سے قبل جب سے ملک بنا تو حکمرانوں نے چوراچکوں، غنڈوں، بدمعاشوں کو کم اور اپنے سیاسی مخالفین کو کبھی پبلک سیفٹی ایکٹ، تو کبھی کرائم کنٹرول ایکٹ، تو کبھی فرنٹیئر ایکٹ، تو کبھی کرمنل ٹرائبز ایکٹ، تو کبھی ڈیفنس آف پاکستان میں قید رکھا۔ برسبیل تذکرہ آزادی کے ابتدائی سالوں میں ہزاروں سالوں سے سندھ کے جم پل سیکڑوں معزز ہندو شہریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربند رکھ کر ان کی آزادی فقط بھارت نقل مکانی کرنے پر عمل میں لائی گئی تھی۔ وہ درویش منش سادھو واسوانی بھی جس نے جناح صاحب کے فوت ہونے پر برت یعنی روزہ رکھا تھا اور قرآن کی تلاوت کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اسّی سال کی عمر سے زائد کے بزرگ ہندو شہری اور حیدرآباد دیال داس کلب کے صدر کو کسی ذاتی رنجش اور غلط سی آئی ڈی رپورٹوں پر ڈیفنس اف پاکستان رولز کے تحت نظربند رکھا۔ آپ فوجی آمر ضیاء کو کچھ بھی کہیں لیکن اس نے بغض معاویہ میں ہی سہی ڈیفنس آف پاکستان رولز ختم کرتے ہوئے سیکڑوں سیاسی قیدیوں کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ آج اس کی باقیات نے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں بلوچوں سمیت دیکر گمشدگان کو غائب رکھا ہوا ہے۔ حال ہی میں مستونگ کے قریب دہشت گرد حملوں میں نیویارک میں رہنے والی نوجوان ہزارہ خاتون سماجی ورکر شازیہ کا پولیس والا بھائی بھی شامل تھا جو اپنے دوسرے ساتھی پولیس والوں کے ساتھ حملہ آور کے خلاف زائرین کی حفاظت کرتے قتل ہوا۔ یہ دکھی بہن کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی نسل کشی سے بھاگ کر ترک وطن پر مجبور ہوئی۔
ان قاتل جتھوں پر تحفظ پاکستان آرڈیننس کا اطلاق کیا ہوا۔
یہ تو وہ حکمران ہیں جنہوں نے سندھ میں ٹنڈو بہاول میں وردی والوں کے ہاتھوں ہلاک کئے جانے والے نو ہاریوں کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا تھا- اب اغوا کئے جانے والوں میں جب اغوا ہوئے تو مائوں کے ساتھ شیر خوار بچوں کو بھی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے نام پر غیر معینہ مدت تک زیر قید و تشدد رکھا جائے گا۔ ابھی پی پی او یا تحفظ پاکستان آرڈیننس جیسے قانون پر صدر ممنون حسین کے دستخطوں کی سیاہی ہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بلوچستان کے خضدار علاقے توتک جہاں اسٹیبلشمنٹ حامی مسلح جتھوں بمشمول شفیق مینگل گروپ کی دہشت قائم ہے وہاں سے اجتماعی قبر برآمد ہوئی ہے جہاں پندرہ کے قریب تاحال گمنام مسخ شدہ لاشوں کو ایک جگہ دفن کردیا گیا تھا۔ زیادہ تر قیاس آرائی یہ کی جارہی ہے کہ یہ اجتماعی قبر میں دفن کی گئی لاشیں گمشدہ بلوچ قوم پرستوں یا علیحدگی پسندوں کی ہوسکتی ہيں۔ اگرچہ آزاد ذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے لیکن سرکاری یا غیر سرکاری طور ، علاقے کے صحافی ( وہ علاقہ جہاں صحافی رپورٹنگ پر قتل کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ہوں کہ شدت پسند مسلح علیحدگی پسندوں یا اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ قاتل جتھوں کے ہاتھوں) اجتماعی قبر اور اس میں دفن کی گئی پندرہ لاشوں کی دریافت کے علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کے حوالے سے بھی تصدیق کرتے ہیں۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز والے ان برآمد ہونے والی پندرہ لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ اقوام متحدہ کے زیر انتظام کرانے کا مطالبہ کرتے سنے جاتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوا ہے جب بلوچستان میں بے بس ڈاکٹر مالک کی حکومت شورش زدہ صوبے میں اسٹیبلشمنٹ نواز مسلح جتھوں کو غیر مسلح کرنے کی باتیں کر رہی تھی۔
ظاہر ہے کہ اجتماعی قبروں میں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں سے پاکستان کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ایسا ماضی میں کبھی ممکن ہوسکا نہ افغانستان میں ، نہ عراق و شام میں نہ ہی کشمیر اور کمبوڈیا میں جہاں بھی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں۔بلوچوں کی مسخ شدہ اجتماعی قبروں کی برآمدگی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو معاملے کی تحقیقات اور اس میں انسانی حقوق کے حوالے سے مداخلت کے مطالبے کی پٹیشن پر پاکستان کے دیگر صوبوں میں روشن خیال اور امن دوست لوگوں نے بھی دستخط کئے ہیں جن کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی اور زبانوں و خیالات سے ہے۔
’’جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان گیا‘‘ اگر حبیب جالب آج ہوتے تو پنجاب میں ماما قدیر کے پیدل مارچ میں ہمقدم ہوکر اپنی ایسی نظمیں پڑھ رہے ہوتے۔
لیکن تخت لاہور کی بےرحم اکثریت والی حکومت سے نام نہاد چھوٹے صوبوں اور قومیتوں کو انصاف کی توقع تاحال حسب ماضی عبث ثابت ہوئی ہے۔ وہ صرف زرداری کے ساتھ میوزیکل چیئر میں واری وٹے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ کتنے سندھی اور شیعہ عقیدے کے لوگ حکمران پارٹی کی قیادت میں شامل رہ گئے ہیں؟ کتنے ہزارے ہیں۔بلوچ اپنی سرزمین پر جلاوطن ہیں۔ جس کی ایک مثال ڈیرہ موڑ کشمور کے قریب بگٹی قبائل کے مرد عورتیں اور بچے سردی میں ٹھٹھرتے اپنے گھروں کو ڈیرہ بگٹی جانے کو بیتابی سے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ یہاں کوئی طاہر القادری نہیں تو میڈیا کی بھی کوئی کوریج نہیں۔
تازہ ترین