• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ء کے آئین کی شق38(ف) میں کہا گیا ہے کہ عام آدمی کی سماجی اور معاشی بہتری کے لئے ریاست کو اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ جتنا جلد ممکن ہو (معیشت سے) ربوٰ کا خاتمہ کردیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت نے 14؍نومبر1991ء کو یہ فیصلہ دیتے ہوئے کہ سود بھی ربوٰ کے زمرے میں آتا ہے، سود پر مبنی متعدد ملکی قوانین کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ نوازشریف کی پہلی حکومت کے دور میں اس فیصلے کے خلاف (جس میں سود کو حرام قرار دینا بھی شامل تھا) سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر کی گئی تھی۔21؍برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اعلیٰ عدلیہ نے حتمی طور پر یہ فیصلہ نہیں دیا کہ سود کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے یا نہیں چنانچہ وطن عزیز میں سودی نظام پوری آب و تاب سے فروغ پارہا ہے۔ اس مدت میں مختلف حکومتوں بشمول موجودہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے آئین پاکستان کی مختلف شقوں بشمول شق 3اور 227سے متصادم جو پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں اور جس طریقے سے معیشت و بینکاری کے نظام کو چلایا جارہا ہے اس کی روشنی میں یہ کہنے کے لئے ہم اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ:(i)موجودہ صدی میں بھی پاکستان کی داخلی معیشت سے سود کا خاتمہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔(ii) حکومت اور اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے تحت گزشتہ گیارہ برسوں سے سودی بینک اور اسلامی بینکاری کے نام پر کام کرنے والے بینک ساتھ ساتھ کام کررہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ یہ متوازی نظام بینکاری غیراسلامی ہے، اسلامی بینک بھی سودی بینکوں کی طرح اپنے کھاتے داروں کا استحصال کررہے ہیں چنانچہ اس متوازی نظام بینکاری کی موجودگی میں اگر کبھی اسلامی بینک سودی نظام سے ہونے والے ظلم و ناانصافی کو ختم کرنا بھی چاہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکیں گے۔(iii)وہ علماء اور مفتیانِ کرام جو مروجہ اسلامی نظام بینکاری کی پشت پر ہیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں(خواہ دبے لفظوں میں ہی صحیح) کہ یہ متوازی نظام غیراسلامی ہے مگر اس ضمن میں بیان یا فتویٰ جاری کرنے سے نہ صرف گریزاں ہیں بلکہ گزشتہ 11؍ برسوں سے علماء حکومت و اسٹیٹ بینک پر یہ دبائو بھی نہیں ڈال رہے کہ اس متوازی نظام کو ختم کیا جائے چنانچہ عملاً وہ سودی نظام کو دوام بخشنے میں معاونت کررہے ہیں۔
یہ امر تشویشناک ہے کہ ملک میں متوازی نظام بینکاری نافذ کرنے کا غیراسلامی فیصلہ پرویز مشرف کی صدارت میں 4؍ستمبر2001ء کو اسٹیٹ بینک میں ہونے والی ایک میٹنگ میں کیا گیا تھا اور یہ غیراسلامی فیصلہ کرنے والوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور کچھ ممبران، سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے ایک سابق جج جو بعد میں اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین بھی مقرر ہوئے، گورنر اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ اور وزارت قانون کے نمائندے بھی شامل تھے۔ ان تمام شخصیات کو یہ بات بھی معلوم تھی کہ ان کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے 14؍جون 2001ء کے فیصلے سے متصادم ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے جس میں جسٹس محمد تقی عثمانی بھی شامل تھے14؍جون 2001ء کو اپنے ہی بنچ کے 23؍دسمبر1999ء کے فیصلے پر عملدرآمد کی مدت کو بڑھاکر 30؍جون 2002ء کر دیا تھا۔ توسیع کے اس فیصلے میں حیران کن طور پر کہا گیا تھا کہ عدالت کو اپنے ہی بنچ کے 23؍ دسمبر 1999ء کے فیصلے پر عملدرآمد کے ضمن میں حکومت کے خلوص اور ارادے پر شک نہیں ہے۔ یہ توسیع اور یہ ریمارکس غیرحقیقت پسندانہ اور باعث تشویش تھے کیونکہ اول، اس فیصلے سے دو ماہ قبل 17؍اپریل2001ء کو انہی کالموں میں ہم نے عرض کیا تھا کہ حکومت نے یہ غیراعلانیہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اسلامی نظام بینکاری و مالیات کو اسلام کی حقیقی روح کے مطابق عملی شکل نہیں دی جائے گی اور دوم، اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان سعید الزماں صدیقی کہہ چکے تھے کہ پرویز مشرف نے ان کو فون کرکے سپریم کورٹ کے 23؍دسمبر1999ء کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ ان کی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش ہے۔ سپریم کورٹ کے 14؍جون2001ء کے فیصلے سے حکومت کو وقت مل گیا کہ وہ علماء، وزارتوں، اسلامی نظریاتی کونسل اور اسٹیٹ بینک کے تعاون سے ستمبر2001ء میں اور جون2002ء میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے فیصلوں سے سودی نظام کو دوام بخشنے کے اپنے عزائم کو پورا کرسکے۔ واضح رہے کہ اس بنچ میں دو علماء اور پی سی او ججز بھی شامل تھے۔یہ قوم کے لئے یقیناً لمحہ فکریہ ہے کہ علماء و مفتیانِ کرام خصوصاً وہ قابل احترام شخصیات جو مروجہ اسلامی نظام بینکاری کی پشت پر ہیں، دینی و سیاسی جماعتیں جو اسلامی نظام کے نفاذ کی علمبردار ہیں،اسلامی نظریاتی کونسل، اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ اور آئین کی بالادستی کے نعرے لگانے والی تنظیموں، اداروں اور شخصیات نے مندرجہ بالا تمام تکلیف دہ، غیراسلامی، سودی نظام کو دوام بخشنے اور آئین پاکستان سے متصادم فیصلوں اور اعتراضات پر نہ صرف کسی اضطراب کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان میں سے کچھ…ان تباہ کن فیصلوں اور اقدامات میں شریک بھی رہے۔مروجہ’’اسلامی نظام بینکاری کی پشت پر سب سے اہم شخصیت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی ہے۔ وہ اس بات کو نجی گفتگو میں بھی اور ان کے رفقاء بھی یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ متوازی نظام بینکاری غیراسلامی ہے۔ یہ غیراسلامی متوازی نظام بینکاری ملک میں گزشتہ 11؍برسوں سے جاری ہے۔ مولانا تقی عثمانی کو موجودہ حکومت نے اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کا چیئرمین مقرر کردیا ہے چنانچہ ان سے توقع ہے کہ اس شریعہ بورڈ کے پہلے اجلاس میں ہی متوازی نظام بینکاری کو غیراسلامی قرار دیتے ہوئے سودی نظام بینکاری کو ختم کرنے کے لئے حکومت اور اسٹیٹ بینک کو زیادہ سے زیادہ ایک برس کی مہلت دیں گے۔ یہ بات ذہن میں رہنا چاہئے کہ جون 2002ء میں عالم جج کی حیثیت سے انہوں نے اس ضمن میں ایک برس کی مہلت دی تھی۔ واضح رہے کہ خود اسٹیٹ بینک بھی اس شریعہ بورڈ کے فیصلوں کی پابند ہے۔ باقی گزارشات انشاء اللہ آئندہ۔
تازہ ترین