• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ وہ زمانہ ہے جب آپ کا نام دیکھ کر، شناختی کارڈ دیکھ کر، آپ کو گولی ماردی جاتی ہے۔ بہادری یہی ہے تو شرم آتی ہے مجھے ایسی بہادری پر۔ یہ واقعات موقع بہ موقع ہزارہ ٹائون والوں پر اور ایران سے زیارتوں کے بعد آنے والوں پر ایسی دیدہ دلیری سے خودکش دھماکے اور بارود گاڑیوں میں بھرا جاتا ہے کہ انسانیت کے لفظ کو استعمال کرتے ہوئے بھی حجاب آتا ہے۔ پہلے پہل تو اتنا ظلم نہیں تھا۔لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر، شناختی کارڈ دیکھ کر پھر گولیاں مارتے تھے۔ اب ہاتھ کھل گیا ہے، ہمت بھی بڑھ گئی ہے کہ کوئی چیک کرنے والا تو ہے نہیں۔ مزے سے نشانہ لو اور بھاگ جائو۔ ہزارہ ٹائون کے باسیوں کے لئے تو یہ روزمرہ کی بات ہوگئی ہے مگر ادیبوں کے لیے یہ خوفناک اور اذیت ناک بھی ہے۔
اصغر ندیم سید وہ محنتی آدمی ہے جس نے اپنی دانشوری کا کسی پر رعب نہیں ڈالا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے ڈرامے لکھ لکھ کر اینٹ پہ اینٹ رکھی، اپنا گھر بنایا، بچیوں کو پڑھایا اور اپنے کام میں منہمک رہا۔اس نے کبھی بھی ادیبوں کی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ مجھے یاد ہے جب اس کے ہمسائے ڈاکٹر مرتضیٰ کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا تو وہ بچوں کی طرح بلک پڑا تھا۔ یہ ظلم اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ وہ صبح سے شام تک نوجوانوں کو پڑھانے میں مصروف رہا ہے اور جہاں وقت ملا، ڈرامے سے عشق کو نبھایا ہے۔ ایک متوسط درجے کے انسان کے بھلا کیا خواب ہوتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی اور بچوں کی پڑھائی۔یہی خواب دیکھتا اور کام کرتاہوا، یہ شخص ریٹائر ہوکر بیکن ہائوس یونیورسٹی میں نوجوانوں کو سمجھایا کرتا تھا کہ ڈرامہ بنتا کیسے ہے۔ میں نے غلط کہا ڈرامہ پڑھایا کرتا تھا۔ وہ تو اب بھی پڑھائے گا کہ اس کے اندر جوان بیوی اور لائق بیٹیوں کا حوصلہ موجود ہے۔ وہ نہ صرف نوجوانوں کو خواب دیکھنا سکھاتا ہے بلکہ ان کے سامنے مثالیں دے کر زندگی گزارنے کا وہ نسخہ کمیاب رکھتا تھا کہ بچے پیاسے لوگوں کی طرح اپنی پیاس بجھائیں۔
آخر وہ کون میرے نالائق بیٹے تھے جنہیں حوصلہ ہوا کہ اپنے استاد پر بے محابہ گولیاں چلا سکیں۔ پرانے زمانے میں تو استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے والے ہی بانصیب ہوا کرتے تھے۔ ہم نے اپنے زمانہ میں اپنے بزرگوں کے سامنے کبھی زبان بھی نہیں کھولی۔ ان کی باتیں سنیں، لفظوں کے استعمال کی ترکیبیں سیکھیں۔ اساتذہ کے کلام کی وضاحتیں سنیں۔ ابھی بھی ہمیں کچھ نہیں آتا ۔ اس بڑھاپے میں بھی اپنے اساتذہ کو یاد کرتے ہیں۔ یہ تو اصغر ندیم سید کی نیکیاں تھیں جو اس کے کام آئیں ورنہ ہر روز کٹی پہاڑی سے لے کر لیاری اور بنوں تک میرے جوان لیویز اور فوج کے علاوہ پولیس والے مارے جاتے ہیں۔ ان کےگھروں کا ماتم دیکھا نہیں جاتا۔ ان کے بچوں کا رونا ساری قوم کو رُلا دیتا ہے۔ ہر لمحے سرکار یہی کہتی ہے، ظالموں کو اپنے انجام تک پہنچایا جائے گا۔
اصغر ندیم سید پر حملہ، ادیبوں کیلئے وارننگ تھی کہ کسی موضوع کو زیربحث لائو اور نہ ڈرامہ بنائو۔ کتنا ہر دلعزیز ہے میرا دوست کہ تہران سے بے قرار ہوکر افتخار عارف نے فون کیا۔ لندن سے ڈاکٹر جاوید شیخ تڑپ گئے۔ امریکہ میں تنویر مسعود رو رہی تھی، دہلی میں شمیم حنفی اور صبا بے چین تھے، جاپان میں سیمانے کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ ماسکو سے لامیلا کا فون آیا۔ امریکہ اور اسپین سے میرے بیٹوں نے فون کیا۔ ہر طرف بے چینی تھی آخر اصغر ندیم سید کیوں،کس کے بچے کو اس نے فیل کردیا تھا، کس کے بچے کو اس نے ڈانٹا تھا کہ آج کل تو طریقہ بن گیا ہے کہ استاد بچے کی غلطی پکڑے تو بچہ گھر جاکر استاد کی شکایت لگاتا ہے اور والدین اپنے رتبے، اپنی دولت کا رعب دیتے ہوئے، ادارے میں آکر استاد کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔
اب ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ نہ صرف اینکر پرسنز بلکہ کالم نگاروں حتیٰ کہ دفتروں کے چپڑاسیوں تک کو دھمکیاں مل رہی ہیں کہ خبردار ایک حرف بھی ہمارے بارے میں لکھا گیا تو اپنے کئے کی وہ سزا پائو گے کہ خاندان بھر روئے گا۔ تم لوگ حرف سے ڈرتے تو ٹھیک ہو کہ حرف ایٹم سے بڑی طاقت رکھتا ہے۔ حرف ہی تو تائید ایزدی رکھتا ہے۔ یہ میرے نالائق نوجوانوں کو ہاتھ میں کس نے ہتھیار پکڑا دیئے ہیں جن کے ہاتھ میں کتاب ہونی چاہئے تھی ان کے ہاتھ میں پستول ہے۔ حکومت کے پاس بھی گنے چنے لفظ ہیں۔ ہر روز سنتے ہیں، دہشت گردوں کو چھوڑا نہیں جائے گا۔ ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ہماری خاموشی کو حکومت کی کمزوری نہ سمجھیں۔ ہم معصوم لوگوں کا خون بہانا نہیں چاہتے۔ دوسری طرف روز ایک دو بم پھٹتے ہیں، سو پچاس لوگ مارے جاتے ہیں۔ پھر وہی بیان آجاتا ہے۔ ہمارے عزیز دوست صحافی اس بات پر غور کرتے اور گفتگو کرتے رہتے ہیں کہ پرویز مشرف کا کیا بنے گا، صفحے پر صفحے کالے کئے جاتے ہیں۔ ہم خوش ہیں کہ ہندوستان سے بارڈر چوبیس گھنٹے کھلا رہے گا۔ وہ خواتین جو ایک سوٹ کیس میں تین سوٹ کیس رکھ کر جاتی تھیں، وہ پریشان ہیں کہ اب تو انڈین ڈیزائنر کے کپڑے یہاں مل جایا کریں گے۔ اسمگلر پریشان ہیں کہ ان کی تجارت گھاٹے میں جائے گی۔ اس لئے تو کھوکھراپار ٹرین ہوکہ مظفر آباد بس، اس کو چلنے دینا نہیں چاہتے۔ حکومت ذرا سی دھمکی سے ڈر جاتی ہے۔ مجال ہے کہ اتنے بڑے دانشور اصغر ندیم سید کے بارے میں اعلیٰ حکومتی ارکان نے بیان دیا ہو۔ بس کہہ دیا جاتا ہے ’’نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ مناواں پولیس چوکی سے لے کر ہر جگہ پر حملوں کے جواب میں یہی کہنا ’’نہیں چھوڑیں گے‘‘ کمال تو ان لوگوں کا بھی ہے جو اصغر کو گولیاں لگتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور کسی نے آگے بڑھ کر ان لوگوں کو پکڑا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم ذہنی طور پر بزدل ہوگئے ہیں۔ دشمنوں سے مغلوب ہوگئے ہیں۔اگر ہم اپنے وطن کے دشمنوں کو پکڑ نہیں سکتے تو وہ نعرے مارنے والے کہاں گئے جو لال قلعے پر جھنڈا لہرانا چاہتے تھے، تف ہے ان کی بہادری پر۔
ظلم و زیادتی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اب تو پانی سر سے گزرچکا ہے۔ ہزاروں افغانی روز سرحد سے ادھر سے آدھر جاتے ہیں جو پاکستانی دوست کابل ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔ وہ بھی دوطرفہ دہشت گردی میں مارے گئے۔ کوئی شہر بھی محفوظ نہیں۔ ہم کسی دوسرے ملک میں رہ بھی نہیں سکتے۔ اپنے ملک کے اتنے مخدوش حالات کو حکومت سنبھال نہیں سکتی۔ یہ تو نیا لبنان بن گیا ہے۔ دانشورو! باہر نکلو، کچھ کرو کہ یہ عذاب ہم پر کم ہوسکے!
تازہ ترین