• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک طرف قوم اس بات میں الجھی ہوئی ہے کہ طالبان سے مذاکرات ہوں گے بھی یا نہیں اور دوسری طرف وفاقی حکومت اہم قومی اداروں کی پرائیویٹائزیشن (نجکاری ) کے لیے ’’ ان تھک ‘‘ کوششوں میں مصروف ہے ۔ پاکستان جیسا دنیا میں کوئی دوسرا ملک نہیں ہو گا ، جہاں بد ترین دہشت گردی بھی ہو رہی ہو اور لوگ ’’ سرمایہ کاری ‘‘ کے لیے بے چین بھی ہوں ۔ جس دن دہشت گردی کی زیادہ کارروائیاں ہوتی ہیں ، اسی دن اسٹاک ایکسچینج کے انڈیکس میں زیادہ اضافہ ہوتا ہے اور شاید اسی دن ہی یہ انڈیکس نفسیاتی حد بھی عبور کر جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کے مظہر نادر (Phenomenon ) اور بدامنی کا ہماری معیشت سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے ۔ اگر اس تعلق کو سمجھ لیا جائے تو نہ صرف ساری باتیں سمجھ آجائیں گی بلکہ سیاسی معاشیات ( پولٹیکل اکانومی ) کے پیچیدہ اصولوں کا بھی ادراک ہو جائے گا ۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قومی ادارے خسارے میں جا رہے ہیں اور حکومت ان کے خسارے کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی ہے ، اس لیے ان اداروں کو فروخت کردینا قومی مفاد میں ضروری ہے ۔ اس دلیل کے ساتھ نجکاری کے لیے جن قومی اداروں کی فہرست جاری کی گئی ہے ، ان میں بینکس اور مالیاتی ادارے بھی شامل ہیں ، جو انتہائی منافع بخش ہیں ۔ پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن کی پالیسی غلط تھی ۔ اس سے ملک میں سرمایہ کاری اور معاشی ترقی رک گئی جبکہ انڈسٹریلائزیشن ( صنعت کاری ) کا عمل شدید متاثر ہوا ۔ اس پالیسی کے تحت جو غلطیاں کی گئیں ، انہیں درست کرنے کے لیے منافع بخش اداروں کی بھی نجکاری کی جارہی ہے ۔ اس طرح کے دلائل دینے والوں سے اگر یہ پوچھا جائے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صنعت کاری کیوں زیادہ ہوئی ۔ اسٹیل مل اور ہیوی میکینکل کمپلیکس اور شوگر اور سیمنٹ انڈسٹری سمیت بھاری صنعتیں کیوں قائم ہوئیں حالانکہ ایسی صنعتیں بعد میں کبھی قائم نہیں ہوسکیں تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا ۔ صنعت کی تعریف یہ ہے کہ وہ صنعت کو جنم دیتی ہے ۔ قرضوں کی صورت میں ریاستی سرمایہ ہڑپ کرکے دیوالیہ قرار دی جانے والی صنعتیں نہیں ہوتی ہیں ۔ اگر ان سے یہ سوال کیا جائے کہ پاکستان میں بینکاری کا شعبہ بھٹو صاحب کے زمانے میں ہی جدید بنیادوں پر استوار کیوں ہوا ۔ بھٹو صاحب کی لینڈ ریفارمز سے ملک نے پہلی بار خوراک میں خود کفالت حاصل کیوں کی اور معیشت کی شرح نمو کے اعشاریئے بہتر کیوں تھے تو بھی یہ لوگ خاموش رہتے ہیں ۔ نجکاری کے نام پر پاکستان کے قومی اثاثوں کو اپنے خاندانی اثاثوں میں شامل کرنے کے خواہش مند لوگوں نے قوم کو سیاست اور معیشت کے بارے میں عجیب و غریب بحثوں میں الجھا رکھا ہے ۔ بالکل اسی طرح ، جس طرح الجزائر کے حریت پسند دانش ور فرانز فینن نے کہا تھا کہ ’’ لوگوں کو پتھر کی جیومیٹری میں الجھا دیا جاتا ہے ۔ ‘‘ لیکن اس کے ساتھ فینن نے یہ بھی متنبہ کیا تھا کہ ’’مت بھولو کہ تاریخ پتھر پیسنے والی مشین ہے ۔ ‘‘ جو لوگ دہشت گردی کی بنیاد پر استوار ہونے والی سیاست اور معیشت سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے بہت بے تاب ہیں ، ان کی اطلاع کے لیے یہ عرض ہے کہ انسانی تاریخ انقلابات سے بھری پڑی ہے ۔ یہ انقلابات ایسے ہی حالات میں آتے ہیں ، جب معیشت چند ہاتھوں میں مرکوز ہوجاتی ہے اور وسائل پر قابض لوگ 100 ارب روپے کے لیپ ٹاپ غریبوں میں تقسیم کرنے کے ’’ نادر منصوبے ‘‘ لے کر آتے ہیں۔ جب وہ پاکستان اسٹیل کی ڈھائی کھرب روپے کی ’’ زمین کی محبت ‘‘ میں اسٹیل مل کے ملازمین کے ایک کھرب روپے کے واجبات اور دیگر اثاثہ جات کے لیے 30 ارب روپے خوشی خوشی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔ ان لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ لوگ ایک حد تک بھوک اور بے بسی کو برداشت کرتے ہیں ۔ تاریخ میں دولت چھین لینے یا نیشنلائزیشن کا کام پہلی مرتبہ بھٹو کے دور میں نہیں ہوا تھا ۔ چین کے ’’ افلاکی شہنشاہوں کی کہانیوں‘‘ میں بھی اس طرح کے واقعات ملتے ہیں ۔ کنفیوشس سے بھی پہلے 2850 سال قبل مسیح شہنشاہ ہوانگ تی نے سارے جاگیرداروں سے زمینیں چھین لی تھیں اور انہیں نئے سرے سے تقسیم کیا تھا تاکہ افراتفری اور انتشار سے بچا جا سکے ۔ یونان میں افلاطون سے بھی پہلے سولون نامی بادشاہ نے بھی نہ صرف زمینیں ریاست کی تحویل میں لے لی تھیں بلکہ غلاموں اور کسانوں کے وہ سارے قرضے بھی منسوخ کردیئے تھے ، جو انہوں نے ساہوکاروں اور ریاست کو ادا کرنے تھے ۔ اس کے لیے اس نے ’’ سبکدوشی نامہ ‘‘ جاری کیا تھا اور ایتھنز کو انقلاب اور خونریزی سے بچالیا تھا ۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔فرانس ، روس اور چین کے انقلابات کے ساتھ ساتھ تاریخ انسانی نے اشتراکی تحریک کی پوری نصف صدی بھی دیکھی ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اگر ریاست امراء کے اثاثے قومیالے تو یہ تاریخ میں ایک پر امن طریقہ تصور کیا جاتا ہے ۔ پناہ مانگی جائے اس وقت سے جب ریاست کے بجائے لوگ خود چھین لینے کا فیصلہ کریں ۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج اگر بہت وسیع ہو جائے تو یہ دلائل انتہائی گھٹیا محسوس ہوتے ہیں کہ قومی اثاثوں کی نجکاری سے ملکی معیشت ترقی کرے گی ۔ جس ملک میں لوگ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اپنے بچے فروخت کرنے پر تیار ہوں ، وہاں قومی اثاثوں کو فروخت کرتے ہوئے کچھ خوف محسوس کرنا چاہئے ۔ سرمایہ دارانہ یا سامراجی ، معاشی نظریات کا پرچار ان ملکوں میں اچھا لگتا ہے جہاں لوگوں کو روٹی کا مسئلہ نہیں ہے ۔ جن معاشروں میں روٹی مہنگی ، انسانی جان اور عزت سستی ہو ، وہاں لوگ اس طرح سوچتے ہیں ، جس طرح تلگو زبان کے شاعر ششندر شرما نے کہا تھا کہ ’’ جب میں تمہارے چہرے پہ بکھری مسکراہٹ دیکھتا ہوں تو میرا ہاتھ بے اختیار بندوق کی طرف چلا جاتا ہے… کہاں سے آئی ہے یہ مسکراہٹ… ؟ ‘‘ کراچی سے لے کر خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات تک پیدا کی گئی مصنوعی بدامنی میں پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے والوں نے یہ اندازہ ہی نہیں کیا ہے کہ لوگوں میں حقیقی بے چینی پیدا ہو گئی ہے ۔ لوگوں کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ چلتا رہے گا اور اسی دوران ہی قومی اثاثے فروخت ہو جائیں گے ۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں اسٹاک ایکسچینج کے انڈیکس میں اضافہ ایسے نہیں ہوتا ۔ پاکستان کو دہشت گردی سے بچانا ہے تو بدترین لوٹ مار والے اس معاشی نظام کی جڑوں پر ایک بار پھر ضرب لگانے کی ضرورت ہے ۔
تازہ ترین