• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوری کے آخری ہفتے میں دہشت گردی کے محاذ پر پے در پے واقعات پیش آئے۔ بنوں، راولپنڈی، کراچی اور وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر بہیمانہ حملے کیے گئے۔ مستونگ میں زائرین کی بس پر خودکش حملے میں درجنوں معصوم شہری شہید ہوئے۔ ہنگو میں ابراہیم زئی اسکول اور پولیس آفیسر چوہدری اسلم پر حملوں کے نتیجے میں عوامی اشتعال پہلے ہی سے فزوں تر تھا چنانچہ پاک فضائیہ کا دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنا قابل فہم تھا۔ عوام نے پاک فوج کی کارروائی کی بھرپور حمایت کی۔ اس موقع پر سیاسی قیادت میں بھی حرکت کے کچھ آثار نظر آئے۔27جنوری کو مسلم لیگ کی پارلیمانی کمیٹی نے وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں بھاری اکثریت سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی حمایت کی۔ میاں نواز شریف کا یہ جملہ معنی خیز تھا کہ ’’مذاکرات کی حمایت کرنے والوں کو خاموشی کا سامنا ہے جبکہ طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والوں کو پذیرائی مل رہی ہے‘‘۔ اس سے اگلے روز پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایک انٹرویو میں ایسی صاف گوئی کا مظاہرہ کیا جو حالیہ برسوں میں ان کے عوامی تاثر سے یکسر مختلف تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ آپریشن کی نوعیت اور طریقہ کار فوج طے کرے گی۔ پنجاب میں 174مقامات پر کارروائی کی جائے گی۔‘‘ 28 جنوری ہی کو وزیراعظم نے جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی۔ اس موقع پر سرکاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ دونوں رہنمائوں نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور جوابی کارروائی پر اتفاق کیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب یہ اہم واقعات وقوع پذیر ہو رہے تھے تو سرتاج عزیز امریکہ میں جان کیری کے ساتھ ا سٹریٹجک ڈائیلاگ کر رہے تھے۔ ان مذاکرات کے دوران سامنے آنے والے اشارے خاصے حوصلہ افزا تھے۔ واضح رہے کہ امریکہ دنیا میں صرف تین ممالک کے ساتھ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کر رہا ہے ، چین، بھارت اور پاکستان۔ یہ صورتحال امید افزا تھی کہ بالآخر دہشت گردی اور معیشت کے محاذوں پر حکومت فعال ہو رہی ہے۔ عوام اور سیاسی حلقے بے چینی سے 29جنوری کا انتظار کررہے تھے جب وزیراعظم کو سات ماہ بعد قومی اسمبلی میں قدم رنجہ فرما کر قومی سلامتی کے امور پر لب کشائی کرنا تھی۔ حیران کن طور پر میاں نواز شریف نے تدبر کا مظاہرہ کرنے کی بجائے روایتی سیاست دانوں کی طرح اپنی ٹوپی سے ایک کبوتر برآمد کیا۔ اس کبوتر کے پر کٹے ہوئے ہیں، بینائی مشکوک ہے اور ٹانگیں متزلزل ہیں۔ پرندہ قاف سے آیا مگر اڑتا نہیں تھا۔ خبر رسانی کا یہ وہی پرندہ ہے جو ماضی میں بھی اہم پیغامات غلط پتوں پر پہنچاتا رہا ہے۔ وزیراعظم نے طالبان کو مذاکرات کی ایک اور پیشکش کرتے ہوئے ایک چار رکنی کمیٹی قائم کی جس میں منتخب پارلیمنٹ کو نمائندگی کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ کمیٹی کا مینڈیٹ واضح نہیں کیا گیا۔ مذاکرات کا ایجنڈا بیان نہیں کیا گیا۔ کمیٹی کی ہیئت ترکیبی سے قطع نظر وزیراعظم نے فوجیوں اور شہریوں سمیت پچاس ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں سے مذاکرات کیلئے کوئی شرط بھی عائد نہیں کی۔گویا حکومت نے یہ بیان کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ مذاکرات کے دوران کیا کوئی ایسی حد فاصل ہے جس سے پیچھے ہٹنا پاکستانی ریاست کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔ پاک فوج کی حالیہ کارروائی سے طالبان کے دلوں میں پیدا ہونے والے خوف کو دور کرنے کی ہر ممکن کاوش کی گئی ہے۔ قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سعی کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھا گیا ہے۔ کہنا چاہیے کہ نام نہاد امن کو دیا جانے والا یہ موقع بھی گزشتہ کوششوں کی طرح ناکامی سے دوچار ہوگا۔
مذاکرات کمیٹی کی ہیئت ترکیبی پر غور کیجئے۔ یہ چاروں افراد واضح طور پر طالبان کے ہمدرد ہیں اور ان کے بنیادی سیاسی مفروضات سے اتفاق رکھتے ہیں۔ اس میں اڑچن یہ ہے کہ پاکستانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد طالبان کے طریقہ کار ہی سے نہیں، مقاصد سے بھی اختلاف رکھتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امن طالبان کا مقصد نہیں، گھوڑا گھاس سے دوستی نہیں کر سکتا۔ کمیٹی میں اس مزاحمتی نقطۂ نظر کی نمائندگی ضروری نہیں سمجھی گئی۔ ان میں سے ایک صاحب نے بارہ برس پہلے یہ جھوٹ ایجاد کیا تھا کہ اسامہ بن لادن گردوں کے مہلک مرض میں مبتلا ہے۔ مقصد ایک مفرور ملزم کی روپوشی میں مدد کرنا تھا۔ ایک صاحب پچیس برس پہلے جمہوری حکومت کے خلاف سازشوں کے مرتکب ہوئے اور نوبت کورٹ مارشل تک پہنچی۔ کمیٹی کے تیسرے رکن فرماتے ہیں کہ ’’حکومت کو یہ باور کرانا ہو گا کہ جو بھی فیصلے ہوں گے ان پر عمل درآمد کیا جائے گا اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی، تب جا کر اعتماد بحال ہو گا ‘‘۔ کیا اعتماد کی بحالی صرف حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ کمیٹی میں شامل وزیراعظم کے مشیر فرماتے ہیں کہ دھماکے یا دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے سے متعلق کوئی گارنٹی نہیں ۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ کمیٹی تو محض رابطہ کار ہے ، مذاکرات تو حکومت ہی کو کرنا ہوں گے۔ ایک اور رکن کا کہنا ہے کہ انہیں تو ذرائع ابلاغ کے ذریعے کمیٹی میں اپنی شمولیت کی خبر ملی۔ رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ طالبان کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ حکومت معاہدے کی پاسداری کرے گی۔ گویا حکومتی کمیٹی کا رکن بالواسطہ طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ طالبان کے ساتھ کیے گئے گزشتہ معاہدے حکومت نے فسخ کیے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے ماضی میں معاہدے توڑے ہیں۔ کیا پاکستانی عوام کو طالبان کے اخلاص کا یقین دلانا ضروری نہیں۔ دہشت گردی کا معاملہ صرف پاکستان سے تعلق نہیں رکھتا ، اس میں بین الاقوامی زاوئیے بھی موجود ہیں۔ یہ نکتہ بھی ملاحظہ ہو کہ طالبان نے مذہب کے قضیے پر ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور مذاکرات کرنے والی کمیٹی میں طالبان کے ہاتھوں نشانہ بننے والے دو بڑے مسلم فرقوں کی نمائندگی موجود نہیں۔ طالبان کے ساتھ مفروضہ بات چیت میں آئینی امور زیر بحث آنا بھی ناگزیر ہے۔ کمیٹی میں آئینی امور کا ماہر کون ہے ؟بتایا گیا ہے کہ کمیٹی کے ارکان نہایت معاملہ فہم ہیں۔ صاحب یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ معاملہ فہمی کی خوبی کاروباری جھگڑوں میں مفید ہوتی ہے۔
قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی تقریر سے ایک روز پہلے تک حکومت جس نتیجے کی طرف بڑھ رہی تھی، ریاست کے اندر موجود کچھ طاقتور حلقوں نے عین وقت پر مداخلت کرکے پارلیمانی کمیٹی کے تجویز کردہ راستے کو سبوتاژ کر دیا ہے اور حکومت کی یہ کارروائی محض وقت گزاری کا ایک حربہ ہے۔ 4مارچ 1971ء کی صبح لیفٹیننٹ جنرل یعقوب علی خان نے ڈھاکہ میں کہا ’’ہم تو صرف اچھے وقتوں کی امید ہی کر سکتے ہیں۔‘‘ جنرل صاحب کا جملہ مایوسی کا شائستہ اظہار تھا۔ قیادت کا کام اچھے وقتوں کا انتظار کرنا نہیں ، اچھے موسموں تک پہنچنے کا لائحہ عمل تشکیل دینا ہوتا ہے۔ ڈنکرک کے محاذ سے تین لاکھ چالیس ہزار فوجیوں کے کامیاب انخلا کو ایک بڑی فوجی کامیابی سمجھا جا رہا تھا ۔ چرچل نے 4جون 1940ء کی تقریر میں ایک تاریخی جملہ ادا کیا تھا۔ ’’ شکست خوردہ فوجوں کا انخلا جنگ جیتنے کا طریقہ نہیں ‘‘۔ طالبان کے زیر نگیں علاقوں سے پاکستانی ریاست کا انخلا شاید ابھی دور کی کوڑی لانا ہو لیکن وزیراعظم صاحب کی یہ مذاکراتی کمیٹی مراجعت کا ایک اشارہ ہے۔ اس سے صرف ایک فائدہ ہوا ہے پاکستان کے لوگ کئی برسوں سے اس مخمصے میں تھے کہ انہیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا جو سبق پڑھایا جا رہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔ حکومت نے یہ کمیٹی بنا کے اچھے طالبان کی نشاندہی کردی ہے ، اب اچھے طالبان برے طالبان کے ساتھ بیٹھ کے مذاکرات کریں گے اور یہ سوال بہرصورت باقی رہے گا کہ مذاکرات کی میز پر پاکستانی ریاست، عوام ، آئین اور جمہوریت کے مفادات کی نمائندگی کون کرے گا؟
تازہ ترین