• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کرسکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کرسکے
مایوسیوں نے چھین لئے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کرسکے
اس ہفتے جمعرات کا دن خبروں سے بھرپور دن تھا۔ ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ ہورہا تھا۔ میاں نواز شریف صاحب کوئٹہ پہنچے ہوئے تھے اور قیام امن کے لئے فوجی اور سیاسی قیادت کا مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی باتیں ہورہی تھیں۔ زائرین کی حفاظت کے لئے فضائی اور بحری سفری سہولتوں کے فراہم کرنے پر بھی غور کیا گیا۔ مزید یہ کہ اربوں روپے کی لاگت سے بڑی بڑی سڑکیں بنائی جائیں گی۔ یہ تمام باتیں اور وعدے انتہائی مثبت اور خوش آئند ہیں اور یہ خبریں پڑھتے پڑھتے مجھے مندرجہ بالا ساحر لدھیانوی کے اشعار یاد آگئے اسی غزل کا ایک شعور اور بھی ہے جو قارئین کی نذر کرتا ہوں
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کرسکے
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی بنادی گئی جو کہ پہلی کمیٹیوں کے مقابلے میں کافی فعال نظر آتی ہے اور کمیٹی نے آتے ہی کچھ نہ کچھ میٹنگیں آپس میں شروع کردی ہیں۔ ان کے ساتھ میٹنگ کب اور کیسے ہوں گی اس کا تعین ابھی ہونا باقی ہے۔ قوی امید ہے کہ وہ بھی جلد ہوجائے گی۔ میرے خیال میں آپریشن سے پہلے بات چیت کا ایک موقع اور حاصل کرنا درست فیصلہ ہے کیونکہ آپریشن ایک دفعہ شروع ہوجائے تو پھر اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور بعض چھوٹے چھوٹے آپریشن بھی بعد میں درد سر بن جاتے ہیں جس طرح مشرف کے دور میں ہونے والے لال مسجد اور اکبر بگٹی آپریشن آج مشرف کے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں اگرچہ اس وقت یہ آپریشن بھی انتہائی سوچ بچار کے بعد کئے گئے تھے اور ان میں تمام سرکاری مشینری استعمال ہوئی تھی۔ اگر اس وقت کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں یا ٹاک شوز کی ویڈیو نکالیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ بہت سے وہ لوگ جو آج ان اقدامات کی مذمت میں پیش پیش ہیں اس وقت آپریشن کروانے کے لئے برسرپیکار تھے اور کہتے تھے کہ حکومت کی کوئی رٹ ہی نہیں ہے اور افواہیں اڑائی جاتی تھیں کہ اسلام آباد کی مارکیٹ میں کسی نے عورت کے بال کاٹ دیئے یا ویڈیو کی دکانوں پر حملے اور ان کو جلائے جانے کی خبریں اور پھر خبروں کی آڑ میں بڑے بڑے ٹاک شوز، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بیرونی اور اندرونی قوتوں کا ایک ہی ایجنڈا تھا اور وہ مشرف کو صدارت کی کرسی سے ہٹانا۔ یکے بعد دیگرے اس سے بہت سے ایسے کام کروائے جارہے تھے جن کی وجہ سے اس کے خلاف نفرت بڑھے اور اس کی حکومت کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس داخل کروایا گیا اور پھر چیف صاحب کی شخصیت اور عہدے کی بے حرمتی کی گئی اور اسے اسکرین پر دکھایا گیا تاکہ عوام مشتعل ہوں۔ چیف جسٹس کے بال کھینچے گئے اور اس طرح مشرف کے خلاف چلنے والی موومنٹ میں جان ڈالی گئی۔ اسی وقت این آر او بنایا گیا اس پر عملدرآمد فوری طور پر کرکے بڑے بڑے مگرمچھوں کو کرپشن کیسوں سے نجات دلوائی گئی ان تمام کوششوں یا سازشوں کے پیچھے ایک ہی ایجنڈا تھا اور وہ مشرف کو کرسیٔ صدارت سے فارغ کرنا۔ وہ جوان کا بچہ بھی سمجھ کر نہیں دیا اور سارے کام بیک وقت کرتا ہی چلا گیا۔ بی بی کی شہادت، اکبربگٹی کا قتل، لال مسجد کا آپریشن اور این آر او کا جاری ہونا یہ تمام ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں اور یہ زنجیر مشرف کو اس کے عہدے سے فارغ کرنے کے لئے بنائی گئی تھی اور وہ بنتی ہی چلی جارہی تھی۔ اس لئے حکمرانوں کو جب وہ اپنے عہدے پر ہوں تو بڑی ہوشیاری سے کام کرنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ ان کے بااعتماد مشیر اب کس کے لئے کام کررہے ہیں اور ان کا خفیہ ایجنڈا کیا ہے مشرف اپنے دور اقتدار کے آخری دنوں میں اس قدر بااعتماد ہوگئے تھے کہ اپنے پرانے بااعتماد ساتھیوں کو سمجھ نہیں سکے جو ان کو کنویں میں دھکیل رہے تھے۔ بقول ساحرؔ لدھیانوی
ٹوٹا طلسم عہد محبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کرسکے
اب سپریم کورٹ سے مشرف کی نظرثانی کی درخواستیں بھی مسترد ہوچکی ہیں اور وہ اس دلدل میں دھنستے ہی جارہے ہیں جس میں ان کو دھکیلا گیا تھا۔ ان کے ساتھ عیش و عشرت اور اقتدار کے مزے لینے والے اکثر لوگ اب غائب ہیں اور ان کا نام نشان بھی نہیں۔ اب وہ کسی نئے شکار کی تلاش میں ہیں اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ مشرف واپس کیوں آیا؟ بڑی غلطی کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ماضی کی تمام مندرجہ بالا باتیں دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ میرے نزدیک میاں صاحب نے آپریشن کے بارے میں سرپرائز دے کر رانا ثناء اللہ کو بھی حیران اور پشیمان کردیا جو میاں صاحب کے فیصلے سے ایک دن پہلے ہی میاں صاحب کا متوقع فیصلہ سنا کر میڈیا میں زبردست کوریج حاصل کررہے تھے۔ اس دفعہ رانا ثناء اللہ کا رانگ نمبر لگ گیا۔ کوئی بات نہیں۔ پچھلے دور میں ملک رحمن سے بھی ایسی بھول چوک ہوجایا کرتی تھی مگر وہ اپنی مستعدی سے اسے فوری طور پر کور (Cover) کرلیتے تھے۔ اس معاملے میں وہ کافی ہوشیار ہیں اور نو بال کو نہیں کھیلتے۔ اب بھی عین وقت پر لندن کے نائن زیرو پر پہنچ گئے ہیں اور پیغامات پہنچا رہے ہیں۔ آخر میں میری دعا ہے کہ جو کچھ بھی ہو ملک اور عوام کی بہتری کے لئے ہو۔ بے گناہ انسانوں کی جانوں کا زیاں تھم جائے۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور کرپشن کا خاتمہ ہو۔ ہم اپنی نئی نسل کے لئے پرامن اور خوشحال پاکستان چھوڑ کر جائیں۔ ہم نے تو ساری صعوبتیں برداشت کرلی ہیں اب خدا نئی نسل کو ان مشکلات سے دوچار نہ کرے اور وہ اس پاک سرزمین پر خوش و خرم زندگی گزاریں آخر میں حسب حال حکیم مومن خان کا شعر پیش خدمت ہے
اُلجھا ہے پائوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
تازہ ترین