• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نوازشریف کے پارلیمنٹ میں خطاب کے موقع پر مقرر کردہ چار رکنی کمیٹی کا سنجیدہ ملکی و قومی سیاسی حلقوں نے خیر مقدم کیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟اس کا اندازہ آئندہ کچھ دنوں میں ہوجائے گا۔ طالبان سے مذاکرات میں کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ حکومت اس میں کس قدر سنجیدہ ہے؟ وزیر اعظم نواز شریف نے چار رکنی مذاکراتی کمیٹی میں عرفان صدیقی، رحیم اللہ یوسف زئی،میجر(ر)عامر اور رستم شاہ مہمند کو شامل کیا ہے۔ مذاکراتی کمیٹی کے ارکان نے بھی یہ واضح کردیا ہے کہ وہ حکومت اور طالبان کے درمیان محض رابطے کا کردار اداکریں گے۔امیر جماعت اسلامی سید منورحسن نے بجاطور پر معقول تجویز دی ہے کہ رابطہ کمیٹی کی نگرانی کے لئے طالبان سے مذاکرات کی حامی سیاسی جماعتوں اور وفاق المدارس کے علمائے کرام پر مشتمل ایک مذاکراتی فورم بھی تشکیل دیا جائے جو مذاکرات کو کامیابی کی جانب لے جاسکے۔اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا یہ کہنا مناسب ہے کہ طالبان سے مذاکرات خفیہ نہ رکھے جائیں بلکہ انہیں اوپن رکھا جائے۔اس اہم معاملے پر حکومتی سطح پریہ سنجیدگی کا اظہار ہوگا کہ وہ طالبان سے مذاکرات میںہونے والی پیش رفت سے پارلیمنٹ اور قوم کومسلسل آگاہ رکھے۔اس سے کوئی غلط فہمی پیدانہ ہوگی اوراس اہم معاملہ کوحل کرنے میںمدد ملے گی۔ طاقت کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ طاقت کے استعمال سے ہمیشہ حالات بگڑتے ہیں اس سے مسئلے کاحل نہیں نکلاکرتا۔ مشرقی پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بلوچستان اور سوات میں بھی فوجی آپریشنوں میں ہمیں کچھ نہیں ملا۔بلکہ حالات خراب ترہوئے ایسی سعی لاحاصل کا کیا فائدہ جس سے تباہی وبربادی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو۔ نائن الیون کے بعد سےہم امریکہ کی’’خوشنودی‘‘حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پھر بھی امریکہ خوش نہیں ہوا۔ اب امریکہ کو راضی کرنے کیلئے قبائلی علاقوں میں ٹارگٹڈآپریشن کیا جارہا ہے۔ الغرض امریکہ نے ہمیں ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا ہے جس نے پورے ملک میں تباہی مچائی ہے۔آج ملک کا چپہ چپہ غیر محفوظ ہےاورہرطرف بدامنی اور لاقانونیت ہے۔گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے متفقہ فیصلوں سے پاکستان میں امن قائم ہوسکتا تھا لیکن نجانے کیوں نوازشریف حکومت اس جانب سوائے چند بیانات کے عملی طور پر آگے نہیں بڑھ سکی؟وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر ستمبر میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی دینی و سیاسی جماعتیں اور عسکری قیادت ایک پیج پر نظر آئیں۔یہ ملکی تاریخ کا اہم اور یادگار موقع تھا۔پوری قوم کی نظریں نوازشریف حکومت پر تھیں کہ وہ اب اس جانب عملی قدم اٹھائیں گے۔
یہ عجیب بات ہے کہ جب بھی امریکہ سے ہمارےاسٹریٹجک مذاکرات شروع ہونے لگتے ہیں قبائلی علاقوں میں ’’ٹارگٹڈآپریشن‘‘شروع ہوجاتا ہے۔امریکہ سے رکی ہوئی ہماری امدادبحال ہوناشروع ہوجاتی ہے۔امریکہ کے دوچار بیانات ہمارے حق میں آجاتے ہیں اور ہم اسی پر خوش ہوجاتے ہیںلیکن امریکہ ہماری’’جی حضوری‘‘پر خوش نہیں ہوتا وہ چند دنوں میں پھرپینترابدل لیتا ہے اور ’’ڈومور‘‘ کاراگ الاپنے لگتا ہے۔اب چونکہ واشنگٹن میں امریکہ پاکستان اسٹریٹجک مذاکرات کادور گزراہے۔قبائلی علاقوں میں طالبان کے ٹھکانوں پر جیٹ طیاروں سے بمباری کی گئی۔پاکستان کے عوام اس ’’امریکی جنگ‘‘سے تنگ آچکے ہیں’’تنگ آمد بجنگ آمد ‘‘ہوتا ہے۔اس نام نہاد جنگ سے جتنی جلدی ہم نکل آئیں ہمارے لیے بہتر ہوگا۔پاکستان میں بدترین دہشت گردی اسی’’امریکی جنگ‘‘کاتحفہ ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے کوئی امریکی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ اب چونکہ طالبان سے مذاکرات کیلئے حکومت پاکستان عملی طور پر پیش رفت کررہی ہے ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ کہیں امریکہ اچانک ڈرون حملہ کرکے سارے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ نہ کردے۔ ماضی میں اس نے ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔حکومت پاکستان کو امریکہ پر اپنا دبائومسلسل ڈالناہوگا کہ وہ قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں سے باز رہے۔ نوازاوباما ملاقات میں جب ڈاکٹر شکیل آفریدی کوحوالے کرنے کا امریکہ نے مطالبہ کیا تو وزیراعظم نواز شریف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا ایشو اٹھایا لیکن یہ سب کچھ طے شدہ تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔اگر چہ وزیر اعظم نوازشریف نے تین ماہ قبل کراچی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ سے ملاقات کے بعد عافیہ صدیقی کو ایک ماہ میں وطن واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا وزیراعظم نواز شریف نے اپنے وعدے پر عمل نہ کرکے ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پرویزمشرف نے تو عافیہ صدیقی کو امریکہ کے ہاتھوں ایک مرتبہ بیچا تھامگراس کے بعد جمہوری حکمرانوں نے کئی بار اپنے مفادات کیلئے عافیہ صدیقی کو’’بیچا‘‘ہے۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ وہ لاہور اپنی آمد پر مریم نواز شریف کیلئے عافیہ صدیقی کی بیٹی مریم کا پیغام لائی ہیں کہ میری امی کو کب پاکستان واپس لایا جائے گا؟۔2014ء میں امریکہ و نیٹو فورسز کے انخلاء کے موقع پر ہمیں اپنی مغربی سرحدوں کو محفوظ بناناہوگا۔شمال مغربی سرحد پر جتنا امن وسکون ہوگا اتنا ہی ہماری مشرقی سرحد کی طرف توجہ ہوگی۔بھارت گزشتہ بارہ سالوں میں افغانستان میں الجھا دیکھ کر ہمارے خلاف سازشوں کے تانے بانے بن رہا ہے۔اس کے جارحانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات ہونے چاہئیں لیکن کس قیمت پر؟اس پر ہمیں ہمیشہ اپنے ملکی وقومی مفاد کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ پاکستان بھی افغانستان،بھارت اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات کا خواہاںہے۔ اگر بھارت پاکستان سے تعلقات کو مضبوط و مستحکم بنانا چاہتا ہے تو اسے جلد یابدیرمسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہوگا۔حکومت پاکستان کو بھی اس پر زورڈالنا چاہئے کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دے اور اپنی غاصب فوج کو مقبوضہ کشمیر سے نکالے اور وہاں ظلم وستم کی سیاہ رات کو ختم کرے۔ 5فروری پاکستان سمیت پوری دنیا میں یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔چونکہ اب 5فروری کا دن قریب ہے حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ کشمیریوں سے مکمل اظہار یکجہتی کے لئے حسب سابق اس دن قومی سطح پر چھٹی کا اعلان کرے تاکہ پاکستان سے اہل کشمیر کواچھا پیغام مل سکے۔1990ء سے لیکر آج تک 5فروری کا دن پاکستان سمیت عالمی سطح پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے منایا جارہاہے۔مقبوضہ کشمیرمیں بھارت نے66سالوںمیں ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا ہے۔ ہزاروں مسلمان خواتین کی آبروریزی کی گئی ہے۔اب بھی سینکڑوںنوجوان بھارتی فوج کے انٹیروگیشن سینٹرز میں اذیت ناک مظالم برداشت کررہے ہیں۔ہماری حکومت کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد کو دنیا کے سامنے لائے اور بھارت کو اس پر مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے پنجہء استبداد سے کشمیریوں کو آزاد کرے۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ 2014ء کا سال پاکستان کی سالمیت اور بقاء کیلئے بڑا اہم ہے۔نواز اوباماملاقات میں یہ طے پاگیا تھا کہ امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں کمی کرے گا اور صرف ’’ہائی ویلیو‘‘ ٹارگٹ کو نشانہ بنایا جائے گا۔وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے بعد حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ اس کی تازہ مثال ہے۔حکومت پاکستان کو امریکہ پرڈرون حملو ںکے مکمل خاتمے کیلئے دبائوبڑھاناہوگا۔افغانستان میں سوویت یونین کی پسپائی کے بعد بھی امریکہ نے ہمارے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ کیا بلکہ افغانستان میں ایسے کانٹے بوئے جنہیں پاکستان کو کاٹنا پڑا اور اب پاکستان کی سول اورعسکری قیادت کو اس بات کوملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ امریکہ افغانستان سے جاتے جاتے ہمیں ایسی بند گلی میں دھکیل رہا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ہمیں اس بند گلی سے نکلنے کیلئے طالبان سے مذاکرات خلوص دل اور نیک نیتی سے کرنا ہوں گے۔انشاء اللہ ان مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے سے بہت جلد پاکستان اس گمبھیر اور خوفناک منظرنامے سے نکل آئے گا۔اب ہماری ساری توجہ داخلی امن و امان کی طرف ہونی چاہئے۔
تازہ ترین