• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر ِ اعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے اٹھائیس جنوری بروز منگل کو ہونے والی ملاقات میں اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے۔ اُسی دن وزیر ِ اعظم نے پی ایم ایل (ن) کے اراکین ِ پارلیمنٹ سے ملاقات کی اور تحریک ِ طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔تاہم اگلی صبح جب ان کے لئے پارلیمنٹ میں کی جانے والی ’’جنگی تقریر‘‘ تیارکرلی گئی تو آخری لمحے ان پر منکشف ہوا کہ ’’پرامن مذاکرات کو ایک آخری موقع دینا چاہئے‘‘۔ چنانچہ اُنھوں نے چار رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے طالبان کو امن کا پیغام بھیج دیا۔
جب وزیر ِ اعظم ایوان میں آئے اور اپنا موقف بیان کرنا شروع کیا تو تمام اشارے یہی مل رہے تھے کہ وہ جنگ کی طرف جارہے ہیں لیکن جب وہ تقریر کے اختتامی پیراگراف تک پہنچے تو ایسا لگا کہ اُنھوں نے یک لخت پینترا بدل لیا ہے۔ شاید اس کی وجہ ان کی ایک دن پہلے خیبرپختونخوا کے وزیر ِ اعلیٰ سے ہونے والی ملاقات تھی جس نے ان کے موقف میں فوری تبدیلی پیدا کردی تھی۔ دراصل طالبان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے درکار کل جماعتی اتفاق ِ رائے کے راستے میں پی ٹی آئی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لئے گمان یہ گزرتا ہے کہ خیبرپختونخوا سے تین مذہبی اور سیاسی پس ِ منظر رکھنے والے ثالث، جن میں پی ٹی آئی کے رستم شاہ مہمند ،جوطالبان کے خلاف فوجی ایکشن کے سخت مخالف ہیں، کمیٹی میں اس لئے شامل کئے گئے ہیں تاکہ حکومت اپنی طرف سے اتمام ِ حجت کرلے اور پی ٹی آئی کے پاس اعتراض کرنے کے لئے کوئی جواز باقی نہ رہے۔ اگر یہ چار رکنی کمیٹی بھی طالبان کو جنگ بندی کرنے پر راضی نہ کرسکی تو خیبرپختونخوا حکومت اور پی ٹی آئی کے پاس ان کے خلاف فوجی ایکشن کی مخالفت کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔
اس وقت پرامن مذاکرات کے راستے میں کچھ اسٹرٹیجک رکاوٹیں حائل ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تحریک ِ طالبان پاکستان کے رہنما مذاکرات شروع کرنے کے لئے ناممکن شرائط رکھ رہے ہیں... وزیرستان میں فوجی آپریشن بند کیا جائے، تحریک ِ طالبان پاکستان کے تمام قیدیوں، بشمول تین اہم ترین رہنمائوں(مسلم خان، محمود خان اور مولوی عمر)کو رہا کیا جائے، آپریشن میں ہونے والے نقصان کے ازالے کے طور پر اربوں روپے ادا کئے جائیں اور ملک بھر میں طالبان کا تشریح کردہ شرعی نظام نافذ کیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے سوالات اٹھتے ہیں جن کے جوابات ہنوز سامنے نہیں آئے ہیں... کمیٹی کو بامقصد بات چیت کرنے کے لئے کتنا وقت دیا جائے گا یا کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کی آڑ میں طالبان صرف وقت حاصل کرتے ہوئے خود کو مزید منظم کرلیں گے؟ اس سے پہلے جب گزشتہ اکتوبر کو تحریک ِ طالبان پاکستان نے میجر جنرل ثنااﷲ نیازی کو شہید کیا تو طالبان کے لیڈر ملافضل اﷲ نے برملا کہا تھا...’’حکومت کے ساتھ مذاکرات ایک جنگی حکمت ِ عملی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘‘ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کمیٹی میں فعالیت کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوئے تو کیا ہوگا؟ یا پھر اگر کمیٹی ملا فضل اﷲ سے براہِ راست بات چیت کرنے نہیں جارہی تو پھر کس سے بات کی جائے گی؟ اگر مذاکرات کے دوران بھی دہشت گردی کے حملے جارہے رہے تو کیا طالبان کے بیان کو کافی سمجھا جائے گا کہ ان حملوں میں ان کا ہاتھ نہیں؟
اس وقت دکھائی یہی دیتا ہے کہ اس کمیٹی کے ذریعے نہ جنگ اور نہ ہی امن کی راہ ہموار ہوگی، اس سے صرف کنفیوژن ہی پھیلے گا اور اس کنفیوژن کا فائدہ صرف طالبان ہی اٹھائیں گے اور پاکستانیوں کا خون بہاتے رہیں گے۔نواز شریف طالبان کے خلاف بھرپور جنگ سے اس لئے کترا رہے ہیں کیونکہ زمینی حقائق بہت تلخ ہیں۔ حکومت کے نزدیک سب سے کڑوی گولی یہ ہے کہ طالبان فی الحال پرسکون صوبے پنجاب میں کارروائیاں شروع کردیں گے۔ صوبے کے آئی جی پولیس نے فوری طور پر اسپیشل برانچ اور انسداد دہشت گردی کے محکمے کو ہدایت کردی ہے کہ طالبان حملوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے تیار رہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان سرکاری دفاتر اور حکومتی اراکین کو ہدف بنا سکتے ہیں۔ اس وقت سیکورٹی اداروں کو تین بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ تحریک ِ طالبان پاکستان کے راولپنڈی اور اسلام آباد کے قریبی علاقوں میں ٹھکانے موجود ہیں جبکہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں فرقہ وارانہ تنظیمیں ان کے ’’فرنچائز‘‘ معاون ہیں۔ ان کی عسکری طاقت اتنی زیادہ ہے کہ وہ لمحوں کے نوٹس پر پولیس اور شہری آبادی پر جہنم کے دروازے کھول سکتے ہیں۔ دوسرا مسئلۂ یہ ہے کہ پنجاب پولیس کے پاس نظریاتی اور جنونی دہشت گردوں ، جو گوریلا جنگ کے ماہر ہیں، کا مقابلہ کرنے کے لئے ہتھیاروں اور تربیت یافتہ دستوں کی کمی ہے۔ تیسرا مسئلۂ یہ ہے کہ پنجاب میں کئی حکومتوں کی غفلت کی وجہ سے فاٹا سے آنے والے افراد اتنی بڑی تعداد میں بس گئے ہیں کہ اب طالبان دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے بعد بڑے آرام سے ان کے درمیان گھل مل سکتے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ پنجاب بھی ’’کراچی ‘‘ بننے والا ہے۔
تاہم ان مسائل کو جواز بنا کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ حکمران جماعت، پی ایم ایل (ن) کو احساس ہونا چاہئے تھا کہ ایک دن پانی سر سے گزرنا ہے۔اُنھوں نے پنجاب کو ملک بھر میں فساد پھیلانے والے انتہا پسندوں کا گڑھ بننے کی اجازت کیوں دی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتہا پسند شروع میں دفاعی اور خفیہ اداروں نے پالے تھے لیکن بعد میں ان گروہوں اور تنظیموں نے پر پرزے نکالتے ہوئے آزادانہ طور پر کارروائیاں شروع کردیں۔
ان کی وجہ سے ہم فرقہ وارانہ تشدد کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد خطے میں پیش آنے والے حالات کی وجہ سے ان کا القاعدہ اورافغان طالبان سے اشتراک ہوگیا چنانچہ اب یہ انتہائی خطرناک لڑاکا گروہ بن چکے ہیں۔ جس دوران یہ سب کچھ ہورہا تھا، پنجاب پر پی ایم ایل (ن) کی یکے بعد دیگرے کئی حکومتیں قائم ہوئیں لیکن ان تمام حکومتوں نے پروان چڑھنے والے ان انتہا پسندوں سے اغماض برتنے کی پالیسی میں عافیت سمجھی۔ اس وقت خاص طور پر جنوبی پنجاب میں موجود انتہا پسند عناصر بلوچستان اور کراچی کے کئی ایک خونی واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پنجاب کے موجودہ صوبائی وزیر ِ قانون رانا ثنااﷲ، جو ہمیشہ سے حکومت کو ان انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے سے روکتے رہے ہیں ، اب وہ ان کے خلاف فوجی آپریشن کا مطالبہ کررہے ہیں۔ برطانیہ کے ایک اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں اُنھوں نے کہا’’پاکستان ان دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے جنگ کرنے سے گریز نہیں کرے گا اور پنجاب بھر میں 174 کے قریب علاقوں، جہاں اپریشن کیا جائے گا، کے گرد سرخ لکیر کھنچ چکی ہے‘‘۔ تاہم بیان کے اگلے دن وزیر ِ اعظم کی طرف سے رانا صاحب کی سرزنش کی گئی تاہم اب ہمارے پاس زیادہ وقت باقی نہیں۔ اگر ہم پاکستان کو افغانستان بننے سے بچانا چاہتے ہیں تو فوری طور پر دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔
تازہ ترین