• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کی دُنیا سرمائے کی دُنیا ہے اور برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا پر ہونے والے ریفرنڈم میں برطانیہ کی عوام نے جس ’’ ہاں‘‘ کا اظہار کیا وہ یقینا سرمایہ دارانہ نظام کے لئے 440وولٹ کے جھٹکے سے کم نہیں ۔کیونکہ علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے والوں نے مستقبل میں پیدا ہونے والے حالات اور دُنیا کی معیشت میں ردوبدل کی پروا کئے بغیر ایسا کیا جس کا خمیازہ برطانیہ اور یورپی ممالک کو اکھٹے بھگتنا پڑے گا ۔کیونکہ یورپی یونین سے علیحدگی کی’’ ہاں‘‘ ہوتے ہی برطانوی پائونڈ امریکی ڈالر کے مقابلے میںاس نچلی سطح پر آگرا ہے جہاں وہ 1985میں تھا۔ اب ایک طرف تو برطانوی باشندوں نے 52فیصد شرح کے حساب سے یورپی یونین کو چھوڑنے کا فیصلہ دے دیا ہے جبکہ دوسری طرف برطانیہ کے معاشی ماہرین اور سرمایہ دار طبقے انجانے خوف میں مبتلا ہیں کیونکہ بہت سارے عالمی اقتصادی ماہرین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اس ریفرنڈم کا برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی معیشت پر گہرا منفی اثر پڑے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ براعظم یورپ کے ممالک کس حد تک اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرپاتے ہیں اور یورپی بینک اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لئے کتنے فنڈز مہیا کرے گا ۔اگر یورپی ممالک معیشت کی گراوٹ کا یہ جھٹکا سہہ گئے تو ان ممالک کا اتحاد آپس میں مزید مضبوط ہو گا ، لیکن اس کے بدلے برطانیہ ہر حال میں خسارے میں جائے گا اسی وجہ سے برطانوی عوام نے وزیر اعظم سے استدعا کی ہے کہ ریفرنڈم دوبارہ کرایا جائے کیونکہ ان حالات میں لندن کے مالیاتی ادارے دوسرے یورپی ممالک کے ساتھ کاروبار نہیں کر پائیں گے ۔اسپین ، اٹلی ، پرتگال اور یونان سے تارک وطن ہو کر برطانیہ جاکر مقیم ہونے والوں پرسردست فوری اور منفی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ برطانیہ کی حکومت ریفرنڈم سے پہلے ہی بچوں کو ملنے والی حکومتی مراعات میں کمی کا اعلان کر چکی ہے ۔یورپی یونین کے معاہدہ لزبن کے آرٹیکل 60 کے مطابق جو بھی ملک اس اتحاد سے نکلنا چاہے گا وہ دو سال قبل یورپی یونین کو آگاہ کرے گا اور ان دو سالوں میں یورپی یونین کو چھوڑنے والے ملک کے لئے نئی قانون سازی کی جائے گی کہ اب اتحاد ختم کرنے والے ملک کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے اس لئے پیشگی رائے قائم کرنامناسب نہیں ہو گا کہ اس انخلا ء کے نقصانات یورپی ممالک اٹھائیں گے یا برطانیہ اکیلا اس مصیبت کا سامنا کرے گا چونکہ برطانیہ یورپی ممالک کے منصوبہ جات میں فنڈز دینے والا بڑا ملک ہے اس لئے اب یورپی ممالک کے شروع کردہ تمام منصوبہ جات بھی مشکل سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچیں گے۔ اسپین میں اس وقت 15لاکھ برطانوی مقیم ہیں جنہیں یورپی یونین کا ممبر ہونے کی وجہ سے طبی سہولتوں میں رعایت اور ٹیکس میں چھوٹ جیسی مراعات ملتی تھیں اب برطانوی اس رعایت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔اٹلی اور اسپین سے جانے والا گوبھی کا ایک پھول برطانیہ میں اب دُگنی قیمت سے سے بھی زیادہ میں فروخت ہو گا جس کا لامحالہ اثر صارفین کی جیبوں پر پڑے گا کیونکہ برطانیہ کی یورپ کی جانب سے ہونے والی درآمدات اور برآمدات پر ٹیکس کے حوالے سے مسودہ جات تیار ہو کر نئے قوانین نافذ العمل ہونگے۔ اب برطانیہ کے بغیر یورپی ممالک کا اتحاد مزید مضبوط ہونے کے مواقع نظر آ رہے ہیں کیونکہ اس سے پہلے برطانیہ یورپی ممالک کے منصوبہ جات اور پروجیکٹس کو ’’ ویٹو ‘‘ کر دیتا تھا کیونکہ برطانیہ نے یورپی یونین کا حصہ ہوتے ہوئے بھی یورپی ممالک کے ساتھ سرحدی معاملات میں چھوٹ دی اور نہ ہی یورو کرنسی کو اپنے ملک میں رائج ہونے دیا ۔برطانیہ میں مقیم 75فیصدنوجوانوں نے یورپی ممالک میں سیر و سیاحت میں مراعات ملنے کی وجہ سے یورپی یونین سے انخلاء کے ریفرنڈم میں اپنا ووٹ ’’ ناں ‘‘ میں کاسٹ کیا لیکن اس کے باوجود علیحدگی کے ووٹوں میں شرح کی زیادتی سے نوجوانوں کے جذبات ہار گئے ۔یورپی یونین سے برطانیہ کو علیحدہ ہونے کے ریفرنڈم میں یوکے کے دیہی علاقوں کے مقیم لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کیا جس کی وجہ سے علیحدگی کے لئے ہاں کی شرح میں اضافہ تھا کیونکہ دیہی افراد کا یورپی یونین سے کاروباری حوالے سے کوئی لینا دینا نہ تھا اس لئے وہ اس چکمے میں آگئے کہ تارکین وطن اہل برطانیہ کے روزگار کے مواقع چھین رہے ہیں اور برطانیہ کے محکمہ تعلیم اور طبی سہولتوں پر زیادہ بوجھ تارکین وطن کا ہے ۔یہ کہنا غلط نہیں کہ اسی چکمے میں آکر ناراض ہونے والے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کا سبب بنی۔سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ دوسرا سوال یہ کہ کیا اس ریفرنڈم کے بعد برطانیہ ٹکڑے ٹکڑےہو جائے گا؟ کیونکہ اسکاٹ لینڈ کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ یورپی یونین میں شمولیت کے لئے برطانیہ سے آزادی کی ایک اور کوشش کرے گااور شمالی آئرلینڈبھی اس کی پیروی کر سکتا ہے۔ اسی طرح یورپی یونین کے کئی دوسرے ممالک بھی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کو سامنے رکھتے ہوئے خود بھی اس اتحاد سے علیحدہ ہو سکتے ہیں ۔یہ کہنا قطعاً غلط نہیں کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے اثرات ان ممالک پر زیادہ گہرے پڑیں گے جہاں علیحدگی پسند اپنے صوبوں کو اپنے ملک سے علیحدہ یا خود مختار بنانے کے لئے ریفرنڈم کرانا چاہتے ہیں ان یورپی ممالک میںا سپین سر فہرست ہے جہاں صوبہ کاتالونیا کو اسپین سے علیحدہ کرنے یا خود مختار ملک بنانے کی تحریک زوروں پر ہے ۔
تازہ ترین